بلوچستان کے اگلے وزیر اعلیٰ کے لیے جوڑ توڑ شروع ہوگیا‘سرفراز بگٹی، صالح بھوتانی اور نوابزادہ چنگیز مری کے نام سامنے آگئے‘ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کا فیصلہ لاہور یا نواز شریف کی مرضی سے نہیں ہوگا بلکہ ہم خود کریں گے۔جان محمد جمالی

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 10 جنوری 2018 10:42

بلوچستان کے اگلے وزیر اعلیٰ کے لیے جوڑ توڑ شروع ہوگیا‘سرفراز بگٹی، ..
کوئٹہ(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔10 جنوری۔2018ء) بلوچستان کے نئے وزیر اعلیٰ کے لیے جوڑ توڑ کا آغازہوگیا ، مسلم لیگ(ن) کے صالح بھوتانی اور جان محمد جمالی کے نام سامنے آئے ہیں جبکہ وزیر اعظم اور میاں نواز شریف کے درمیان ملاقات میں فیصلہ کیا گیا کہ اگر اپوزیشن نے برتری ظاہر کی تو انہیں وزیر اعلیٰ کا امیدوار لانے کی پیشکش کی جائے گی۔

نون لیگ کے جان محمد جمالی نے کہاہے کہ بلوچستان کے اگلے وزیر اعلیٰ کا فیصلہ نواز شریف کی مرضی سے نہیں خود کریں گے۔انہوں نے کہا کہ جو بھی ہو آئین کے مطابق ہونا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف نیشنل پارٹی اور پختونخوا میپ کو زیادہ اہمیت دے رہے تھے، بلوچستان کی مسلم لیگ( ن)،مرکز کی نون لیگ سے مختلف ہے، کردو والا اسٹائل بلوچستان میں نہیں چلتا ہے۔

(جاری ہے)

دوسری جانب اسپیکر بلوچستان اسمبلی نے قائد ایوان نہ ہونے کی سمری گورنر بلوچستان کو بھیج دی جس کے بعد وہ کسی بھی وقت نئے قائد ایوان کے انتخاب کے لیے اجلاس بلاسکتے ہیں۔دوسری جانب سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثنااللہ زہری کے استعفے کے بعد حکمران جماعت مسلم لیگ(ن) کم و بیش 15 اراکین صوبائی اسمبلی کے باغی دھڑے کے فیصلے کا انتظار کرے گی جس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ اگلے وزیر اعلیٰ بلوچستان کے منصب کیلئے کس امیدوار کی حمایت کی جائے۔

عہدے سے استعفیٰ دینے والے نواب ثنااللہ زہری کی جگہ سنبھالنے کے لیے سابق وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی، سابق وزیر اعلیٰ صالح بھوتانی اور نوابزادہ چنگیز مری کو امیدوار قرار دیا جا رہا ہے تاہم مسلم لیگ( ن) کے باغی دھڑے اور نیشنل پارٹی دونوں کے حمایت یافتہ سرفراز بگٹی کو عہدے کے لیے مضبوط امیدوار قرار دیا جا رہا ہے۔بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ (ن) کے رہنما جان اچکزئی نے کہا ہے کہ وزارت اعلیٰ کے امیدوار کی حمایت یا اپوزیشن میں بیٹھنے کے حوالے سے ابھی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی۔ پارٹی اپنے اتحادیوں کے ساتھ بیٹھ کر مشاورت کرے گی کہ وزارت اعلیٰ کے لیے مشترکہ امیدوار میدان میں اتارا جائے یا پھر اپوزیشن میں بیٹھا جائے۔انہوں نے کہا کہ ہماری جماعت بلوچستان میں ترقیاتی عمل کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حاصل ہونے والی بڑی کامیابیوں کے سلسلے کو جاری رکھنا چاہتی ہے تاکہ اس لعنت سے چھٹکارا پایا جا سکے۔

وفاقی وزیر اور مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری اطلاعات مشاہداللہ خان نے کہا کہ حکومت بلوچستان کی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ پارٹی کے باغی اراکین اسمبلی کے خلاف تادیبی کارروائی کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ ہمیں دیکھنا ہو گا کہ قانون دانوں کی جانب سے پارٹی ڈسپلن کی کہاں خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اگر انہوں نے پارٹی کے وزیر اعلیٰ ثنااللہ زہری کے خلاف ووٹ دیا تو صرف اسی صورت میں ان کے خلاف پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کا سوال اٹھتا ہے۔

ہم صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور ہم اسے مناسبت سے اپنا فیصلہ کریں گے۔سابق وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ باغی اراکین اسمبلی کو اپنی شکایات پارٹی قیادت کے پاس لے کر آنا چاہیے تھا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ہم انتظار کریں گے اور دیکھیں گے کہ 15 سے 16 ووٹوں کے حامل یہ لوگ آنے والے دنوں میں کیا کرتے ہیں اور اسی حساب سے اپنی حکمت عملی طے کریں گے۔

حکمران جماعت کا اصرار ہے کہ بلوچستان میں جاری قیادت کے بحران کا آنے والے سینیٹ انتخابات کے نتائج پر برا اثر نہیں پڑے گا اور پرویز رشید نے آئندہ دس دنوں کو انتہائی اہم قرار دیا تاکہ اس بات کا پتہ لگایا جا سکے کہ کہیں ثنااللہ زہری کو عہدے سے پٹانے میں دیگر عناصر تو ملوث نہیں۔ادھر جان محمد جمالی کی قیادت میں کام کرنے والے مسلم لیگ (ن) کے باغی دھڑے نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ آئندہ چند دنوں میں ثنااللہ زہری کے جانشین کا انتخاب کر لیں گے۔

نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے جان محمد جمالی نے کہا کہ اگلے وزیرِاعلیٰ کا انتخاب ہم کریں گے۔ ہمیں مسلم لیگ (ن )کے 15 سے زائد قانون دانوں کی حمایت حاصل ہے اور اس سلسلے میں پارٹی اور اتحادیوں کے درمیان مشاورت جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ انکشاف کیا کہ وہ اس معاملے پر پارٹی سربراہ نواز شریف سے متفق نہیں تھے۔ نواز شریف بلوچستان سے زیادہ پنجاب کے معاملات میں دلچسپی لیتے ہیں میں مسلم لیگ کا ہی حصہ رہوں گا کیونکہ میرا خاندان 1933 سے اس پارٹی سے منسلک ہے لیکن وزیر اعلیٰ کا انتخاب لاہور میں نہیں کیا جائے گا۔

بلوچستان اسمبلی میں 11 نشستوں کے حامل نیشنل پارٹی کے صدر سینیٹر میر حاصل بزنجو نے سابق صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔بلوچستان اسمبلی میں 65 نشستیں ہیں اور وزیر اعلیٰ کو 35 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔اس وقت بلوچستان اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کے اعتبار سے مسلم لیگ 21 سیٹوں کے ساتھ پہلے پختونخوا ملی عوامی پارٹی 14 سیٹوں کے دوسرے اور نیشنل پارٹی 11 سیٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر موجود ہے۔ اس کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام(فضل الرحمان) کی8، مسلم لیگ( ق) کی 5، بلوچستان نیشنل پارٹی کی 2جبکہ مجلس وحدت المسلمین، بی این پی عوامی اور آزاد امیدوار کی ایک ایک سیٹ ہے۔