سپریم کورٹ نے نقیب قتل کیس مطلوب پولیس آفیسرراﺅ انوارکی گرفتاری کے لیے مزید 10 دن کا وقت دیدیا‘آئی ایس آئی سمیت تمام خفیہ اداروں کو سندھ پولیس کی معاونت کرنے کی ہدایت

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 1 فروری 2018 14:48

سپریم کورٹ نے نقیب قتل کیس مطلوب پولیس آفیسرراﺅ انوارکی گرفتاری کے ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔یکم فروری۔2018ء) سپریم کورٹ نے نقیب قتل کیس مطلوب پولیس آفیسرراﺅ انوارکی گرفتاری کے لیے آئی جی سندھ کو مزید 10 دن کا وقت دے دیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ راﺅ انوار کا کوئی پیغام میڈیا پر نشر نہ کیا جائے۔ عدالت نے کہا کہ راﺅ انوار عدالت میں پیش نہ ہوئے تو یقینی طور پر قانون کے مطابق توہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔

کراچی میں جعلی پولیس مقابلے میں نوجوان نقیب اللہ محسود کے قتل سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثارکی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔عدالت نے کہا کہ ہم نے راﺅ انوار کو عدالت میں حاضر ہونے کا حکم بھی دیا ہے،راﺅ انوار عدالت نہ آئے تو ان کے خلاف یقینی طور پر قانون کے مطابق توہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔

(جاری ہے)

آئی جی سندھ نے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ انٹیلی ایجنسیوں کو کہیں ہماری معاونت کریں ، جس پر سپریم کورٹ نے انٹیلی ایجنسیوں کوسندھ پولیس کی معاونت کی ہدایت دے دی۔

عدالت نے کہا کہ ایم آئی، آئی ایس آئی، آئی بی راﺅ انوار کو ڈھونڈنے میں پولیس کو مکمل سپورٹ فراہم کریں۔آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے 6شریک ملزمان گرفتار کرلیے ہیں ،ہم چاہتے ہیں راﺅ انوار کی واٹس ایپ لوکیشن کا تعین کریں جس کے لیے ہمیں حساس اداروں کی معاونت درکار ہے۔سماعت کے دورا ن چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پاکستان سے جو پرائیویٹ طیارے استعمال ہوئے ان کا ریکارڈ دیں۔

نمائندہ سول ایوی ایشن نے عدالت کو بتایا کہ 4آپریٹرز ہیں ، انہوں نے اس وقت ایئرپورٹ سے آپریٹ کیا۔چاروں آپریٹرز نے بیان حلفی دیا ہے کہ راﺅ انوار ا ن کے ذریعے نہیں گئے۔قبل ٓمیںآئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ نے نقیب اللہ کے قتل میں ہونے والی پیش رفت سے متعلق سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کروائی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نقیب اللہ محسود کی پروفائل کا جائزہ لیا گیا، بادی النظر میں یہ پولیس مقابلہ جعلی تھا، نقیب اللہ کو پولیس نے 2 دوستوں کے ہمراہ 3 جنوری کو اٹھایا۔

نقیب اللہ کو غیر قانونی حراست میں رکھا گیا اور شدید تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ نقیب کے دوستوں قاسم اور حضرت علی کو 6 جنوری کو چھوڑ دیا گیا جب کہ پولیس افسران نقیب اللہ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے رہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ راﺅ انوار جان بوجھ کر کمیٹی میں شامل نہ ہوئے جب کہ انہوں نے جعلی دستاویزات پر ملک سے فرار ہونے کی کوشش کی۔

دوسری جانب کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے نقیب اللہ محسود قتل کیس میں گرفتار ملزمان کے جسمانی ریمانڈ میں 6 فروری تک کی توسیع کردی ہے۔پولیس نے اے ٹی سی کو بتایا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر کے سامنے چھ میں سے تین ملزمان کو شناختی پریڈ میں شناخت کرلیا گیا اور دوران تفتیش ملزمان نے اپنے جرم کا اعتراف بھی کیا۔تفتیشی افسر کی جانب سے ملزمان سے مزید تفتیش کے لیے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔

اس حوالے سے متعلقہ عدالت نے پولیس کو ملزمان کے خلاف چالان پیش کرنے کا حکم بھی دے دیا۔جس کے بعد عدالت نے نقیب اللہ محسود قتل میں نامزد ملزمان کے جسمانی ریمانڈ میں 6 فروری تک توسیع دے دی۔واضح رہے کہ گزشتہ روز 31 جنوری کو نقیب اللہ محسود قتل کیس میں گرفتار 3 پولیس اہلکاروں کو واقعہ کے 2 عینی شاہدین نے جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر کے روبرو شناخت کیا تھا۔جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر کے روبرو نقیب اللہ محسود قتل کیس میں گرفتار 3 پولیس اہلکاروں محمد اقبال، ارشد علی اور اللہ یار کو پیش کیا گیا جبکہ واقعے کے 2 گواہان قاسم اور حضرت علی بھی پیش ہوئے تھے۔