ْزینب قتل کیس،جے آئی ٹی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش، چیف جسٹس کی تفتیشی اداروں کو 72 گھنٹوں کی مہلت

چیف جسٹس کا پولیس تفتیش پر اظہار عدم اعتماد ، اتنے واقعات پر پولیس کیا کر رہی تھی ،پولیس ڈی این اے سے باہر نکل کر بھی تفتیش کرے،پولیس اپنا روایتی طریقہ استعمال کرے تو ملزم تک پہنچا نا جا سکتا ہے،چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے ریمارکس

اتوار 21 جنوری 2018 15:50

ْزینب قتل کیس،جے آئی ٹی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش، چیف جسٹس کی تفتیشی ..
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 21 جنوری2018ء) چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے زینب قتل کیس میں پولیس تفتیش پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کیس کی تحقیقات کے لیے تفتیشی اداروں کو 72 گھنٹوں کی مہلت دے دی اور کہا کہ ، اتنے واقعات پر پولیس کیا کر رہی تھی ،پولیس ڈی این اے سے باہر نکل کر بھی تفتیش کرے،پولیس اپنا روایتی طریقہ استعمال کرے تو ملزم تک پہنچا نا جا سکتا ہے، ۔

اتوار کو سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں خصوصی بنچ نے قصور میں7 سالہ معصوم زینب سے زیادتی اور قتل کے از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔سماعت کے دوران متاثرہ بچوں اور بچیوں کے والدین بھی عدالت میں پیش ہوئے۔سماعت کے دوران جیآئی ٹی کے سربراہ محمد ادریس نے عدالت میں زینب قتل کیس کے سلسلے میں اب تک کی تحقیقات کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ جون 2015 کے بعد سے یہ آٹھواں واقعہ ہے اور 800 کے قریب مشتبہ افراد کے ڈی این اے کے نمونے لیے گئے ہیں۔

(جاری ہے)

اس موقع پر چیف جسٹس نے پولیس تفتیش پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے مشورہ دیا کہ آپ صرف ایک ہی رخ پر تفتیش کر رہے ہیں، پولیس ڈی این اے سے باہر نکل کر روایتی طریقے اپنائے۔چیف جسٹس نے کہا جو پولیس کر رہی ہے، اس طرح تو 21 کروڑ لوگوں کا ڈی این اے کرنا پڑے گا۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 2 تھانوں کی حدود میں مسلسل واقعات ہوئے، کسی نے انکوائری کیوں نہیں کی اتنے واقعات پر پولیس کیا کر رہی تھی ۔

جسٹس ثاقب نثار نے مزید کہا کہ اگر پولیس 2015 میں اتنی سنجیدہ ہوتی تو آج 8 بچیاں زیادتی کے بعد قتل نہ ہوتیں۔سماعت کے دوران پنجاب فرانزک کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر طاہر اشرف بھی عدالت میں پیش ہوئے اور بند کمرہ سماعت کے دوران ملٹی میڈیا پر بریفنگ دی۔ڈاکٹر طاہر اشرف نے کہا کہ جو ویڈیو ہم نے دیکھی، یقین نہیں ہے کہ یہ اسی بچی کی ہے۔بعدازاں سپریم کورٹ کے فل بینچ نے بند کمرے کی کاروائی کا تحریری حکم جاری کر دیا اور تفتیشی اداروں کو 72 گھنٹے کی مہلت دی دی۔واضح رہے کہ تفتیشی اداروں کی جانب سے تفتیش مکمل کرنے اور کسی منطقی نتیجے تک پہنچنے کے لیے مہلت مانگی گئی تھی۔