سینیٹ کی 52 نشستوں پر انتخابات ،پنجاب اور اسلام آباد میں مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ امیدوار ،سندھ میں پیپلز پارٹی نے میدان مار لیا ، فاٹا میں فاٹا اتحادکے چار آزادامیدوار کامیاب ،ایم کیو ایم کو بدترین شکست کا سامنا

ْ(ن) لیگ اپنے حمایت یافتہ سینیٹرز کے ساتھ33نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے پیپلز پارٹی 20سینیٹرز کے ساتھ دوسرے نمبر پرآگئی ہے،17آزاد امیدوار ، نئے چئیرمین سینیٹ کے انتخاب کیلئے آزاد امیدواروں کی اہمیت بڑھ گئی ،ق لیگ مکمل آئوٹ ہوگئی

ہفتہ 3 مارچ 2018 22:14

سینیٹ کی 52 نشستوں پر انتخابات ،پنجاب اور اسلام آباد  میں مسلم لیگ (ن) ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 03 مارچ2018ء) سینیٹ کی 52 نشستوں پر انتخابات ، پنجاب اور اسلام آباد میں مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ امیدوارں ،سندھ میں پیپلز پارٹی نے میدان مار لیا، جبکہ فاٹا میں فاٹا اتحادکے چار آزادامیدوار کامیاب ہو ئے ہیں ،ایم کیو ایم کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا،(ن) لیگ اپنے حمایت یافتہ سینیٹرز کے ساتھ33نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے جبکہ پیپلز پارٹی 20سینیٹرز کے ساتھ دوسرے نمبر پرآگئی ہے،17آزاد امیدوار ہیں اس طرح نئے چئیرمین سینیٹ کے انتخاب کیلئے آزاد امیدواروں کی اہمیت بڑھ گئی ہے ۔

تفصیلات کے مطابق ہفتہ کو ہونیوالے انتخابات میں سینیٹ کی 52 نشستوں پر 113 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا۔ قومی اسمبلی اور ملک کی چاروں صوبائی اسمبلیوں میں صبح 9 بجے پولنگ شروع ہوئی جو شام 4 بجے تک بلا تاخیر جاری رہی۔

(جاری ہے)

کامیاب امیدوار 6 سال کے لیے ملک کے ایوان بالا سینیٹ کے رکن منتخب ہوگئے۔غیرسرکاری غیر حتمی نتائج کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ 16 امیدوار، پیپلز پارٹی کے 12 ، پی ٹی آئی کے 6، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 2، نیشنل پارٹی کے دو، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی، فنکشنل لیگ اور پشتونخوا میپ کا ایک ایک جبکہ 10 آزاد امیدوار کامیاب ہوگئے ۔

اسحاق ڈار اور مشاہد حسین، آصف کرمانی، مصدق ملک، رانا مقبول، ہارون اختر، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی ہمشیرہ سعدیہ عباسی، رضا ربانی، مولا بخش چانڈیو، مرتضیٰ وہاب،نواز کھوکھر اور محمد علی جاموٹ،پی ٹی آئی کے امیدوار چوہدری محمد سرور بھی کامیاب ہو گئے۔ مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں نے پہلی مرتبہ سینیٹ انتخابات میں آزاد امیدواروں کی حیثیت سے حصہ لیا۔

پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ 11 ارکان نے کامیابی حاصل کی جبکہ ایک نشست پاکستان تحریک انصاف کے نام رہی۔سندھ اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے 11 اور مسلم لیگ فنکشنل نے سینیٹ کی ایک نشست حاصل کی۔خیبر پختونخوا کی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے 3، ن لیگ کے حمایت یافتہ 2 جبکہ پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے ایک ایک امیدوار کامیاب ہوئے۔

