پنجاب حکومت نے لارجر بنچ کے حکم پر سانحہ ماڈل ٹائون سے متعلق انکوائری ٹربیونل کی رپورٹ کو پبلک کر دیا

رپورٹ نا مکمل اور نقائص سے بھرپور ہے ، رپورٹ میں کسی بھی حکومتی شخصیت یا سرکاری افسر کو قصور وار نہیں ٹھہرایا گیا رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پڑھنے والے خود اسے پڑھ کر ذمہ داری کا تعین کر سکتے ہیں، اگر ایسا ہے تو بہت سے لوگ علامہ صاحب پر اس کی ذمہ داری عائد کر سکتے ہیں او روہ کریں گے انکوائری ٹربیونل نے ذرائع کی رپورٹس پر انحصار کیا گیا، درخواست کے باوجود انہیںرپورٹ کا حصہ نہیں بنایا گیا اس لئے بھی پبلک نہیں کرنا چاہتے تھے کہ نقائص پر ٹربیونل کے جج کے حوالے سے باتیں ہونگی بہت سے اور بھی انکوائری کمیشنز کی رپورٹس التواء میں ہیں ،امید ہے وہ بھی پبلک تک پہنچیں گی رانا ثنا اللہ کی زعیم قادری، ملک محمد احمد خان اور رانا ارشد کے ہمراہ پریس کانفرنس

منگل 5 دسمبر 2017 20:00

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 05 دسمبر2017ء) پنجاب حکومت نے لاہو رہائیکورٹ کے لارجر بنچ کے حکم پر سانحہ ماڈل ٹائون سے متعلق جسٹس باقر نجفی کے انکوائری ٹربیونل کی رپورٹ کو پبلک کر دیا جبکہ صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ خان نے کہا ہے کہ رپورٹ نا مکمل اور نقائص سے بھرپور ہے، رپورٹ میں کسی کبھی حکومتی شخصیت یا کسی سرکاری افسر پر انفرادی طور پر ذمہ داری عائد نہیں کی گئی بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ رپورٹ پڑھنے والے خود اسے پڑھ کر ذمہ داری کا تعین کر سکتے ہیں، انکوائری ٹربیونل نے ذرائع کی رپورٹس پر انحصار کیا ہے جبکہ ہماری خط و کتاب کے باوجود انہیںرپورٹ کا حصہ نہیں بنایا گیا ، انکوائری ٹربیونل کے سربراہ نے جائے وقوعہ کا دورہ ہی نہیں کیا ،ہم اس لئے بھی رپورٹ پبلک نہیں کرنا چاہتے تھے کہ رپورٹ میں سامنے آنے والے نقائص اور دیگر معاملات پر ٹربیونل کے معزز جج صاحب کے حوالے سے بھی باتیں ہوں گی ۔

(جاری ہے)

وزیر قانون رانا ثنا اللہ خان نے 90شاہراہ قائد اعظم پر صوبائی وزیر اوقاف و مذہبی امور زعیم حسین قادری ، پنجاب حکومت کے ترجمان ملک محمد احمد خان اور وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی رانا ارشد کے ہمراہ ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔ رانا ثنا اللہ خان نے کہا کہ ڈھائی تین سال یہ پراپیگنڈا کیا گیا کہ اس رپورٹ میں بہت سے انکشافات اور ثبوت ہیں ۔

انہوںنے کہا کہ عوام کے بہترین مفاد میں رپورٹ کو پبلک کرنے سے متعلق لارجر بنچ کے فیصلے سے مشروط کیا گیا ۔ رپورٹ میں کسی حکومتی شخصیت یا سر کاری افسر کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا ۔رپورٹ میں جگہ جگہ واضح لکھا ہے کہ عوامی تحریک کے کارکنوں کی مزاحمت تصادم کی وجہ بنی اور اس حوالے سے میڈیا کی شہادتیں اور کلپس موجود ہیں۔ یہ کہا گیا کہ غریبوں پر ظلم ہوا لیکن یہ بھی بتایا جائے قانونی اقدام کے راستے میں کون رکاوٹ بنا ،کس نے وہاں لوگوں کو اکٹھا کیا اور کہا کہ شہادت کا وقت آ گیا ہے باہر نکلو ،کس نے وہاں لوگوں کو تصادم کے لئے ابھارا او ریہ انتہائی بد قسمت واقعہ ہوا۔

