ایکٹ 74 میں ترامیم کے لیے آزاد کشمیر کی تمام سیاسی قیادت کی حمایت حاصل ہے ، راجہ محمد فاروق حیدر

ساری سیاسی قوتوں کو اس اہم ترین معاملے پر ساتھ لیکر چلیں گے بیشتر سے رابطہ ہو چکا ،مسلم کانفرنس کے صدر سمیت دیگر سیاسی قائدین سے بھی رابطہ کرونگا، وزیراعظم آزاد کشمیر

پیر 19 فروری 2018 18:44

مظفر آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 فروری2018ء) وزیراعظم آزادحکومت ریاست جموں و کشمیر راجہ محمد فاروق حیدر خان نے کہا ہے ایکٹ 74 میں ترامیم کے لیے آزاد کشمیر کی تمام سیاسی قیادت کی حمایت حاصل ہے ساری سیاسی قوتوں کو اس اہم ترین معاملے پر ساتھ لیکر چلیں گے بیشتر سے رابطہ ہو چکا ہے مسلم کانفرنس کے صدر سمیت دیگر سیاسی قائدین سے بھی رابطہ کرونگا، ایکٹ میں ترمیم اور کشمیر کونسل کے حوالے سے وزیراعظم پاکستان کی زیر صدارت ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں کئے گئے فیصلے نافذالعمل ہونگے ۔

اس اجلاس کے منٹس منظور کرکے ان پر عملدرآمدکا اعلان کرنا باقی رہ گیا ہے ۔ ایوان وزیراعظم مظفرآباد میں سینئر صحافیوں کیساتھ کشمیرایکٹ میں ترامیم و کونسل کے حوالے سمیت حکومت پاکستان کیساتھ تصفیہ طلب امور پر ہونیوالی پیشرفت کے حوالے سے بات چیت کے دوران راجہ فاروق حیدر خان نے کہا کہ کچھ لوگ اپنی ناسمجھی کیوجہ سے ابہام پیدا کرنا چاہتے ہیں ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کشمیر کونسل کے احسان مند ہیں یا جن کا کونسل کے ترقیاتی بجٹ میں حصہ دار رہے ہیں ۔

(جاری ہے)

حکومت پاکستان نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں آزاد کشمیر کو لوکل اتھارٹی تسلیم کررکھا ہے جس نے بتدریج ترقی کرکے ایک آئین حاصل کیا ۔ مقامی سطح کا انتظام و انصرام اچھے طریقے سے چلانے کیلئے ایکٹ 1970ء دیا گیا جسے بعد ازاں اسمبلی نے منظور کیا اسی ایکٹ کے تحت براہ راست صدارتی الیکشن ہوئے جس میں سردار عبدالقیوم خان صدر منتخب ہوئے ۔

ایکٹ 1970ء سے پہلے بھی حکومت پاکستان کیساتھ آزاد کشمیر حکومت کے تعلقات کار کسی نہ کسی اصول کے تحت طے شدہ تھے ۔ حکومت پاکستان کا اختیا رہے کہ وہ آزاد کشمیر میں مقامی انتظام کیلئے کوئی بھی آئین دے ۔ ایکٹ 70اور 74ء اس کا ثبوت ہیں جو حکومت پاکستان نے ہی دیئے ۔ ایکٹ 74کا نفاذ بنیادی طور پر آزاد کشمیر میں سردار قیوم صاحب کی جانب سے قادیانیوں کو کافر قرار دینے کی قرارداد کیوجہ سے ممکن ہوا وجہ تنازعہ مرزائی ہی تھے ۔

آزاد کشمیر کے عبوری آئین 1974ء میں ترامیم کے حوالے سے مسلم لیگ ن کا کردار بہت واضح ہے ۔ 2010میں مسلم لیگ ن کے قیام کے ساتھ ہی اس پر کام شروع کردیا گیا تھا بلکہ پیپلز پارٹی دور میں پہلے لطیف اکبر اور بعد ازاں مطلوب انقلابی کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے جو سفارشات تیار کیں اس کا بنیادی مسودہ مسلم لیگ ن نے ہی تیار کیا تھا ۔ میرے ساتھ طارق فاروق ، ڈاکٹر نجیب نقی ، افتخار گیلانی بھی مسودہ کی تیاری میں موجود رہے ۔