بلوچستان اسمبلی سے 8 آزاد امیدوار، نیشنل پارٹی کے دو اور جمعیت علمائے اسلام کا ایک امیدوار کامیاب ہوا۔اسلام آباد کی سینیٹ کی دونوں نشستیں ن لیگ کے حمایت یافتہ امیدواروں اور فاٹا کی چاروں نشستیں آزاد امیدواروں کے نام رہیں۔اسلام آباد کی دونوں نشستوں پر (ن) لیگ کے حمایت یافتہ امیدوار کامیاب قرار پائے۔اسلام آباد سے جنرل نشست پر اسد جونیجو 214 ووٹ لے کرسینیٹر منتخب ہوئے جب کہ ان کے مد مقابل پیپلز پارٹی کے عمران اشرف کو 48 ووٹ ملے۔

مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ امیدوار مشاہد حسین سید بھی اسلام آباد سے ٹیکنو کریٹ کی نشست پر سینیٹر منتخب ہوگئے۔ مشاہد حسین 223 ووٹ لے کر سینیٹر منتخب ہوئے اور ان کے مد مقابل پیپلزپارٹی کے راجہ شکیل عباسی کو 64 ووٹ ملے۔ قومی اسمبلی میں سینیٹ کی ٹیکنوکریٹ کی نشست پر 300 ووٹ کاسٹ کیے گئے جن میں سے 14ووٹ مسترد کردیئے گئے۔ فاٹا کی 4 نشستوں پر 24 اور اسلام آباد کی 2 نشستوں پر 5 امیدوار مد مقابل تھے۔

سینٹ انتخابات میں فاٹا سے 6رکنی اتحاد کے نامزد 4 آزاد امیدوارسینیٹر منتخب ہوگئے ہیں ،فاٹا سے کامیاب ہونے والوں میں ہلال الرحمن ، ہدایت اللہ، شمیم افریدی اور مرزا محمد افریدی شامل ہیں ،وزیر مملکت برائے سیفران غالب خان ،شہاب الدین اور تحریک انصاف کے رکن قیصر جمال نے سینٹ الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا، فاٹا سے کامیاب ہونے والے چاروں سینیٹرز نے 7/7ووٹ حاصل کئے ہیں ۔

مقررہ وقت کے اختتام پر صرف 8اراکین کی جانب سے ڈالے گئے 30ووٹ گنتی کرائے گئے ۔پنجاب کی 12 نشستوں پر 20 امیدوارمیدان میںتھے ۔ جنرل نشستوں پر 10، خواتین کی نشستوں پر 3، ٹیکنوکریٹ نشستوں پر 5 جبکہ اقلیتوں کی نشست پر 2 امیدوار میدان میں تھے۔سینٹ میں پنجاب کی 12نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ امیدواروں نے میدان مار لیا ہے جبکہ 1نشست پر پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار چوہدری سرور اور پی ایم ایل (ن) کے امیدوار محمود الحسن کے درمیان سخت مقابلے کے بعد پی ٹی آئی کے امیدوار چوہدری محمد سرور کامیاب قرار پا گئے ہیں، سینٹ کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کامیاب ہونے والے امیدواروں میں اسحاق ڈار، نزہت صادق، آصف کرمانی، مصدق ملک، سعدیہ عباسی، رانا مقبول، ہارون اختر، حافظ عبدالکریم، کامران مائیکل، زبیر گل، شاہین خالد بٹ شامل ہیں، سینٹ میں پنجاب کی 12 نشستوں جن میں سات جنرل نشستیں دو ٹیکنو کریٹ، دو خواتین اور ایک مینارٹی کی نشست شامل تھی پر انتخابات ہوئے الیکشن کمیشن پنجاب کی جانب سے جاری کردہ غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق سینٹ کی سات جنرل نشستوں پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے آصف کرمانی، مصدق ملک، رانا مقبول، ہارون اختر، زبیر گل، شاہین خالد بٹ، ٹیکنو کریٹس کی دو نشستوں پر اسحاق ڈار اور حافظ عبدالکریم، خواتین کی دو نشستوں پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی ہمشیرہ سعدیہ عباسی اور نزہت صادق جبکہ اقلیتی ایک نشست پر کامران مائیکل کامیاب قرار پائے ہیں۔