یہ رپورٹ قانون کی نظرسے ڈیفکٹو ہے ۔ جن رپورٹس پر انحصار کیا گیا وہ متعلقہ ہیں ہی نہیں ۔ رپورٹ میں کسی بھی عمل کی ذمہ داری وزیر اعلیٰ پنجاب پر عائد نہیں کی گئی بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ جب وزیر اعلیٰ کے نوٹس میں یہ معاملہ آیا توسیکرٹری ٹو سی ایم کو کہا گیا کہ وہ پولیس اور عوامی تحریک کے کارکنوں کو پیچھے ہٹائیں ۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنا بیان حلفی داخل کرایا اور اس حوالے سے قانون موجود ہے کہ یا تو بیان حلفی کو من و عن تسلیم کیا جائے یا اس پر کنفرنٹ کیا جائے لیکن یک رکنی ٹربیونل نے وزیر اعلیٰ کو بلایا ہی نہیں اس کا مطلب ہے کہ بیان حلفی کو من و عن تسلیم کیا گیا ۔

میرے اوپر الزام ہے کہ میں نے وقوعہ سے پہلے ایک میٹنگ کی صدارت کی ۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات تو ہو سکتی ہے کہ جو رکاوٹیں غیر قانونی ہیں انہیں ہٹایا جائے لیکن یہ کہاں لکھا ہے کہ وہاں چڑھ دوڑا جائے ، پھر وہاں کس نے کارکنوں کو اکٹھا کیا او رمارنے مارنے کا ماحول پیدا کیا اور پولیس کا گھیرائو کیا ۔ اس اجلاس میں چیف سیکرٹری پنجاب ، سیکرٹری داخلہ اور انٹیلی جنس ایجنسیز سمیت 16لوگ موجود تھے کیا ایسا ہو سکتاہے کہ ا س اجلاس کے فیصلے کو خفیہ رکھا جا سکے ۔

انہوںنے کہا کہ عوامی تحریک نے انکوائری ٹربیونل کا بائیکاٹ کیا اور رپورٹ میں ذرائع کی ان رپورٹس کودیکھا گیا جو مختلف خفیہ ایجنسیوں نے دی تھی اور وہ سب مختلف ہیں ۔رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ کس طرح ہجوم اکٹھا کیا گیا او رتصادم کا ماحول پیدا کیا گیا ۔ بتایا جائے ہمارے خط و کتابت کے باوجود ذرائع کی رپورٹس کورپورٹ کا حصہ بنایا گیا ۔

انہوںنے کہا کہ رپورٹ میں یہ لکھا ہے کہ واضح نہیں ہے کہ کس نے فیلڈ میں فائرنگ کے احکامات دئیے ۔ ایجنسیز کی سورس رپورٹ میں دونوں طرف سے فائرنگ کی رپورٹس ہیں۔ یک رکنی ٹربیونل نے ہمارے ثبوتوں کو بھی رد نہیں کیا ۔ انہوں نے کہا کہ انکوائری ٹربیونل میں کسی پر بھی ذمہ داری عائد نہیں کی گئی بلکہ یہ کہا گیا کہ جو اسے پڑھے وہ خود ذمہ داروں کا تعین کر سکتا ہے اس طرح جو جس طرح چاہے گا وہ جس پر مرضی ذمہ دار ی عائد کر سکے ۔

اگر ایسا ہے تو بہت سے لوگ علامہ صاحب پر اس کی ذمہ داری عائد کر سکتے ہیں او روہ کریں گے ۔وزیراعلیٰ نے فیصلہ کیا کہ اس طرح لاکھوں، کروڑوں پڑھنے والے اس رپورٹ کو پڑھ کر اپنا اپنا نتیجہ نکال لیں گے ۔ اس طرح رپورٹ کو ایکسپلائڈ کیا جائے گا اور مطلب کی چیزیں سڑکوںاور چوراہوں پر لا کر سیاسی فائدہ اٹھایا جائے گا ۔اسی طرح جے آئی ٹی بنی جس نے اس کی تحقیقات کیں۔

