2013 سے 2017 تک کے تمام دھرنوں کی جوڈیشل انکوائری ہونی چاہئے، اراکین سینٹ کا مطالبہ

دھرنا دینے والوں سے کیوں معاہدہ کیا گیا اور فوج کو کیوں طلب کیا گیا، اتنا بڑا واقعہ ہوا ہے، حکومت پارلیمان کو اعتماد میں لینے کے لئے کیوں تیار نہیں، چیئرمین سینٹ ریاض کانفرنس وزیراعظم کے لئے زیادہ اہم تھی یا اندرونی معاملات اہم تھی رضا ربانی ارکان پارلیمان، ان کے گھروں پر حملے کرنے والوں کی مذمت کرتا ہوں، یہ ہمارے سیاسی و مذہبی اسلوب کے خلاف ہے، اعظم سواتی پوری قوم بدقسمت حالات کا شکار تھی، وزیر داخلہ کو ہائی کورٹ میں سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا، راجہ ظفر الحق رینجرز فوج کے نہیں وزارت داخلہ کے ماتحت ہے، الیکٹرانک و سوشل میڈیا کا بلیک آئوٹ کیا گیا۔ عوام کو گمراہ کیا گیا، مستند علماء کو دیکھنا چاہئے کہ کوئی گستاخی کا مرتکب ہوا بھی ہے یا نہیں سینیٹر سحر کامران ، سینیٹر کرنل (ر) سید طاہر حسین مشہدی و دیگر اراکین کا ایوان بالا میں اظہار خیال

پیر 27 نومبر 2017 21:45

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 27 نومبر2017ء) اراکین سینٹ نے مطالبہ کیا ہے کہ 2013ء سے 2017ء تک کے تمام دھرنوں کی جوڈیشل انکوائری ہونی چاہئے۔ ہر دھرنا پہلے سے زیادہ خطرناک اور پرتشدد ہوتا ہے۔ پیر کو ایوان بالا کے اجلاس میں چند دنوں سے جاری دھرنے کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ نے دھرنے والوں اور حکومت کے درمیان معاہدے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دھرنا دینے والوں سے کیوں معاہدہ کیا گیا اور فوج کو کیوں طلب کیا گیا، اتنا بڑا واقعہ ہوا ہے۔

حکومت پارلیمان کو اعتماد میں لینے کے لئے کیوں تیار نہیں۔ اتنے سنگین حالات تھے، میڈیا کو 27 گھنٹے کے لئے کیوں بند کرنا پڑا۔ چیئرمین سینیٹ سینیٹر میاں رضا ربانی نے وزیر مملکت برائے داخلہ کی موجودگی کو سراہا اور کہا کہ ریاض کانفرنس وزیراعظم کے لئے زیادہ اہم تھی یا اندرونی معاملات اہم تھی سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ ارکان پارلیمان اور ان کے گھروں پر حملے کرنے والوں کی مذمت کرتا ہوں۔

(جاری ہے)

یہ ہمارے سیاسی و مذہبی اسلوب کے خلاف ہے۔ آج پارلیمان میں کوئی جواب دینے کے لئے تیار نہیں۔ چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ حکومت کو پارلیمان کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے قائد ایوان سینیٹر راجہ ظفر الحق سے مخاطب ہو کر کہا کہ حکومت خود سے اس معاملہ پر پارلیمان میں بات نہیں کرنا چاہتی۔ ملک دو دن سے خانہ جنگی کی کیفیت کا شکار رہا۔ وزیر ملک سے باہر ہیں اور وزیر داخلہ شہر سے باہر، جو ہو رہا ہے یہ ناقابل قبول ہے۔

قائد ایوان سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ پوری قوم بدقسمت حالات کا شکار تھی۔ وزیر داخلہ کو ہائی کورٹ میں سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایوان بالا کے اجلاس میں صورتحال کے حوالے سے حقائق سامنے لائیں گے۔ اس حوالے سے ایوان میں بحث بھی کی جائے گی۔ چیئرمین نے کہا کہ وزیر داخلہ کو ہائی کورٹ سے پہلے ہی ایک نوٹس مل چکا تھا اس لئے وہاں جانا ضروی تھا۔

چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ توہین عدالت ہے تو توہین پارلیمان بھی ہے۔ سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ وزیر داخلہ نے بیان دیا کہ عدالت کے کہنے پر انتظامیہ نے آپریشن کیا۔ وزیر قانون کو استعفیٰ دینا پڑا۔ ساری باتوں سے پردا اٹھایا جائے کہ کس کے کہنے پر قانون میں ترمیم کی گئی۔ سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ اس پارلیمان کے سامنے پورے 126 دن دھرنا رہا، پارلیمان میں کسی کو اندر آنے اور جانے کی اجازت نہیں تھی۔

انگلی اٹھنے کی بات کی گئی، آج کس طرح بات کر رہے ہیں۔ پارلیمان پہلے بھی مقدس تھی، ہمیں اپنی غلطیوں سے سیکھنا چاہئے۔ سینیٹر کرنل (ر) سید طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ رینجرز فوج کے نہیں وزارت داخلہ کے ماتحت ہے۔ سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ الیکٹرانک و سوشل میڈیا کا بلیک آئوٹ کیا گیا۔ عوام کو گمراہ کیا گیا، مستند علماء کو دیکھنا چاہئے کہ کوئی گستاخی کا مرتکب ہوا بھی ہے یا نہیں عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔

مذہب کی غلط تشریح نہیں ہونی چاہئے۔ سینیٹر فرحت الله بابر نے کہا کہ دھرنے اب معمول بن گئے ہیں۔ ہر دھرنا پہلے سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ پہلے امپائر کے انگلی اٹھنے کی باتیں ہوتی تھیں۔ 2013ء، 2014ء، 2016ء اور 2017 کے دھرنوں کی جوڈیشل انکوائری ہونی چاہئے۔ پتہ چلے کس نے دھرنا دیا اور کیا مقاصد تھے۔ دھرنے کے حوالے سے جو پریس ریلیز اور بیان دیا گیا وہ افسوسناک ہے۔

سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ وزیر داخلہ اس معاملے سے نمٹنے میں ناکام رہے۔ ملک کے 99 فیصد عوام کا ختم نبوت پر یقین ہے۔ راجہ ظفر الحق کمیٹی کی رپورٹ شائع ہونی چاہئے۔ پتہ چلا ہے کہ کوئی کمیٹیبنی ہی نہیں تھی۔ اس معاملے پر دونوں ایوانوں کے اجلاس بلائے جانے چاہئے تھے۔ کامل علی آغا نے کہا کہ راجہ ظفر الحق پر سب کو اعتماد تھا۔ ان کی کمیٹی کی رپورٹ سامنے آنی چاہئے۔

راجہ ظفر الحق جو بھی رپورٹ دیں گے اس کو قبول کریں گے۔ سینیٹر ہمایوں مندوخیل نے کہا کہ پارلیمان کی حالت یہ ہے کہ قانون سازی کے لئے ہم 69 سینیٹرز جمع نہیں کر سکے۔ اس میں صرف حکومت ذمہ دار نہیں۔ ہمیں مذہبی معاملات میں پوائنٹ سکورنگ نہیں کرنی چاہئے۔ سینیٹر سردار اعظم موسیٰ خیل نے کہا کہ آزادی اظہار رائے پر پابندی افسوسناک ہے۔ جمہوریت کے خلاف سازش کی گئی ہے۔

دھرنے والوں کو روٹی پانی کہاں سے ملتا تھا، دھرنے والوں کے بااثر لوگ سیرینا ہوٹل میں رات گذارتے تھے۔ بیرسٹر سیف نے کہا کہ اسلام آباد میں چند دن جو ہوتا رہا اس نے بہت سے پردے آشکار کر دیئے ہیں۔ پورے ملک میں کنفیوژن پھیلائی گئی ہے اور معاہدے نے اس کنفیوژن میں اضافہ کر دیا ہے۔ دارالحکومت کو یرغمال بنانے والوں کو محفوظ راستہ دیا گیا، دنیا کو پیغام گیا کہ چار پانچ ہزار لوگوں کو سڑکوں پر بٹھا دیا جائے تو جو چاہے حکومت سے منوا لو۔

