عدلیہ کو پہلے اپنا پھر دوسروں کا احتساب کرنا چاہیئے ہمیں حق حاصل نہیں دوسروں کو چور اور ٹھگ کہیں، افتخار چوہدری

پارلیمانی پارٹیاں آئین کے بغیر کوئی نگران حکومت نہیں لا سکتی، ملک جمہوری سسٹم ایسے ہی چلے گا، سسٹم کو آئین کے تحت چلنے دینا چاہیئے کوئی جمہوری رکاوٹ نہیں آنی چاہیئے نہال ہاشمی کیس میرے دور میں آتا تو جیل نہ بھیجتا بلکہ سخت سزا سناتا جو دوسروں کے لئے سبق ہوتی عمران خان کیس کے فیصلہ میں نظر ثانی کی بہت گنجائش موجود ہے، سابق چیف جسٹس کا انٹرویو

جمعہ 2 فروری 2018 22:44

عدلیہ کو پہلے اپنا پھر دوسروں کا احتساب کرنا چاہیئے ہمیں حق حاصل نہیں ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 02 فروری2018ء) سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کہا ہے کہ عدلیہ کو پہلے اپنا پھر دوسروں کا احتساب کرنا چاہیئے ہمیں حق حاصل نہیں دوسروں کو چور اور ٹھگ کہیں۔ نہال ہاشمی کیس میرے دور میں آتا تو جیل نہ بھیجتا بلکہ سخت سزا سناتا جو دوسروں کے لئے سبق ہوتی، عمران خان کیس کے فیصلہ میں نظر ثانی کی بہت گنجائش موجود ہے۔

جمعہ کے روز نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے جسٹس اینڈ ڈیموکریٹ پارٹی کے سربراہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کا کہنا تھا کہ توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ نے ابھی تک بہت تہمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ نواز شریف کیس کے باعث نواز شریف کی سپورٹ کرنیو الوں نے حدیں پار کر دیں تھیں۔ نہال ہاشمی نے فیملی بچوں ادارے سمیت تمام کو دھمکیاں دیں۔

(جاری ہے)

اس کے باوجود سپریم کورٹ نے تحمل کا مظاہرہ کرتی رہی۔

اگر میں ہوتا تو اس کیس میں جیل میں نہ ڈالتا مگر سبق ضرور دیتا۔ اس سے بھی سخت سزا ہوتی۔ تاکہ دوسروں کو پتا چل جاتا کہ توہین عدالت کریں گے تو یہ سزا ہو سکتی ہے۔ نہال ہاشمی عدالت میں اپیل کریں گے۔ اپیل دیگر ججز سنیں گے امید کرتا ہوں سزا میں کچھ کمی ہو جائے گی۔ میرے خیال میں ان کو چھوٹ ملنی چاہیئے انہوں نے پہلے ہی عدالت سے معافی مانگ لی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدلیہ کو پہلے اپنا احتساب کرنا چاہیئے۔ پھر کسی کا احتساب کریں ہمیں کوئی حق حاصل نہیں کہ کسی کو چور ٹھگ کہیں۔ میں نے اپنی سیاسی جماعت کو واضح پیغام دیا ہوا ہے ہم کسی سیاسی جماعت یا اداروں کو گالیاں یا غلط زبان استعمال نہیں کریں گے۔ سابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میرے وقت میں سختی اور کسی افسر کو بلا کر بٹھا کر پوچھنے کا صرف ایک مقصد بیڈ گورننس تھا۔

ہم پھر بھی کوشش کرتے تھے کسی کی عزت کو نقصان نہ پہنچے۔ نواز شریف اور ان کے ساتھیوں نے جس انداز میں عدالت عظمیٰ کی تضحیک کی ہے وہ عدلیہ کو گالی دینے کے مترادف ہے۔ عدلیہ کے فیصلہ کو نا تسلیم کرنا ایک الگ بات اچھے انداز میں عدلیہ کے فیصلے پر تنقید کر سکتے ہے۔ عدلیہ پر براہ راست گالی دینے سے سیاسی جماعت پر پابندی لگتی ہے۔ مگر حکومت ان لوگوں کی اپنی ہے۔

ادارے کے خلاف ایسی باتیں ہوں گی تب ادارے کو اپنی پاور ضرور دیکھنی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے خلاف سپریم کورٹ نے کوئی فیصلہ دیا ۔ نواز شریف پر19کیسز پہلے ہی موجود تھے اس کے لئے نواز شریف کو سیاسی نقصان نہیں ہو گا مگر نواز شریف فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ عمران خان کے کیس کے فیصلے میں نظر ثانی کی گنجائش موجود ہے میں نے کبھی بھی عمران خان بر ا بھلا نہیں کہا میرے ہر الیکشن پر اثر انداز ہونے کے بے بنیاد الزامات عائد کئے جس کا وہ ثبوت بھی پیش نہیں کر سکے۔

افتخار چوہدری کا کہنا تھا کہ اگر میں وزیراعظم بنتا تو عدلیہ آئین کے تحت تمام معاملات پر سختی سے عمل درآمد کراتا۔ قانون منتخب نمائندے بنائیں گے مگر اس پر عملداری عدلیہ کروائے گی۔ آئین کے تحت حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد نگران حکومت آئے گی۔ پارلیمانی پارٹیاں آئین کے بغیر کوئی نگران حکومت نہیں لا سکتی۔ ملک جمہوری سسٹم ایسے ہی چلے گا۔ سسٹم کو آئین کے تحت چلنے دینا چاہیئے کوئی جمہوری رکاوٹ نہیں آنی چاہیئے۔۔