سقوط ڈھاکہ:پاکستان کے طاقتور طبقات کی ترجیحات آج بھی ملک اور قوم کی بجائے ذاتی مفادات ہیں‘مشرقی پاکستان سمیت ہرقومی سانحے کو ”ٹاپ سیکرٹ“قراردے کر نااہلیوں کو چھپانے کی کوشش کی گئی-سیاستدان‘ سول اور فوجی حکمران جمہوری ادارے بنانے میں بھی ناکام رہے-سقوط ڈھاکہ کے تناظر میں خصوصی تجزیاتی رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم ہفتہ 16 دسمبر 2017 13:46

سقوط ڈھاکہ:پاکستان کے طاقتور طبقات کی ترجیحات آج بھی ملک اور قوم کی ..
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-میاں محمد ندیم۔16 دسمبر۔2017ء) دنیا میں زندہ قومیںاپنی غلطیوں سے سبق سیکھتی ہیں تو ترقی کرتی ہیں لیکن ہم نے 70سالوں میں پیش آنے والے قومی سانحات سے کچھ نہیں سیکھا حتی کہ1971 میں مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے تک ہر غلطی کو قومی رازقراردے کر دبایا گیا۔ مشرقی پاکستان کا سانحہ بطور ریاست ہماری قومی ناکامی تھی نہ ہی ہم نے اکثریت کو مانا اور نہ اکثریت کے مینڈیٹ کو اگر 1948، 1956، 1960اور 1971 میں ہم نے اکثریتی صوبے کااحترام کیاہوتا تو مشرقی پاکستان کا سانحہ نہ ہوتا۔

گزشتہ 46سال میں ریاست کے سارے ستون اپنے ذمہ کردار ادا کرنے اورغلطیوں سے سبق سیکھنے کے قابل نہیں ہوئے۔ اس کے برعکس ہم اسی طرح کی غلطیاں دہرا رہے ہیں ۔ ملک میں فوجی حکومتیں آئیں اور جمہوری بھی مگر کوئی بھی ملک وقوم کو ڈیلیور کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا بلکہ خاندان تشکیل پائے اور عوام الناس کے خلاف ایک ایسا اتحاد دیکھنے میں آیا جس کا مقصد اقتدار میں رہتے ہوئے بیرون ممالک جائیدادیں بنانا‘اقتدار کوخاندانی کاروبارکو دوگنا‘چار گنا ترقی دینااور اقرباءپروری رہا جبکہ عام شہری دن بدن پستے چلے گئے‘سیاستدان‘ سول اور فوجی حکمران جمہوری ادارے بنانے میں بھی ناکام رہے اور اس کے نتیجے میں ان کا ریکارڈ بطور صاف حکمران بہت خراب رہالہٰذا 1970 کے انتخابات کے نتیجے میں پہلی منتخب حکومت کے بعد کرپشن سیاسی کلچر کی پہچان بن گئی اور ملک میں سیاسی رشوت ستانی کا دور شروع ہوا جو آج تک عوام کا استحصال کررہا ہے۔

(جاری ہے)

16دسمبر کے سانحے کی تحقیقات کے لیے محمود الرحمان کمیشن قائم کیا گیا مگر مکمل رپورٹ آج تک سامنے نہیں آسکی۔اگرچہ اس سانحے میںبھارت کی سازشیں کار فرماتھیں مگر ہماری کمزوریوں اور غلطیوں نے دشمن کو سازش کا موقع فراہم کیا مگر آج 46 برس بعد بھی ہمارے طاقتور طبقات کی ترجیحات ملک وقوم کی بجائے وہی ہیں جو1971میں تھیں۔بھارت کی کاسہ لیسی، ملک کے حکمران طبقے کی نااہلی اور عاقبت نااندیشی کے باعث پاکستان کا مشرقی بازو ہم سے جدا ہوگیا۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں جن عوامل نے اہم کردار ادا کیا ان میں اکثریتی آبادی میں شدید احساس محرومی، مغربی پاکستان کے بااثر طبقے کا مشرقی پاکستانیوں کے ساتھ ناروا سلوک، ملک میں جمہوری مزاج کا فقدان اور ملک کے سیاسی نظام میں بار بار کی فوجی مداخلت شامل ہیں جس نے وفاق کی جانب سے مشرقی پاکستان کے شہریوں میں حقوق کی پامالی کے احساس کو شدید تر بنادیا تھا۔

یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان ایک وفاق کی صورت میں جمہوری عمل کے ذریعے وجود میں آیا، اس لیے اس کی بقا بھی جمہوری روایت پر کاربند ہوکر ہی ممکن ہے۔ وفاق کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ وفاق میں شامل تمام اکائیوں میں یہ احساس ہمیشہ زندہ اور مضبوط رہے کہ وفاق کے انتظامی معاملات میں وہ بھی برابر کی شریک ہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں وہاں کے عوام میں ان احساسات کی عدم موجودگی نے کلیدی کردار ادا کیا جسے مشرقی پاکستان میں بھارتی پشت پناہی سے چلنے والی تنظیم ”مکتی باہنی“ نے ایک خطرناک ہتھیار کے طور پر استعمال بھی کیا۔

مگر مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے ہماری قیادت نے کوئی سبق نہیں لیا۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ہم نے مغربی پاکستان کے باقی چار صوبوں کو پاکستان کا نام تو دے دیا اور اس کے نظم و نسق کو چلانے کے لیے ایک متفقہ دستور بھی بنا لیا مگر اس دستور پر عمل پیرا ہونے میں ہم ابھی بھی بری طرح ناکام دکھائی دیتے ہیں۔

متعلقہ عنوان :