براہ راست ریاستی اداروں کے ارکان کو دھمکیاں دی گئیں اور ریاست کچھ نہ کر سکی۔ صرف حکومت نہیں، اپوزیشن جماعتوں پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، مذہبی جماعتوں نے بھی ہوشیاری اور چالاکی سے کام لیا اور ریاست کمزور ہوئی۔ سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ ہم اس معاملے پر سیاست کیوں کر رہے ہیں۔ پہلے دھرنے جائز تھے اب کیسے غلط ہو گئے۔

ان دھرنوں میں سیاسی جماعتوں کے لوگ جا کر بیٹھے اور ان کو جا کر صحیح کہا۔ حکومت میں کمزوریاں ہیں، بڑی بڑی باتیں کرنے والی سیاسی جماعتیں نیب قانون پر گھٹنے ٹیک گئیں جس طرح کی سیاست کی جا رہی ہے ہم اس کی حمایت نہیں کرتے۔ سینیٹر تنویر الحق تھانوی نے کہا کہ عقیدہ ختم نبوت ہمیں اپنی جانوں سے بھی زیادہ عزیز ہے لیکن خلق خدا کو جس چیز سے تکلیف ہو وہ درست نہیں۔

اگر دھرنا دینا جمہوریت کا تقاضا ہے تو اس پر نظرثانی کی جائے، ہر دھرنے کی مذمت کرنی چاہئے۔ دھرنا خواہ کوئی بھی مسلک یا سیاسی جماعت دے اسے بغاوت قرار دیا جائے اور اس پر پابندی لگائی جائے۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یہ پارلیمان اور آئین نہ ہو، ضیاء الحق کی روح یہ دھرنا کر رہی تھی، اس دھرنے کے پیچھے کیا مائنڈ سیٹ تھا خاص قوت اور طاقت اس دھرنے کے پیچھے تھی۔

اس ملک میں منفی مارشل لاء ہے۔ دھرنے والوں نے پارلیمان اور عدلیہ کو گالیاں دیں۔ کچھ طاقتیں وقت سے پہلے الیکشن اور تین چار سال کے لئے حکومت چاہتی ہیں۔ الیکشن ایک دن کے لئے بھی آگے نہیں ہونا چاہئے۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ دھرنے والوں کو درست طریقے سے ہینڈل نہیں کیا گیا۔ دھرنا نہیں ہونا چاہئے ہم دھرنے کے خلاف ہیں لیکن راجہ ظفر الحق کمیٹی کی رپورٹ سامنے آنی چاہئے۔

چیئرمین سینیٹ سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ پارلیمان جمہوریت کا تحفظ اور دفاع کرے گی اور جمہوری نظام پر کوئی آنچ نہیں آنے دی جائے گی۔ پیر کو ایوان بالا کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ گزشتہ دنوں کے واقعات نہایت سنگین ہیں اور یہ پوری قوم کے لئے لمحہ ء فکریہ ہے، جو ٹرینڈز ابھر کر سامنے آئے ہیں وہ نہ صرف سیاست اور جمہوریت بلکہ ریاست پاکستان کے لئے بہت خطرناک ہیں، تمام سیاسی قوتوں، دانشوروں اور پروفیشنلز کو قومی بیانیہ تیار کرنا ہوگا تاکہ ان ٹرینڈز کو روکا جائے۔

اس میں قائدانہ کردار پارلیمان کا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ حکومت کا رویہ پارلیمان کے ساتھ کیا ہے۔ پارلیمان آئین پاکستان کا تحفظ بھی کرے گی اور دفاع بھی اور جمہوری نظام پر بھی پارلیمان کوئی آنچ نہیں آنے دی گی خواہ وہ مشرف فارمولا ہو یا ٹیکنو کریٹ فارمولا جو آئین کا نظام ہے وہی ملک کو اکٹھا رکھ سکتا ہے۔ ریاست کی رٹ جو مجروح ہوئی ہے اس کو پارلیمان اپنی بھرپور کوششوں سے دوبارہ بحال کرے گی۔