ہم پیپلز پارٹی کے شکر گزار ہیں کہ پیپلز پارٹی نے اس آئینی مسودہ کو اسمبلی میں پیش کیا ۔ اختلاف صرف اتنا تھا کہ ہم کہتے تھے کہ وزراء کی تعداد 8ہوگی جبکہ پیپلز پارٹی نے 14پر اتفاق کیا ۔ آزاد کشمیر کے عبوری آئین ایکٹ 1974ء میں ترامیم کے حوالے سے بات چیت اس کے بعد بھی چلتی رہی ۔ وزیراعظم پاکستان وقت میاں محمد نواز شریف نے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا اور سرتاج عزیز کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی جس میں آزاد کشمیر کی نمائندگی بھی میری صورت میں موجود تھی اسی طرح گلگت بلتستان کیلئے بھی کمیٹی قائم کی گئی تھی ۔

اس کمیٹی کا اجلاس جولائی2016میں طے تھا ۔ 27جولائی کو پتہ چلا کہ اگلے روز 28جولائی کو اس حوالے سے میٹنگ ہونا ہے مگر اس روز سپریم کورٹ کا فیصلہ آگیا اور میاں محمد نواز شریف چلے گئے ہم مایوس نہیں ہوئے اور نہ ہی حوصلہ ہارا ۔ اس کے بعد شاہد خاقان عباسی وزیراعظم بنے تو انہوں نے وہ معاملہ وہاں سے ہی شروع کیا جہاں میاں محمد نواز شریف صاحب نے چھوڑا تھا۔

حالیہ میٹنگ میں میرے ساتھ ڈاکٹر نجیب نقی ، چیف سیکرٹری ، ایڈیشنل چیف سیکرٹری (ترقیات) اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری (جنرل)،سیکرٹری فنانس موجود تھے ۔ حکومت پاکستان کی جانب سے وزیراعظم اور ان کی ٹیم میں وزیر امور کشمیر ، پرنسپل سیکرٹری اور واپڈا کے نمائندگان بھی موجود تھے ۔ یہ جامع میٹنگ تھی جس میں صرف ایکٹ 74ء میں ترامیم پر بات نہیں ہوئی بلکہ بجلی کی خرید و فروخت پر معاہدہ ، تعمیر نو کے مسائل ، مالیاتی خسارہ کے لئے 10ارب روپے کے ایمرجنسی بیل آئوٹ پیکیج پر بھی تفصیلی بات چیت ہوئی ۔

یہ میٹنگ 29دسمبر 2016کو میاں نواز شریف کی زیر صدارت ہونیوالی میٹنگ کے ہم پلہ تھی جس میں وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے خندہ پیشانی کیساتھ ہمیں سنا ۔ میں نے آئینی پیکیج پر بات کی اور معاہدہ کراچی پر بریف کیا اور انہیں ججز کی تعیناتی اور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے اختیارات کے حوالے سے بتایا راجہ فاروق حیدر خان نے وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی اور ان کی پوری ٹیم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میٹنگ میں موجود حکومت پاکستان کی نمائندگی کرنے والے ہر شخص نے ہمارے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ۔

اس میٹنگ میں واضح طور پر کہا گیا کہ کوئی کشمیری پاکستان کیخلاف نہیں ہے ۔ میرے کہنے پراس حوالے سے نہ تو کوئی کمیٹی بنی اور نہ ہی معاملہ لٹکانے کی کوشش کامیاب ہوئی ۔ حکومت پاکستان کیساتھ تعلقات کار کے حوالے سے پاکستان کے آئین 1973کی دفعہ 147میں سب کچھ طے شدہ ہے ۔ اگر کشمیر کونسل ختم ہوتی ہے تووہ معاملات جو کشمیر کونسل کے پاس ہیں براہ راست حکومت پاکستان کے پاس چلے جائیں گے ۔

