نااہلی کیس :آئینی مقدمے میں نوازشریف کے وکیل نے تیاری کے لیے مہلت مانگ لی-بے ایمانی اور فراڈکرنے والوں پر تاحیات پابندی ہونی چاہیے-چیف جسٹس

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 31 جنوری 2018 09:55

نااہلی کیس :آئینی مقدمے میں نوازشریف کے وکیل نے تیاری کے لیے مہلت مانگ ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی31- جنوری۔2018ء) سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 62ون ایف کی تشریح کے لیے 13درخواستوں کی سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل نے تیاری کیلئے مہلت طلب کرلی ہے۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 5 رکنی لارجر بنچ درخواستوں پر سماعت کر رہا ہے۔

کیس کی سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ نواز شریف کی طرف سے کون آیا ہے؟ جس پر ایڈووکیٹ اعظم نذیر تارڑ کھڑے ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ سابق وزیراعظم کی جانب سے وہ پیش ہوئے ہیں۔نواز شریف کے وکیل نے تیاری کیلئے عدالت سے تین دن کی مہلت طلب جس پر چیف جسٹس کے کہا کہ آئندہ ہفتے تیاری کرکے آجائیں۔

(جاری ہے)

اس سے قبل مسلم لیگ( ن) کے رہنما راجہ ظفر الحق، خواجہ سعد رفیق، مشاہد اللہ خان ، سینیٹر پرویز رشید اور سینیٹر آصف کرمانی بھی سپریم کورٹ پہنچے اور کمرہ عدالت میں جانے سے قبل مشاورت بھی کی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ چیٹنگ کرنے والوں پر تاحیات پابندی ہونی چاہیے۔چیف جسٹس نے کہا کہ بے ایمانی کا مطلب چیٹنگ اور فراڈ ہے، چیٹنگ کرنے والوں پر تاحیات پابندی ہونی چاہیے، ایک دن اسی شخص نے وزیر یا وزیراعظم بن جانا ہے۔ کل کیس میں سپریم کورٹ نے عوامی نوٹس جاری کیا تھا۔ آج دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ پبلک نوٹس ان لوگوں کیلئے تھا جو متاثرہ ہیں، تمام متاثرہ لوگ اپنے لئے ایک مشترکہ وکیل کر لیں، آرٹیکل 62ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کا تعین کرنا چاہتے ہیں۔

وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ عدالت کے پبلک نوٹس میں ابہام ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پبلک نوٹس میں غلطی ہو گئی ہوگی، یہ نوٹس صرف متاثرین کے لئے ہے۔ اللہ ڈنو کے وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ ان کے موکل کو 2013 میں 2008 کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے پر ڈی نوٹیفائی کیا گیا، عدالت 62 ون ایف کے معاملے کو حل کرے، آرٹیکل 63 میں نااہلی کے ساتھ سزا کا تعین بھی ہے، زیادہ سے زیادہ نااہلی پانچ سال کی ہونی چاہیے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر عدالت کسی شخص کو نااہل کر دے تو کیا وہ شخص تین ماہ بعد انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے؟۔ وکیل طارق محمود نے کہا کہ نااہلی پانچ سال کی ہونی چاہیے، پشاور ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کو بدیانتی پر تاحیات نااہل قرار دیا۔عدالتی معاون منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن لڑنا سب کابنیادی حق ہے، اٹھارویں ترمیم سے قبل آرٹیکل 63میں ماضی کے کنڈکٹ پرنااہلی تاحیات تھی، اٹھارویں ترمیم میں پارلیمنٹ کی بصیرت یہ تھی تاحیات نااہلی کو مدت سے مشروط کردیا۔

واضح رہے کہ 14 ارکان اسمبلی نے سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں میں مطالبہ کیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا قانون ختم کرکے اس کی مدت کا تعین کیا جائے۔ درخواستیں دائر کرنے والوں میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور پی ٹی آئی رہنما جہانگیر خان ترین سمیت وہ ارکان اسمبلی بھی شامل ہیں جنہیں جعلی تعلیمی ڈگریوں کی بنا پر نااہل کیا گیا۔

متعلقہ عنوان :