پنجاب کی 12 نشستوں پر پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کے 20 امیدواروں کے درمیان مقابلہ تھا، ووٹنگ کا عمل صبح نو بجے سے شروع ہو کر شام 4 بجے تک جاری رہا، سینٹ کی خالی نشستوں پر ہونے والے انتخابات کے انعقاد کے موقعہ پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے، تمام دن مختلف امیدوار اور ان کے حمایتی ارکان اسمبلی اپنے اپنے امیدواروں کی حمایت میں ووٹ مانگتے رہے، اس طرح مجموعی طور پر سینٹ کی 12 نشستوں پر انتخاب پرامن طریقے سے مکمل ہو گیا۔

غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج منظر عام پر آتے ہی پنجاب اسمبلی میں موجود (ن) لیگی کارکنوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، پنجاب اسمبلی کی فضا شیر آیا، شیر آیا، میاں دے نعرے وجن گے‘‘ کے نعروں سے گونجتی رہی، اس موقعہ پر لیگی کارکنوں نے خوشی میں بھنگڑے بھی ڈالے اور مٹھائی بھی تقسیم کی۔سندھ کی 12 نشستوں پر مجموعی طور پر 33 امیدواروں نے الیکشن میں لیا۔

جنرل نشستوں پر 18، ٹیکنوکریٹ نشستوں پر 6، خواتین کی نشستوں پر 6 جبکہ اقلیتوں کی نشست پر 3 امیدواروں میں مقابلہ تھا۔سندھ اسمبلی کے 161 سے نے ووٹ کاسٹ کیے جن میں سے پیپلزپارٹی کی85 ارکان اور مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ 7 ارکان نے بھی ووٹ ڈالے۔ پیپلزپارٹی نے سینیٹ انتخابات میں سندھ سے میدان مارلیا ہے ، سینیٹ کی 12میں سے 10نشستوں پر پیپلزپارٹی نے کامیابی حاصل کرلی ہے ،جبکہ ایم کیو ایم پاکستان اور مسلم لیگ فنکشنل ایک ایک نشست لے سکی ہیں ،پیپلزپارٹی کے مولا بخش چانڈیو ،میاں رضا ربانی ،سید محمد علی شاہ جاموٹ ،مرتضیٰ وہاب،مصطفی نواز کھوکھر ،امام الدین شوقین نے جنرل نشست پر جبکہ ڈاکٹر سکندر میندھرو اور رخسانہ زبیری نے ٹیکنو کریٹ کی نشست پر جبکہ پیپلزپارٹی کے انور لعل ڈین نے اقلیتی نشست پر 100ووٹ لیکر کامیابی حاصل جبکہ ایم کیو ایم کے سنجے پروانی صرف 43ووٹ لے سکے ۔

خواتین کی مخصوص نشستوں پر پیپلزپارٹی کی قراة العین مری اور کرشنا کوہلی نے کامیابی حاصل کرلی ہے ۔جبکہ مسلم لیگ فنکشنل کے مظفر حسین شاہ نے بھی جنرل نشست پر کامیابی حاصل کرلی ہے ۔مسلم لیگ ن ، پی ایس پی اور ایم کیو ایم نے مظفر حسین شاہ کی حمایت کی تھی۔ جبکہ صوبے کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ایم کیو ایم پاکستان اندروانی اختلافات کی وجہ سے صرف ایک نشست لے سکی ہے ،ایم کیو ایم پاکستان کے فروغ نسیم واحد امیدوار ہیں جو سینیٹر منتخب ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔

12سینیٹرز کے انتخاب کے لئی166میں سے 162ارکان سندھ اسمبلی نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ۔ صوبے سے سینیٹ کے لئے سات عام نشستوں، دو خواتین، دو ٹیکنو کریٹس اور ایک اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں کے لئے امیدواران کے درمیان مقابلہ ہوا ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے 94 ارکان تھے جبکہ گروپ بندی کا شکار ایم کیو ایم پاکستان کے اسمبلی ریکارڈ کے مطابق 50 ارکان تھے لیکن ان میں سے 8 چونکہ پی ایس پی میں شامل ہوچکے تھے اور پی ایس پی نے اپنے امیدوار بھی میدان میں اتارے تھے اور ساتھ میں فنکشنل لیگ کی حمایت کا اعلان بھی کیا تھا ،جبکہ بقیہ مانداس مقابلے کے لئے صوبے کی مختلف جماعتوں کے 33 امیدوار آمنے سامنے تھے ۔

