”پیغام پاکستان“ اسلامی تعلیمات کی روح کے عین مطابق ہے، جس پر عملدرآمد سے انتہا پسندی کے فتنے پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔صدرمملکت

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 16 جنوری 2018 17:42

”پیغام پاکستان“ اسلامی تعلیمات کی روح کے عین مطابق ہے، جس پر عملدرآمد ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔16 جنوری۔2018ء)صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ خودکش حملوں کے خلاف علما کا فتویٰ ”پیغام پاکستان“ اسلامی تعلیمات کی روح کے عین مطابق ہے، جس پر عملدرآمد سے انتہا پسندی کے فتنے پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔پاکستان کے تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے 1829 علمائے کرام کے خودکش حملوں سے متعلق فتوے کی رونمائی کی تقریب ایوان صدر میں کی گئی جب کہ علما کے فتوے کو ”پیغام پاکستان“کا نام دیا گیا ہے۔

تقریب میں سیاسی شخصیات سمیت علماءکی بڑی تعداد موجود تھی، تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر ممنون حسین نے کہا کہ اسلام کی رو سے شدت پسندی، خون ریزی اور خودکش حملے فساد فی الارض کے زمرے میں آتے ہیں جو ناجائز اور حرام ہیں۔

(جاری ہے)

صدر ممنون حسین نے کہا کہ میری نظر میں علماءکا فتویٰ اسلامی تعلیمات کی روح کے عین مطابق ہے جس پر عملدرآمد سے انتہا پسندی کے فتنے پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔

صدر مملکت نے کہا کہ خوشی ہے کہ فتوے کو متعلقہ ریاستی اداروں کی تائید بھی حاصل ہے اور یہ اتفاق رائے ہی ہماری کامیابی کی کلید ہے۔وزیرداخلہ احسن اقبال نے اپنے خطاب کہا کہ متفقہ بیانیہ مرتب کرنے پر تمام فریقین کے شکر گزار ہیں، آج ہم بڑی تبدیلی کے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔احسن اقبال نے کہا کہ پیغام پاکستان ہمیں متحد کرنے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرے گا، جب بیانیہ منتشر ہوتا ہے تو تنازعات جنم لیتے ہیں، ترقی یافتہ اور فلاحی ریاست کے لیے ہمیں متحد ہو کر آگے بڑھنا ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ مستقبل کی سمت درست کرنے کے لیے تعلیمی انقلاب کا خیرمقدم کرنا ہوگا، افسوس ہے کہ صنعتی انقلاب کی دستک کو اسلامی ممالک نے نہیں سمجھا اور مغربی ممالک نے اسے سمجھ کر ترقی کی۔انہوں نے کہا کہ پیغام پاکستان کے ذریعے ہم پوری قوم کو متحد کرسکتے ہیں اور پاکستان کو وہ امن و استحکام میسر آسکتا ہے جس سے ہم 21 ویں صدی میں پاکستان کو ایک ممتاز ملک اور ایشیا کا ٹائیگر بنا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا 70 سال بعد ہمارے لیے یہ لمحہ فکریہ ضرور ہے کہ پاکستان کا وہ خواب جس میں ہم نے لوگوں کو خود اعتمادی دینی تھی پورا نہیں ہوسکا۔احسن اقبال نے کہا کہ یہ سب تب ہی ممکن ہوتا ہے جب قوم کی خود اعتمادی اور بیانیہ سامنے ہو لیکن جب کسی قوم کا اپنے بارے میں بیانیہ منتشر ہوجاتا ہے تو وہ بھی منتشر الخیال افراد کا ایک گروہ بن جاتی ہے جس کے بعد تنازعات جنم لیتے ہیں۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ ہم اس خطے میں کئی عرصے سے تنازعات کو بھگت رہے ہیں اور آج جو حالات ہمیں درپیش ہیں وہ مکمل طور پر ہمارے پیدا کردہ نہیں ہیں بلکہ ان کے پیچھے عالمی طاقتوں کا ہاتھ ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ وہ عالمی طاقتیں ہیں جنہوں نے ہمارے ساتھ مل کر سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑی لیکن جب سوویت یونین کو افغانستان میں شکست ہوئی تو وہ اسلحوں کے انبار اور غریب معاشرے میں مسلح عسکری جدوجہد کو چھوڑ پر ہاتھ جھاڑ کر یہاں سے چلی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کے بعد امریکا اور جرمنی کو ٹرافی مل گئی لیکن پاکستان کے حصے میں 35 لاکھ مہاجرین، منشیات اور کلاشنکوف کلچرل رہ گیا‘ آج یورپ یا امریکا میں دو درجن شام کے مہاجرین چلے جائیں تو کہرام مچ جاتا ہے لیکن پاکستان نے اسلامی جذبے کے تحت بغیر کسی سے ڈالر مانگے ان مہاجرین کو پناہ دی، لہٰذا ہم الزام کے مستحق ہر گز نہیں۔وزیر داخلہ نے کہا کہ اگر پاکستان کے قیام کی بنیاد دو قومی نظر تھا تو اس ملک کی بقا کی بنیاد ایک قومی نظریہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اس لیے وجود میں نہیں آیا تھا کہ دنیا کے غریب و پسماندہ ممالک کی صفوں میں ایک اور ملک کا اضافہ ہو بلکہ پاکستان کی روح اور نظریہ کا مرکزی نقطہ یہ تھا کہ ہم دنیا کو بتا سکیں کہ دور جدید میں بھی مسلمانان جنوبی ایشیا یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ وہ اسلام کے آفاقی اصولوں کی روشنی میں ایک کامیاب ریاست بنا سکتے ہیں۔احسن اقبال نے کہا کہ اس لیے اب یہ ضروری ہے کہ ہم دنیا کی جانب دیکھنے کے بجائے سب مل کر پاکستان کو امن و استحکام کا گہوارا بنائیں اور اسے ایک مضبوط اقتصادی اور معاشی قوت بنانے کے لیے سب مل کر کام کریں کیونکہ آج کے دور میں اسی ملک کی عزت ہے جس کی معیشت مضبوط ہے۔