پانچ رکنی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل کی رپورٹ میں وزیراعلی شہباز شریف اور مجھے بے گناہ قرار دیا گیا تھا۔جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا کہ چھان بین کے دوران یہ ثابت نہیں ہوا کہ وزیر اعلی اور صوبائی وزیر قانون فائرنگ کا حکم دینے والوں میں شامل ہیں۔..........(جاری ہی) بقیہ حصہ) انہوں نے کہا کہ اس پر رائے لینے کے لئے رپورٹ سابق چیف جسٹس لاہو رہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے خلیل الرحمن خان کو بھجوائی جنہوں نے 17صفحات پر مشتمل رپورٹ دی ہے جس میں اس رپورٹ میں بہت سے نقائص کا ذکر کیا گیا ہے اور اس میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے متاثر ہونے کے حوالے سے الفاظ شامل ہیں اور انہوں نے تجویز دی کہ اس رپورٹ کو پبلک نہ کیا جائے ۔

انہوںنے کہا کہ یہ واضح ہے کہ انکوائری رپورٹ کا انسداد دہشتگردی عدالت میں زیر سماعت کیس کے ٹرائل پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوں گے اور فاضل لارجر بنچ نے بھی اس حوالے سے واضح حکم دیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ جسٹس باقر نجفی ہمارے لئے بے پناہ قابل احترام ہین لیکن انہوں نے جو رپورٹ دی ہے اس میں قانونی طو رپر کئی خامیاں ہیں او رمیرا حق ہے کہ میں انکی نشاندہی کروں ۔

انہوںنے بطور ہائیکورٹ کے جج یہ رپورٹ مرتب نہیں کی بلکہ ایک انتظامی حکم کے تحت ٹربیونل بنا ۔انہوں نے کہا کہ پولیس کو قطعاًمسلکی بنیادوں پرکھڑا نہیں کیا جاتا لیکن رپورٹ میں اس حوالے سے بھی کچھ باتیں ہیں ۔ انکوائری ٹربیونل کی رپورٹ فرقہ وارنہ ہم آہنگی کو متاثر کر سکتی ہے اس لئے رپورٹ کو پبلک نہیں کرنا چاہتے تھے ۔ انہوںنے کہا کہ ہمیں پتہ ہے کہ ہمارے مخالفین پراپیگنڈا کریں گے لیکن ہم نے انہیں پہلے بھی فیکٹس اورقانون کے مطابق دلائل کے ساتھ جواب دیا ہے اور آئندہ بھی دیں گے اور ٹرائل کورٹ میںانصاف کے تمام تقاضے پورے ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ میں مذہبی سکالر کے طور پر ڈاکٹر طاہر القادری کی بہت عزت کرتا ہوں لیکن وہ قسم اٹھا کر کہہ دیں کہ کیا انہیں سب پتہ نہیں ہے کہ موقع پر کیا ہوا ۔ ایک عالم دین ہونے کے ناطے یہ ان کے شایان شان نہیں ۔ انہوںنے کہا کہ دوسری طرف ہم پہلے بھی پیشکش کر چکے ہیں اور دوبارہ بھی پیشکش کرتے ہیں کہ خانہ کعبہ ، گوشہ درود یا اللہ کے کسی بھی گھر میں آ جائیںجو باتیں ہم نے اپنے حوالے سے کہیں ہیں وہ دوبارہ کہنے کے لئے تیار ہیں۔

انہوںنے ایک سوال کے جواب میںکہا کہ رپورٹ پبلک ہونے کے بعد اگرکوئی اسے ایکسپلائڈ کرے گا اس کی ذمہ داری جنہوںنے رپورٹ تیار کی یا جو پبلک کرانے چاہتے ہیں ان کی ہو گی ۔میں یہ بھی کہنا چا ہتاہوں کہ اور بہت سے انکوائری کمیشنز کی رپورٹس التواء میں ہیں انہیں امید ہے وہ بھی پبلک تک پہنچیں گی ۔

متعلقہ عنوان :