جن میں سے 7جنرل نشستوں کیلئے 18 امیدوار وں کے درمیان مقابلہ تھا۔پیپلزپارٹی نے 7میں سے 5 نشستیں جیت لیں جبکہ خواتین کی دو مخصوص نشستوں سمیت ٹیکنو کریٹ کی دونوں نشستوں پر پی پی امیدواروں نے کامیابی حاصل کی۔اس کے علاوہ ہفتہ کے روزصوبائی الیکشن کمشنرنے پولنگ کاجائزہ لیا،سینیٹ الیکشن کے موقع پرسندھ اسمبلی کے اطراف میں پولیس اوررینجرزکی بھاری نفری تعینات تھی جبکہ سینیٹ الیکشن میں پولنگ کی کوریج کے لیے میڈیاپرپابندی عائد کردی گئی تھی ۔

ارکان اسمبلی کوموبائل فون پولنگ بوتھ لے جانے سے روک دیاگیا تھا ۔سندھ اسمبلی سے سندھ ہائیکورٹ کی طرف سے سندھ اسمبلی آنے والے دونوں راستے کردئے گئے ،جبکہ آرٹس کونسل کی جانب سے آنے والے راستے کھلے رکھے گئے تھے۔جبکہ فوارہ چوک سے پریس کلب کو جانے والا راستہ بھی سیکیورٹی کے باعث بند رکھا گیا تھا ۔سندھ اسمبلی کے اطراف 10سے زائد تھانوں کی پولیس تعینات تھی۔

ادھر خیبر پختونخوا سے سینیٹ کی 11 نشستوں کے لیے 27 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا، 7 جنرل نشستوں میں سے پی ٹی آئی کے تین امیدوار فیصل جاوید، فدا محمد اور ایوب آفریدی، ن لیگ کے حمایت یافتہ امیدوار پیر صابر شاہ، جے یو آئی ف کے طلحہ محمود، جماعت اسلامی کے مشتاق احمد خان اور پیپلز پارٹی کے بہرہ مند تنگی کامیاب ہوگئے۔ٹیکنوکریٹ کی 2 نشستوں پر پی ٹی آئی کے اعظم سواتی اور ن لیگ کے حمایت یافتہ دلاور خان کامیاب ہوگئے۔

خواتین کی نشستوں پر پاکستان تحریک انصاف کی مہرتاج روغانی اور پیپلز پارٹی کی روبینہ خالد کامیاب ہوگئیں۔خیبر پختون خوا میں جے یو آئی (س) کے مرکزی امیر مولانا سمیع الحق ٹیکنو کریٹ کی نشست پر ہار گئے۔ انہیں صرف 4 ووٹ ملے۔اس طرح خبرپختونخوا اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف نے 5 نشستیں جیت لیں، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو 2، 2 سیٹیں ملیں، جے یو آئی اور جماعت اسلامی کا ایک ایک سینیٹر منتخب ہوگیا، ، ن لیگ کے پیر صابر شاہ بھی جنرل نشست پر سینیٹر منتخب ہوگئے، خیبرپختونخوا اسمبلی میں اگلی باری پھر زرداری کے نعرے بھی لگے۔

