2015 کو ایف بی آر کے کرپٹ ملازمین کے خلا ف198 کیسز تھے ، 99 کا فیصلہ ہوگیا،

6 کیسز میں ملازمین کو فارغ کر دیا گیا،ایف بی آر کی سینیٹ قائمہ کمیٹی خزانہ کی ذیلی کمیٹی کو بریفنگ بقیہ کیسز کچھ عدالتوں میں ہیں اور کچھ کی انکوائری جاری ہے،

جمعرات 7 دسمبر 2017 21:15

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 07 دسمبر2017ء) سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی ذیلی کمیٹی کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر )نے بتایا کہ 2015 کو ایف بی آر کے کرپٹ ملازمین کے خلا ف198 کیسز تھے جن میں سے 99 کا فیصلہ ہوگیا 6 کیسز میں ملازمین کو فارغ کر دیا گیا بقیہ کیسز کچھ عدالتوں میں ہیں اور کچھ کی انکوائری جاری ہے۔کمیٹی کا اجلاس کنونیئر کمیٹی سینیٹر محسن عزیز کی زیر صدار ت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔

اجلاس میں سینیٹر محمد محسن خان لغاری اور سینیٹرسعود مجیدنے شرکت کی۔ کنونیئر کمیٹی محسن عزیز نے کہا کہ ملک کی زبوں حالی کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن کی وجہ سے ہے۔ادارے کرپٹ ملازمین کے خلاف موثر کارروائی عمل میں نہیں لاتے بڑے کیسز پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتایا ان ملازمین کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا جنہوں نے اربوں کھربوں کے فراڈ کیے ہوں ، لوگ فراڈ کر کے بیرون ملک فرار ہوجاتے ہیں ملک کو اربوں کا نقصان ہوتاہے اور ملکی معیشت خسارے میں چلی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

ملک میں اندرونی وبیرونی قرضوں کی بھر مار ہے۔انہوں نے کہا کہ کرپٹ ملازمین کے خلاف نہ صرف ادار ے کارروائی کریں بلکہ جتنی کرپشن کی جاتی ہے اس کی ریکوری بھی کی جائے۔ ایف بی آر حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ 99 فیصد کیسز ادارے کے اپنے چیک اینڈ بیلنس کی وجہ سے سامنے آئے ہیں عوامی شکائت بہت کم ہیں۔ نیب اور ایف آئی اے کو کیسز بھی ریفر کیے ہوئے ہیں۔

ذیلی کمیٹی نے ادارے کی طرف سے کرپٹ افسران کی دی گئی فہرست کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہوئے فیصلہ کیا کہ بڑی نوعیت کے کیسز کا جائزہ لے کر آئندہ اجلاس میں ان کیسز کے متعلق تفصیلات اور کی گئی انکوائریاں طلب کی جائیں گی۔ ذیلی کمیٹی نے یہ بھی ہدایت کی کہ جعلی ریفنڈ کیسز میں جتنے ملازمین ملوث ہیں ان کی تفصیلات بھی آئندہ اجلاس میں پیش کی جائیں۔(فیاض چوہدری

متعلقہ عنوان :