سپریم کورٹ میں ادویات کی زائد قیمتوں کے حوالے سے مقدمہ کی سماعت

ادویہ ساز کمپنیوں کے وکلاء مل بیٹھ کر ادویات کے قیمتوں کا تعین کرنے کیلئے قابل قبول حل پیش کریں چاہتا ہوں اس ملک کے غریبوں کو دو وقت عزت کی روٹی اوربیماری سے لڑنے کیلئے دوائی ملے،چیف جسٹس

منگل 27 فروری 2018 22:17

سپریم کورٹ میں ادویات کی زائد قیمتوں کے حوالے سے مقدمہ کی سماعت
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 27 فروری2018ء) سپریم کورٹ نے ادویات کی زائد قیمتوں کے حوالے سے مقدمہ میں ادویہ ساز کمپنیوں کے وکلاء کو مل بیٹھ کر ادویات کے قیمتوں کا تعین کرنے کیلئے قابل قبول حل پیش کرنے کی ہدایت کی ہے ، مزید سماعت آج بدھ کی صبح تک ملتوی کردی گئی ،عدالت عالیہ نے کہاہے کہادویات کی قیمتوں میں توازن ہوناچاہیے لیکن قیمتوں کا تعین سپریم کورٹ نے نہیں کرنا، چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ چاہتا ہوں کہ اس ملک کے غریبوں کو دو وقت کی عزت کی روٹی اوربیماری سے لڑنے کیلئے دوائی ملے۔

(جاری ہے)

منگل کوچیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثارکی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی ، اس موقع پرچیف جسٹس نے ڈریپ کے نمائندے سے استفسارکیاکہ ادویات کی قیمتوں کے حوالے سے اس وقت ڈریپ میں کتنی درخواستیں زیر سماعت ہیں، جس پرنمائندہ ڈریپ نے کہاکہ90 روز میں درخواست پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے، لیکن کچھ کمپنیاں ایسی ہیں جنہوں نے مکمل تفصیلات فراہم نہیں کی، چیف جسٹس نے کہاکہ ادویات کی قیمتوں کا تعین سپریم کورٹ نے نہیں کرنا، لیکن ان میں توازن ضرورہوناچاہیے ، یہ بات باالکل واضح ہے کہ کوئی شخص نقصان کے لیے کاروبار نہیں کرتا، تاہم ڈاکٹرمیں خدمت خلق کا جذبہ ہونا چاہئے، کمپنیاں آپس میں مل بیٹھ کر قیمتوں کا تعین کریں اورعدالتوں کو بیچ میں نہ لائیں، چیف جسٹس کاکہناتھاکہ یہاں یہ حال ہے کہ6 ہزار روپے والی ہیپاٹائٹس کی دوائی 25 ہزار روپے میں بیچی جارہی ہے، جس میں سب سے بڑا قصور ڈریپ کا ہے لیکن سب سن لیں کہ ہم راتوں کو بھی بیٹھ کر ادویات ساز کمپنیوں کی درخواستوں کا جائزہ لیں گے، کمپنیوں کو معقول معاوضہ ملنا چاہیے، ہم نہیں چاہتے کہ اداویہ ساز کمپنیوں کو دیوار سے لگا کر مفت دوائیاں بیچی جائیں،کمپنیوں کو معقول معاوضہ ملنا چاہیے،سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ادویات کمپنیوں کے وکیل سے استفسارکیا کہ کیا آپ 2002 ء میں ادویات کی مقررہ قیمتوں میں 94 فیصد اضافہ چاہتے ہیں، یہ معاملہ ڈریپ کے ساتھ حل کیا جائے ، جس پرادویہ سازکمپنیوں کے وکیل رشید اے رضوی نے عدالت سے کہاکہ اگر ڈریپ قانون کے مطابق کام کررہی ہوتی تو ہمیں عدالت آنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی، ہم نے 2010 ء میں درخواستیں دی تھیں جن پر ڈریپ نے فیصلہ نہیں کیا، عدالت کے استفسارپرڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہا کہ اس وقت ڈریپ میں 368 مقدمات زیر التوا ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ انصاف کرنا صرف سپریم کورٹ کا کام نہیں،ڈریپ کا کام بھی انصاف کرنا ہے ،ہمارے پاس ایسی ایسی چیزیں آتی ہیں کہ اللہ کا خوف آتا ہے، لیکن ادویات کی قیمتوں میں اضافہ پالیسی کے تحت کرنا ہوتاہے ، اگر قانون کے مطابق سالانہ 8 فیصد اضافہ ہوسکتا ہے یا تین سالوں میں 24 فیصد اضافہ کیا جاتا ہے تو اس معاملے کو بھی دیکھیں گے ، ہم نے قانون طے کرنا ہے، ہماری اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوگی کہ خدا نخواستہ کسی بیوہ کو سر درد ہو اور وہ پیرا سیٹا مول بھی نہ خرید سکے ، ہم تو چاہتے ہیں کہ دنیا بھر سے لوگ پاکستان آکر سرمایہ کاری کریں، چیف جسٹس نے کہاکہ انصاف کرنا صرف سپریم کورٹ ہی نہیںبلکہ ریاستی اداروں کا بھی کام ہے، خوف سے باہر نکل کراپنے فرائض سرانجام دیں ،اگر کسی کا کوئی حق بنتا ہے تو اسے ضرور دیا جائے ،بعد ازاں مزید سماعت ملتوی کردی گئی ۔

متعلقہ عنوان :