بلوچستان کی 11 نشستوں پر 25 امیدواروں نے سینیٹ الیکشن میں حصہ لیا، ، جنرل نشستوں پر 15، خواتین کی نشستوں پر 6 جب کہ ٹیکنوکریٹ نشستوں پر 4 امیدوار میدان میں تھے ، 7 جنرلنشستوں پر 5 آزاد امیدوار کامیاب ہوئے جب کہ جنرل کی 2 نشستوں پر جے یو آئی (ف) اور نیشنل پارٹی کا ایک، ایک امیدوار کامیاب ہوا۔ بلوچستان میں بھی سینیٹ کی11 نشستوں پر انتخابات مکمل ہو گئے غیر سرکاری نتائج کے مطابق مسلم لیگ(ن) کے منحرف ارکان اور مسلم لیگ (ق) پر مشتمل آزاد گروپ نے 6 جبکہ دیگر پارٹیوں نی5 سیٹیں حاصل کر لیںجمعیت علماء اسلام کے ایوان میں 8 ووٹ تھے لیکن ان کے امیدوار مولوی فیض محمد کو صرف پانچ ووٹ ملے ، مسلم لیگ(ن) اور دیگر پارٹیوں کے دوسرے ترجیحی ووٹ ملنے پر انہیں کامیابی حاصل ہوئی پارٹی کے تین ارکان نے انحراف کر تے ہوئے اپنے امیدوار کو ووٹ نہیں دیئے سینیٹ الیکشن بلوچستان اسمبلی ہال میں صوبائی الیکشن کمشنر محمد نعیم مجید جعفر کی زیر نگرانی ہوئے اس موقع پر سیکورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کئے گئے تھے بلوچستان سے سینیٹ کے 11 نشستوں پر 23 امیدواروں کے درمیان مقابلہ تھا جنرل کی7 نشستوں پر 15 امیدوار، ٹیکنو کریٹ کے دو نشستوں پر 3 امیدواروں اور خواتین کے دو نشستوں پر پانچ امیدواروں کے درمیان مقابلہ تھا نتائجکے مطابق آزاد گروپ نے جنرل پر5 نشستیں حاصل کی کامیاب ہونیوالے جنرل سیٹ پراحمد خان ، انوارالحق کاکڑ، صادق سنجرانی اور کہدہ بابر جبکہ پشتونخوامیپ کے سردار شفیق ترین اور نیشنل پارٹی کے اکرم دشتی جنرل نشستوں پر کامیاب ہوئے اسی طرح ٹیکنو کریٹ کی سیٹ پر نیشنل پارٹی کے طاہر بزنجو اور آزاد گروپ کے نصیب اللہ بازئی کامیاب ہوئے خواتین کی دوسیٹوں پر آزاد گروپ کی ثناء جمالی اور پشتونخوامیپ کی عابدہ عمر نے کامیابی حاصل کی سینیٹ کے انتخابات کے دوران جمعیت علماء اسلام کے تین ارکان پارٹی اختلاف کر تے ہوئے پارٹی امیدوار کو ووٹ نہیں دیا مولوی فیض محمد کو 8 ووٹ ملنے تھے لیکن انہیں صرف پانچ ووٹ ملے دیگر اتحادی جماعتوں کے سپورٹ سے وہ نشست پر کامیاب ہو گئے انتخابات کے موقع پر سیکورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کئے گئے تھے پولیس اور ایف سی کی بڑی نفری تعینات کی گئی تھی اور کسی بھی ممبر کو موبائل فون اندر لے جانے کی اجازت نہیں تھی وفاقی الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کئے جانے والے ضابطہ اخلاق پر سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنایا گیا۔

بلوچستان اسمبلی میں کل اراکین کی تعداد 65 ہے لیکن گزشتہ روز منظور کاکڑ کو الیکشن کمیشن نے نااہل قرار دیا جس کے باعث تمام 64 اراکین نے ووٹ ڈالے اور اس طرح صوبائی اسمبلی میں ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 100 فیصد رہا۔سینیٹ معرکے کے لیے پولنگ کا عمل صبح 9 بجے شروع ہوا جو بلاتعطل شام 4 بجے تک جاری رہا۔وقت ختم ہونے کے بعد جو لوگ پولنگ اسٹیشن کے اندر موجود تھے صرف ان ہی کو ووٹ کاسٹ کرنے کی اجازت تھی۔

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے اسلام آباد میں موجودگی کے باوجود سینیٹ کے انتخابات میں حصہ نہیں لیا جب کہ سابق وزیراعظم نوازشریف کی اہلیہ کلثوم نواز بیماری کے باعث بیرون ملک موجود ہیں اس وجہ سے ووٹ نہیں ڈال سکیں۔الیکشن کمیشن نے سینیٹ انتخابات میں پولنگ کی نگرانی کے لیے نمائندے مقرر کیے ہیں جن میں الیکشن کمیشن کے چاروں ممبران اور سیکریٹری نگرانی کیلئے موجود رہے۔