انہوں نے کہا کہ صنعتی انقلاب کے بعد تعلیمی انقلاب دستک دے رہا ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ صنعتی انقلااب کو اسلامی ممالک نے نہیں سمجھا جبکہ مغرب نے اس سے فائدہ اٹھایا۔انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ پیغام پاکستان کو ایوان صدر سے نکال کر اس ملک کے ہر گوشے گوشے میں امام مسجد کے ہاتھ میں پہنچا دیں تاکہ اس قوم میں نفرت کے بجائے محبت کی بیج بوئے جائیں۔

وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا کہ سیرت نبوی صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا تقاضہ یہ ہے کہ اہل پاکستان دہشت گردی کے خلاف یک زبان ہوں اور ان کا بیانیہ ایک ہو اور اس قومی بیانیہ کو ہر شخص اپنا بیانیہ تسلیم کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے آج اس بیانیہ کو جاری کرکے دہشت گردی کے خلاف تمام قومی اداروں کی ہم آہنگی کو پوری دنیا پر واضح کردیا ہے اور پیغام پاکستان کے نکات بہت جامع ہیں اور اس میں دہشت گردی کی تمام صورتوں کو مسترد کردیا گیا ہے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ پوری قوم کے علماءکرام، ملکی جامعات اور اہل علم و دانش نے قومی بیانیے کی آج توسیع کا جو اعلان کیا ہے اس کے انتہائی مثبت نتائج جلد قوم کے سامنے آنا شروع ہوں گے۔علماءکی جانبے سے جاری کئے گئے فتوے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں نفاذ شریعت کے نام پر ریاست کےخلاف مسلح تصادم حرام اور طاقت کے بل پر اپنے نظریات دوسروں پر مسلط کرنا فساد فی الارض ہے۔

فتوے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان کے تمام مسالک کے علماءشرعی دلائل کی روشنی میں خودکش حملوں کو حرام قرار دیتے ہیں، خود کش حملے کرنے، کرانے اور ان کی ترغیب دینے والے اسلام کی رو سے باغی ہیں اور ریاست پاکستان ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کی شرعی طور پر مجاز ہے۔فتوے میں کہا گیا ہے کہ جہاد کا وہ پہلو جس میں جنگ اور قِتال شامل ہیں صرف اسلامی ریاست شروع کر سکتی ہے، کسی فرد یا گروہ کے ایسے اقدامات ریاست کیخلاف بغاوت تصور کیئے جائیں گے، جو اسلامی تعلیمات کی رو سے بھی سنگین اور واجب التعزیر جرم ہے۔

