اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 29 دسمبر 2017ء) : گذشتہ برس
پانامہ کیس کا انکشاف ہونے کے بعد سے ہی مسلم لیگ ن کے بُرے دن شروع ہو گئے
۔ پہلے پہل تو پانامہ کو جواز بنا کر مسلم لیگ ن اور
نواز شریف کو تنقید
کا نشانہ بنایا جاتا تھا لیکن اس کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے نواز
شریف کے خلاف پانامہ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نا اہل قرار دے دیا ۔
ملک کی حکومتی جماعت نے اپنے قائد کو بچانے کی ہر ممکن کوشش تو لیکن اس میں
کامیاب نہیں ہو سکے۔ تاحیات نا اہلی کے بعد مسلم لیگ ن کے صدر اور سابق
وزیراعظم
نواز شریف نے آئندہ انتخابات میں اپنے چھوٹے بھائی اور وزیر اعلیٰ
پنجاب میاں محمد شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا اُمیدوار قرار دے دیا۔ تاہم
اب شہباز شریف کے دورہ
سعودی عرب نے سیاسی ایوانوں میں ایک ہلچل سی پیدا
کر رکھی ہے ۔
(جاری ہے)
مسلم لیگ ن کی قیادت کے اہم رہنماؤں کی
سعودی عرب میں موجودگی
سعودی حکومت اور شریف بردران میں کسی ممکنہ
این آر او کا اشارہ دیتی ہے۔
بروز بدھ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف
سعودی عرب سے خصوصی طور پر
آئے طیارے میں بیٹھ کر
سعودی عرب روانہ ہو گئے۔ ان کی
سعودی عرب روانگی سے
قبل خوشی دیدنی تھی ، روانگی سے قبل ائیر پورٹ پر الوداع کہنے آئے تمام
لوگوں سے انہوں نے خوش اسلوبی سے مصافحہ کیا اور
سعودی عرب کے خصوصی طیارے
میں بیٹھ کر روانہ ہو گئے ۔
شہباز شریف نے
سعودی عرب میں اعلیٰ
سعودی حکام
سے ملاقاتیں کیں۔
سعودی عرب میں شہباز شریف کے ہمراہ آصف کرمانی پہلے سے ہی
موجود ہیں جبکہ وفاقی وزیر برائے ریلوے خواجہ سعد رفیق بھی اہل خانہ کے
ہمراہ
سعودی عرب روانہ ہو چکے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی اہم قیادت کا
سعودی عرب
میں ہونا سیاسی ایوانوں میں چہ مگوئیوں اور قیاس آرائیوں کو جنم دے رہا تھا
۔
یہی نہیں بلکہ سابق وزیر اعظم
نواز شریف بھی ممکنہ طور پر کل
سعودی عرب
روانہ ہوں گے۔ ذرائع نے بتایا کہ
نواز شریف اور شہباز شریف
سعودی حکام سے
ملاقاتیں کریں گے ۔ کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ
سعودی شاہی خاندان نے شریف
خاندان کی اندرونی چپقلش پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے
نواز شریف کو بھی
سعودی عرب آنے کی دعوت دی، اور یہی وجہ ہے کہ نواز شریف
سعودی عرب روانہ ہو
رہے ہیں۔
شریف خاندان میں اندرونی اختلافات مزید طول پکڑ رہے ہیں ، اور
شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کے لیے اُمیدوار نامزد تو کیا گیا لیکن انہیں
نواز شریف کی جانب سے کسی گارنٹی کے بغیر اس پر اعتبار نہیں ہے۔ سیاسی
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ کے اُمیدوار کے لیے
نامزدگی محض ایک دکھاوا ہے جبکہ اصل بات تو یہ ہے کہ مسلم لیگ ن اقتدار میں
آتے ہی سب سے پہلے
نواز شریف کی نا اہلی کو ختم کروانے کی کوشش کرے گی جس
کے بعد
نواز شریف ہی وزیر اعظم ہوں گے ۔
اس بات کا تذکرہ پرویز رشید نے بھی
اپنے ایک انٹرویو میں کیا تھا۔ شہباز شریف نے
سعودی حکام سے ملاقات میں
مبینہ طور پر انہیں تمام تر صورتحال اور اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے جس کے
بعد
نواز شریف کو تحریک عدم ملتوی کرنے اور
نواز شریف سمیت مریم نواز کو
بھی اداروں کے خلاف سخت زبان استعمال نہ کرنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے ۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن نے برطانیہ کے بعد اب
سعودی
عرب کو اپنی سیاست کا مرکز بنا لیا ہے ،
سعودی عرب میں شریف برادران کی
بیٹھک کسی
این آر او کی جانب اشارہ ہے تاہم اس سے متعلق ابھی واضح طور پر
کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
ایک تاثر یہ بھی دیا جا رہا ہے کہ شہباز شریف
سعودی
حکام کی
نواز شریف سے ناراضی ختم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ دورہ
سعودی عرب کے دوران سابق وزیر اعظم
نواز شریف نے
سعودی عرب میں سات روز تک
سینئیر
سعودی حکام سے ملاقاتوں کی کوشش تو کی تھی لیکن وہ کامیاب نہیں ہو
سکے۔ جو
سعودی حکام کی شریف خاندان بالخصوص
نواز شریف سے ناراضی کا ثبوت
تھا۔
شہباز شریف کے حالیہ دورہ
سعودی عرب میں ان کی تُرکی کے وزیراعظم کے
ہمراہ خوشگوار موڈ میں تصاویر بھی سامنے آئیں جن کو دیکھ کر یہ کہنا غلط
نہیں ہو گا کہ تُرکی بھی
سعودی حکام کی شریف خاندان سے ناراضی ختم کرنے میں
اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ شہباز شریف اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ وہ مسلم
لیگ ن کے صدر اور سابق وزیر اعظم
نواز شریف کے بغیر اقتدار حاصل نہیں کر
سکتے اور عین ممکن ہے کہ اسی لیے آئندہ انتخابات سے قبل ہی انہوں نے
سعودی
عرب اور
نواز شریف کے مابین ہوئی غلط فہمیوں کو دور کرنے کا ارادہ کیا ۔
سعودی حکام کی جانب سے شہباز شریف کے لیے خصوصی طیارہ بھجوایا جانا شہباز
شریف کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔
سعودی حکام کی
نواز شریف سے ناراضی ختم
ہونے پر شریف خاندان کے اندرونی اختلافات میں بھی کمی آنے کا امکان ہے۔
شہباز شریف کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ اپنے بڑے بھائی کی عزت کرتے اور ان
کا کہا مان کر چلتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایک جانب تو شہباز شریف
سعودی شاہی
خاندان کی ناراضی ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، دوسرا ان کی کوشش ہے کہ
وزارت عظمیٰ کے اُمیدوار نامزد ہونے سے متعلق
نواز شریف انہیں کوئی گارنٹی
دیں۔
دوسری جانب پی ٹی آئی چئیرمین عمران خان نے حالیہ انٹرویو میں کہا کہ
یہ کچھ بھی کر لیں ،
سعودی عرب سے
این آر او لے آئیں یا امریکی صدر ٹرمپ
سے مدد طلب کر لیں ، شریف خاندان اب نہیں بچ سکتا۔