4معاملات ایسے ہیں جن میں کشمیر کونسل اور آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی بھی قانون سازی نہیں کرسکتی جن میں دفاع ، امور خارجہ ، کرنسی اور بیرونی تجارت شامل ہیںاور کونسل کے اثاثے براہ راست آزاد کشمیر حکومت کو منتقل ہوجائیں گے ۔ بعض لوگ یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ ملازمین کا مستقبل غیر یقینی ہوگا حالانکہ یہ ایک آئینی پیکیج ہے کوئی نجکاری نہیں وزیراعظم نے کہا کہ آزاد کشمیر کے عبوری آئین کی دفعہ 31اور56امیں واضح ہے کہ کچھ معاملات میں حکومت پاکستان سے اجازت لینا پڑتی ہے ۔

کشمیر کونسل کے خاتمہ سے آزاد کشمیر حکومت کی ذمہ داری مزید بڑھ جائیگی ۔ مالیاتی حصہ داری اور خسارے کے بجائے آمدن کے مطابق اخراجات کرینگے ہم ایک ذمہ دارانہ نظام حکومت لانا چاہتے ہیں جب آمدن کے مطابق اخراجات ہونگے تو بجٹ خسارہ خود بخود ختم ہوجائے گا۔ کشمیر کونسل کے خاتمہ کے حوالے سے کسی قسم کے بحث مباحثے کی ضرورت نہیں ۔ اس حوالے سے ایک طریقہ کار طے شدہ ہے ۔

پاکستان کے آئین 1956اور 1962میں بھی آزاد کشمیر کیساتھ تعلقات کار واضح تھے کہ جس طرح آزاد کشمیر کے لوگ مناسب سمجھیں گے ویسے ہوگا ۔ ایکٹ 1970کے نفاذ تک ایک طریقہ کار طے تھا جو بہترین تھا اس وقت وفاقی وزراء آزاد کشمیر آتے تھے ۔ کشمیر کونسل کے بعد تو رابطے ہی ختم ہوگئے جب کشمیر کونسل قائم کی جارہی تھی اسے حکومت پاکستان کیساتھ پل قرار دیا گیا تھا ۔

سردار ابراہیم صاحب نے ایک میٹنگ میں کہا تھا کہ پل بن گیا ہے جس پر سردار سکندر حیات خان نے کہا تھا کہ پل تو بنا ہے مگر ٹریفک یکطرفہ ہے ۔ مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ نے اسی وقت کشمیر کونسل کو مسترد کردیا تھا۔ 70کا ایکٹ ہمیں ایک ملٹری ڈکٹیٹر اور ایک بنگالی بیوروکریٹ موسیٰ بنگالی نے دیا تھا جس کیلئے آج میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس کی ہڈیوں کو ٹھنڈا رکھے کشمیر کونسل اور ایکٹ 74 میں ترامیم کے حوالے سے سب جماعتوں نے میرے موقف کی تائید کی ہے ۔

بیرسٹر سلطان ، ملک مجید ،چوہدری لطیف اکبرسمیت سب سے رابطے کیے ہیں جو قائدین رہتے ہیں ان سے بھی اگلے چند روز میں بات کرونگا،۔ آزاد کشمیر کا میڈیا ،پڑھے لکھے لوگ اور سول سوسائٹی میرے ساتھ کشمیر کونسل کے خاتمہ سے پاکستان کیساتھ براہ راست رشتے مضبوط ہونگے ۔ آزاد کشمیر اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعیناتی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ ججز کی خالی آسامیوں پر تقرریاں جلدہوجائیں گی اور وہی لوگ جج تعینات ہونگے جو اس اہل ہیں میرے اختیار میں ہوتا تو کب کے لگ چکے ہوتے ۔

متعلقہ عنوان :