شاہ زیب قتل کیس ،ْسپریم کورٹ کی انسانی حقوق کی تنظیموں کو ایک وکیل مقرر کرنے کی ہدایت

عدالت شاہ زیب قتل کیس میں 421 درخواستوں پر سماعت نہیں کرسکتی ،ْ چیف جسٹس ملزم ملک سے فرار ہوا یا پھر واپس لایا گیا آپ صرف متعلقہ کیس کے نقطے پر بات کریں ،ْ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا سول سوسائٹی کے وکیل سے مکالمہ

بدھ 31 جنوری 2018 23:05

شاہ زیب قتل کیس ،ْسپریم کورٹ کی انسانی حقوق کی تنظیموں کو ایک وکیل مقرر ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 31 جنوری2018ء) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ عدالت شاہ زیب قتل کیس میں 421 درخواستوں پر سماعت نہیں کرسکتی، انسانی حقوق کی تنظیمیں ایک وکیل مقرر کر کے عدالت سے رجوع کریں۔ بدھ کو چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس مقبول باقر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے شاہ زیب قتل کیس میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔

درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سول سوسائٹی کے 421 افراد نے درخواست دائر کی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اتنے زیادہ لوگوں کو ایک ساتھ نہیں سن سکتے۔ملزم شاہ رخ جتوئی عدالت میں پیش ہوئے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس کیس میں کتنے ملزم ہیں اور باقی کہاں ہیں جس پر شاہ رخ جتوئی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ اس کیس میں چار ملزمان ہیں اور تمام ہی عدالت میں موجود ہیں جس کے بعد عدالت نے ملزمان کو روسٹرم پر بلالیا۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا سپریم کورٹ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے میں مداخلت کرسکتی ہے جس پر انسانی حقوق کی تنظیم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کو یہ اختیار حاصل ہے۔سول سوسائٹی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ یہ واقعہ 24 دسمبر 2012 کو ہوا جس کے بعد اس کا مرکزی ملزم ملک سے فرار ہوگیا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ملزم ملک سے فرار ہوا یا پھر واپس لایا گیا آپ صرف متعلقہ کیس کے نقطے پر بات کریں۔

سول سوسائٹی وکے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے جج کو شاہ زیب قتل کیس کی نگرانی کیلئے مقرر کیا تھا۔انسانی حقوق کی تنظیم کے کارکن جبران ناصر کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ یہ دہشتگردی کا مقدمہ تھا تاہم سندھ ہائی کورٹ نے یہ مقدمہ سیشن عدالت میں چلایا جبکہ انسدادِ دہشت گردی عدالت نے مقدمہ عام عدالت منتقل کرنے کی درخواست خارج کر دی تھی۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ دہشتگردی کا معاملہ عدالت عالیہ اپنے فیصلوں میں طے کر چکی ہے جبکہ سپریم کورٹ نے یہ خود کیس اے ٹی سی میں چلانے کا حکم دیا تھا۔انہوں نے کہا کہ عدالت اس کیس کو دہشت گردی کا مقدمہ قرار دے چکی ہے، اے ٹی سی نے بھی اس کیس کو دہشت گردی کا مقدمہ قرار دیا تو پھر ہائی کورٹ کے دو ججز اس مقدمے کو الگ نوعیت کا کیسے کہہ سکتے ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیم کے وکیل فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ 24 دسمبر 2012 کو کراچی میں یہ واقعہ پیش آیا وکیل اور 22 فروری 2013 کو اے ٹی سی کورٹ نے چالان داخل کرنے کا حکم دیا جبکہ سپریم کورٹ نے 7 روزمیں ٹرائل مکمل کرنے کا حکم دیا تھا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اے ٹی سی کو ہدایت کی کہ کسی آبزرویشن سے متاثر ہوئے بغیر کیس سنا جائے۔سماعت کے دوران شاہ رخ جتوئی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ انہیں پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں جانا ہیچیف جسٹس نے کہا کہ وہ کسی این جی او کے خلاف نہیں ہیں تاہم یہ بتایا جائے کہ شاہ زیب کے والدین متاثرہ فریق ہیں، اس صورت میں یہ بتایا جائے کہ سول سوسائٹی متاثرہ فریق کیسے ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ متاثرہ فریق یہ بھی ثابت کریں کہ ان کے حقوق کیسے متاثر ہوئے ہیں کیونکہ کیونکہ اگرعدالت نے اس وقت فریق بننے کی اجازت دے دی تو پھر آئندہ اس چیز کا غلط فائدہ اٹھایا جائے گا۔عدالت نے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کری کرتے ہوئے کہا کہ اگراٹارنی جنرل مصروف ہوئے تو ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل عدالت میں پیش ہوں۔عدالت عظمیٰ نے بابر اعوان کو بھی (آج) جمعرات کو عدالت میں طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