چمن ،ایک بہترین تعلیمی ماحول کے ذریعے ہی بہتر معاشرہ ترتیب دیاجاسکتاہے ، مولانا محمد خان شیرانی

تعلیمی نظام میں دوری انگریز کی پالیسی تھی جس میں وہ کامیاب ہوگئے تھے ، آج مدرسہ اور عصری تعلیم کو الگ الگ کرنے سے تعلیم بہتری کی بجائے پستگی کی طرف جائے گی جس کا واضح ثبوت آج ہمارے سامنے ہے، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کا تعلیمی سیمینار سے خطاب

اتوار 19 نومبر 2017 22:20

چمن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 19 نومبر2017ء) ایک بہترین تعلیمی ماحول کے ذریعے ہی بہتر معاشرہ ترتیب دیاجاسکتاہے تعلیمی نظام میں دوری انگریز کی پالیسی تھی جس میں وہ کامیاب ہوگئے تھے اور آج مدرسہ اور عصری تعلیم کو الگ الگ کرنے سے تعلیم بہتری کی بجائے پستگی کی طرف جائے گی جس کا واضح ثبوت آج ہمارے سامنے ہیں اور نئے نسل کیلئے یکسا تعلیمی نظام ضروری ہیں جس میں دینی اور عصری طرز تعلیم یکسا ں طورپر نئے معماروں کو دیاجاسکے ان خیالات کا اظہار رکن قومی اسمبلی اور جمعیت علماء اسلام کے رہنماء مولانا محمد خان شیرانی نے چمن میں مقامی اسکول کے زیراہتمام تعلیمی سیمینار کے موقع پر کہی انہوںنے مزیدکہاکہ اس خطے میں انگریز استعمار کے غلبہ سے قبل علمی سطح اور معاشرتی اقدار انتہائی مثالی تھے نوآبادیاتی دور کے آغا ز میں خود انگریزوں کے نمائندوں نے برصغیر کے لوگوںکی اخلاقی روایات اور ان کی علمی جستجو اور تعلیمی مقام کے حوالے سے جو رپورٹس تاج برطانیہ کو ارسال کئے تھے ان میں اس خطے کی اعلیٰ حیثیت کااعتراف کیاگیاتھا اور ہر معاشرے کو اخلاقی اور علمی لحاظ سے زوال کا شکار کرنے کیلئے انگریزوں نے جو منصوبہ بندی کی اس کے تحت فن اور دین کی زبان کو ایک دوسرے سے الگ کردیاگیا اور زبان بھی اس پر مسلط کردی گئی جو مقامی ابادی کیلئے قطعی اجنبی تھی اور اس کے نتیجے میں برصغیر کے عوام ایک تو ماضی کے اپنے علمی ورثے سے بیگانہ ہوگئے اور جو جدید فنون کی زبنا تھی وہ دینی ضرورت پورا نہیں کرسکتی تھی اور دین کے زبان سے جدید علوم کی کفایت نہیں ہوسکتی تھی انہوںنے مزیدکہاکہ ہمیں اپنے تعلیمی نصاب میں تبدیلی کی بجائے ان کو بہتر کرنا ہوگا اور انگلش زبان کو سیکھنا چاہے مگر انگریزوں کے فیشن کو اپنانے کی بجائے اپنا اسلامی شعائر کو مزید بہترکرنا ہوگا اور جو آج اقراء سسٹم کے تحت تعلیمی نظام چلایاجارہاہے اس سے ہم اپنا پرانا کھویا ہوا مقام واپس حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ اس میں دونوں طرز کی تعلیم دیاجاتا ہیں انہوںنے مزیدکہاکہ دین کے زبان سے جدید علوم کی کفایت نہیں ہوسکتی تھی اور ایک نتیجے کے طورپر مسلم معاشرے کے اہل علم کے درمیان خود بھی دین ودنیا اور جدت وحدانیت کی بنیاد پر تقسیم کی دیواریں کھڑے ہوگئے انہوںنے کہاکہ پاکستان میں پچھلے کچھ عرصے یکجا دینی وعصری علوم اور انگریزی ومقامی زبانوں میں تعلیم دینے کا رحجان ہماری اپنے اصل روایات کے جانب پلٹنے کا پہلاقدم ہے لہٰذا اس رحجان کی حوصلہ افزائی ہونی چاہے اور جہاں کوئی خامی اور کمزوری اہل علم محسوس کریں وہاں تنقید کے بجائے تجویز اور اعتراض کی بجائے مشورہ دیناچاہے تقریب میں سابق صوبائی وزیر صحت حاجی عین اللہ شمس ،قبائلی رہنماء حاجی مجاہدخان نورزئی ،قبائلی رہنماء حاجی محمد حنیف کاکڑ ،مذہبی رہنماء مولانامحمد نسیم ،مولانا محمد عالم لانگو ،پرنسپل حکمت اللہ ،احمد خان اچکزئی نے بھی خطاب کیا جبکہ اس پہلے رکن قومی اسمبلی اور جے یوآئی کے رہنماء مولانام حمد خان شیرانی نے جمعیت علماء اسلام کے رہنماء حاجی محمد عیسیٰ عشے زئی بلالزئی کی اور اس کی شریک حیات کی جو مولوی برکت اللہ ،عبدالقاہر قاری ،مفتی سمیع اللہ کے والدین اور انجمن تاجران ودوکانداران کے ضلعی صدر حاجی جمال شاہ اچکزئی کے چچا اور چچی تھے کی فاتحہ خوانی بھی کی اوراظہارتعزیت کی ۔

متعلقہ عنوان :