فتوے میں کہا گیا کہ طاقت کے بل پر اپنے نظریات دوسروں پر مسلط کرنا بھی شریعت کے منافی اور فساد فی الارض ہے اور حکومت اور اس کے ادارے ایسی سرگرمیوں کے سدباب کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کریں۔یہ فتویٰ ادارہ تحقیقاتِ اسلامی بین الاقوامی یونیورسٹی کے زیر اہتمام تیار کیا گیا ہے۔ پہلے اس فتوے کا بنیادی متن 30 سے زائد علمائے کرام نے تیار کیا جن میں مفتی منیب الرحمٰن، مفتی محمد رفیع عثمانی، مولانا عبدالمالک، مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر، مولانا حنیف جالندھری اور مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے دیگر علمائے کرام شامل ہیں۔

پھر اس فتوے پر ملک بھر کے مختلف مسالک اور مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے 1829 علمائے کرام کے دستخط لیے گئے۔فتوے کابنیادی نکتہ یہ ہے کہ تمام علمائے کرام نے متفقہ طور پر برداشت اور اسلام کے نام پر انتہاپسندانہ سوچ اور شدت پسندی کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ فکری سوچ جس جگہ بھی ہو ہماری دشمن ہے اور اس کے خلاف دینی اور فکری جدوجہد دینی تقاضہ ہے۔

فتوے میں خود کش حملوں کو تین حوالوں سے حرام قرار دیا گیا ہے۔علمائے کرام نے فتوے میں کہا ہے کہ ہم پاکستان کے تمام مسالک و مکتبہ فکر کے علماءشرعی دلائل کی روشنی میں اتفاق رائے سے پاکستان میں خود کش حملوں کو حرام قرار دیتے ہیں اور ہماری رائے میں خودکش حملے کرنے والے، کروانے والے ان حملوں کی ترغیب دینے والے اور ان کے معاون پاکستانی شہری اسلام کی رو سے باغی ہیں اور ریاست پاکستان شرعی طور پر اس قانونی کارروائی کرنے کی مجاز ہے جو باغیوں کے خلاف کی جاتی ہے۔

فتوے میں حکومت اور افواج پاکستان کے خلاف ہر طرح کی عسکری کارروائیوں یا مسلح طاقت کے استعمال کو شرعی لحاظ سے حرام قرار دیا گیا ہے۔فتوے میں جہاد کے حوالے سے یہ چیز واضح کی گئی ہے کہ جہاد کا اعلان کرنا ریاست اور حکومت پاکستان کا حق ہے، جہاد کا وہ پہلو جس میں جنگ اور قتال شامل ہیں، اسے شروع کرنے کا اختیار صرف اسلامی ریاست کا ہے، کسی فرد یا گروہ کو اس کا اختیار حاصل نہیں۔

کسی بھی فرد یا گروہ کے ایسے اقدامات کو ریاست کی حاکمیت میں دخل اندازی سمجھا جائے گا اور ان کے یہ اقدامات ریاست کے خلاف بغاوت تصور کیے جائیں گے جو اسلامی تعلیمات کی رو سے سنگین اور واجب التعزیر جرم ہے۔ فرقہ واریت کی روک تھام کے لیے فتوے میں کہا گیا ہے کہ فرقہ وارانہ منافرت، مسلح فرقہ وارانہ تصادم اور طاقت کے بل پر اپنے نظریات دوسروں پر مسلط کرنے کی روش شریعت کے احکام کے منافی اور فساد فی الارض ہے۔

اس فتوے کے ساتھ ایک اعلامیہ بھی ہے جس میں مختلف علماءنے فتوے کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جبکہ اس حوالے سے جامعہ نعیمیہ کا ایک فتویٰ بھی اس کتاب کا حصہ بنادیا گیا ہے جسے ”کتابِ پاکستان“کا نام دیا گیا ہے اور اسے انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں شائع کیا گیا ہے۔جن 1829 علماءنے اس فتوے پر دستخط کیے ہیں ان سب کی تفصیلات بھی کتاب میں شامل کی گئی ہیں۔