الیکشن کمیشن کے اعلامیے کے مطابق سیکریٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب خیبرپختونخوا اسمبلی، ممبر الیکشن کمیشن، عبدالغفار سومرو بلوچستان اسمبلی، شکیل بلوچ سندھ اسمبلی اور الطاف ابراہیم قریشی پنجاب اسمبلی میں نگرانی کے لیے موجود ہیں۔سیکریٹری الیکشن کمیشن نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ کسی امیدوار نے کوئی شکایت نہیں کی، سب امیدواروں نے اچھے انتظامات پر اطمینان کا اظہارکیا۔

ہارس ٹریڈنگ کی شکایت کے سوال پر سیکریٹری الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ انہیں کسی نے ایسی کوئی شکایت نہیں کی۔الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے ضابطہ اخلاق کے مطابق اراکین کے پولنگ اسٹیشن میں موبائل فون لانے پر مکمل پابندی تھی۔ضابطہ اخلاق کے مطابق بیلٹ پیپر کو خراب کرنے یا اسے پولنگ اسٹیشن سے باہر لے جانے پر مکمل پابندی تھی اور جعلی بیلٹ پیپر استعمال کرنے پر کارروائی کا عندیہ دیا گیا تھا۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر ایک لاکھ روپے تک جرمانہ اور 6 ماہ سے 2 سال تک قید کی سزا رکھی گئی تھی جب کہ الیکشن کمیشن مجاز تھا کہ جرمانہ اور قید کی سزا ایک ساتھ سنا سکے۔یاد رہے کہ سینیٹرز کی آئینی مدت 6 برس ہے اور ہر 3 برس بعد سینیٹ کے آدھے ارکان اپنی مدت پوری کرکے ریٹائر ہوجاتے ہیں اور آدھے ارکان نئے منتخب ہوکر آتے ہیں۔

اس مرتبہ بھی سینیٹ کی آدھی یعنی 52 نشستوں پر انتخابات ہونے جا رہے ہیں، جس کے لیے 131 امیدوار آمنے سامنے تھے ۔ یاد رہے کہ سینیٹ کی52 نشستوں پر ملک بھر میں 131 امیدوار میدان میں تھے 52 منتخب ہونیوالے سینیٹرز آنیوالے چھ سال کے لئے منتخب ہوئے ہیں کیونکہ 11 مارچ کو52 سینیٹرز اپنی مدت پوری کرتے ہوئے ریٹائرڈ ہو جائینگے۔سینیٹ انتخابات کے موقع پر ماحول پر امن رکھنے کے لیے الیکشن کمیشن کی ہدایت پر وزارت داخلہ نے اسمبلیوں کی سیکورٹی رینجرز کے سپرد کر رکھی تھی اور رینجرز کی بھاری نفری اسمبلیوں پر موجود رہے۔

پشاور میں پولنگ کے موقع پر خیبرپختونخوا اسمبلی اور قریبی عمارتوں کو ریڈ زور قرار دیا گیا، اسمبلی اور اطراف میں 400 سے زائد پولیس اہلکار بھی سیکیورٹی کے لیے تعینات تھے۔دریں اثناء سینٹ انتخابات کا عمل مکمل ہونے کے بعد ایوان بالا میں پارٹی پوزیشن کے مطابق مسلم لیگ ن اپنے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی کامیابی کے بعد33نشستوں کے ساتھ سرفہرست ہوگئی ہے جبکہ پیپلز پارٹی جس کے سب سے زیاد 18سینیٹرز ریٹائر ہورہے ہیں ،20نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پرآگئی ۔

فاٹا سمیت آزاد امیدواروں کی تعداد 17ہے ۔پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹ میں ارکان کی تعداد 12ہو گئی ہے جبکہ ایم کیو ایم اور نیشنل پارٹی کے پانچ ،پانچ،جے یو آئی کے چار،پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے 3،اے این پی ،جماعت اسلامی ،بی این پی مینگل اور مسلم لیگ (ف ) کے ارکان کی تعداد ایک ،ایک ہے ،موجودہ سینٹ سے مسلم لیگ ق کی مکمل چھٹی ہوگئی ہے ،انکا کوئی سینیٹر منتخب نہیں ہوا ۔