امریکی حکومت جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے قیام ،دہشتگردی کیخلاف جنگ کے خاتمہ کیلئے حقیقت پسندانہ نقطہ نظر اختیار کرے‘ افتخار علی ملک

امریکہ نہ صرف افغانستان کے اندر سے پاکستان کے خلاف کارروائیوں میں بھارت کے ملوث ہونے کی جانچ پڑتال کرے بلکہ کنٹرول لائن پر پاکستان کیخلاف بھارتی کارروائیوںمیں اضافہ کی طرف بھی توجہ دے ‘ بانی چیئرمین پاک امریکہ بزنس کونسل

منگل 2 جنوری 2018 16:41

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 02 جنوری2018ء) پاک امریکہ بزنس کونسل کے بانی چیئرمین افتخار علی ملک نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کو مسترد کر دیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان نے امریکا کے ساتھ کوئی جھوٹ اور دھوکہ دہی کی ہے۔ انہوں نے امریکی حکومت پر زور دیا کہ وہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے قیام اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے خاتمہ کیلئے حقیقت پسندانہ نقطہ نظر اختیار کرے۔

منگل کو جاری اپنے بیان میں افتخار علی ملک نے کہا کہ امریکہ نہ صرف افغانستان کے اندر سے پاکستان کے خلاف کارروائیوں میں بھارت کے ملوث ہونے کی جانچ پڑتال کرے بلکہ کنٹرول لائن پر پاکستان کیخلاف بھارتی کارروائیوںمیں اضافہ کی طرف بھی توجہ دے انہوں نے کہا کہ امریکہ فوج کو استعمال کرنے کے بجائے افغانستان میں امن کیلئے طالبان سے مذاکرات کرے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ یہ افغان مسئلہ کے حوالے سے پاکستان پر ڈو مور کے لئے دباو ڈالنا پریشان کن اور مایوس کن ہے۔ افتخار علی ملک نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان جوائنٹ ونچرز سے دونوں ملکوں کے مابین دیرپا اقتصادی قائم کئے جا سکتے ہیں اور ان سے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی مدد ملے گی۔ افتخار علی ملک نے کہا کہ امریکہ دو طرفہ سرمایہ کاری کے معاہدے میں مشکلات کو ختم اور ایک آزادانہ تجارتی معاہدہ (ایف ٹی ای) پر دستخط کرے اور پاکستان کو بھی بنگلہ دیش اور سری لنکا کی طرز پر ٹیکسٹائل کی برآمدات کیلئے ڈیوٹی میں رعایت اور مارکیٹ تک رسائی کا پیکیج دیا جائے۔

امریکہ کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن ریاست کے طور پر بھی پاکستان کے لئے ایک حوصلہ افزا پیکج دیا جانا ضروری ہے۔ مزید یہ کہ امریکہ اقتصادی تعلقات کو مزید فروغ دینے کے لئے پاکستانی تاجروں اور برآمد کنندگان کے لئے ویزا پابندیوں کو نرم کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان امریکا کا دیرینہ دوست ملک ہے اور اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتیجے میں اربوں ڈالر کے غیر معمولی اقتصادی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ پاکستان اور امریکہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں اتحادی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سابق وزیر خارجہ ہیلیری کلنٹن نے اپنے آخری دورہ کے دوران ری کنسٹرکشن زونز کے قیام کا وعدہ کیا تھا جس پر ابھی تک عملدرآمد نہیں ہوا۔ افتخار علی ملک نے کہا کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں تیز رفتار ترقی کرنے والے ملک کے طور پر ابھر رہا ہے اور امریکی کاروباری افراد کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی دنیا کے تمام ممالک کے لئے ایک مشترکہ خطرہ ہے اور پاکستان کسی بھی ملک کے خلاف اپنی سرزمین کے استعمال کی اجازت نہیں دیتا، امریکہ کو محفوظ پناہ گزینوں کے غلط بیانیہ پر زور دینے کے بجائے دہشت گردی کے خطرے کے خاتمہ کیلئے پاکستان کے ساتھ مخلصانہ طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن اور استحکام چاہتا ہے کیونکہ کابل میں امن پورے خطے کے مفاد میں ہیاور 16 سال کے تجربات کے بعد یہ واضح ہے کہ افغانستان میں مستقل امن صرف پاکستان کی فعال شرکت کے ساتھ ایک جامع سیاسی عمل سے ممکن ہے اور اس مقصد کیلئے پاکستان افغانستان اور امریکہ کے ساتھ کام کرنے کے لئے تیار ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ پاکستان نے ہمیشہ پر امن طریقہ سے تمام مسائل کو حل کرنے کی ترجیح دی ہے جبکہ امریکہ کے پاس بھی افغانستان میں اپنے فوجیوں کیلئے سامان کی سپلائی کیلئے پاکستان کی سڑکیں استعمال کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔

انہوں نے تجویز کیا کہ امریکہ اور پاکستان 2013 کے تجارت اور سرمایہ کاری پر مشترکہ ایکشن پلان پر تعاون کو بڑھائیں کیونکہ امریکہ پاکستان کی سب سے بڑی دو طرفہ برآمدی مارکیٹ اور غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری کا سب سے بڑا ذریعہ ہے انہوں نے کہا کہ تجارتی حجم کو بڑھانا دونوں ممالک کے مفاد میں ہو گا جوگزشتہ پانچ سالوں کے سے 5 ارب ڈالر کی سطح پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ان طویل جنگوں کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ افغانستان میں استحکام اور سلامتی کسی بھی ملک سے زیادہ پاکستان پاکستان کیلئے اہم ہے کیونکہ اس کے ساتھ ہماری طویل سرحد ہے اور ہم لاکھوںافغان پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہے ہیں۔