سینیٹ کی 52 نشستوں پر انتخاب کا مرحلہ مکمل،پاکستان مسلم لیگ (ن) اپنے حمایت یافتہ ارکان کے ساتھ سینیٹ میں اکثریتی جماعت بن گئی،

وفاقی دارالحکومت کی دونوں اور پنجاب کی 11 نشستوں پر میدان مار لیا، خیبرپختونخوا سے مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ پیر صابر شاہ سمیت دو امیدوار کامیاب

ہفتہ 3 مارچ 2018 22:55

سینیٹ کی 52 نشستوں پر انتخاب کا مرحلہ مکمل،پاکستان مسلم لیگ (ن) اپنے ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 03 مارچ2018ء) سینیٹ کی 52 نشستوں پر انتخاب کا مرحلہ مکمل کر لیا گیا ہے جس کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) سینٹ میں اپنے حمایت یافتہ ارکان کے ساتھ سب سے بڑی اکثریت رکھنے والی جماعت بن گئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ امیدواروں نے وفاقی دارالحکومت کی دونوں اور پنجاب کی 11 نشستوں پر میدان مار لیا۔

خیبرپختونخوا سے مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ پیر صابر شاہ سمیت دو امیدوار بھی سینٹ کے رکن منتخب ہو گئے۔ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے تمام اراکین نے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے باعث آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لیا۔ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے سینیٹرز کے انتخاب کے لئے پولنگ چاروں متعلقہ صوبائی اسمبلیوں میں جبکہ اسلام آباد اور فاٹا کی نشستوں کے لئے پولنگ قومی اسمبلی میں ہوئی، سندھ اور پنجاب سے 12، 12 سینیٹرز کا انتخاب ہوا جبکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے 11،11 سیینیٹرز منتخب ہوئے، فاٹا سے 4 اور اسلام آباد سے 2 ارکان ایوان بالا کا حصہ بن گئے۔

(جاری ہے)

سینیٹرز کی آئینی مدت 6 برس ہے،ہر 3 برس بعد سینیٹ کے نصف ارکان اپنی مدت پوری کرکے ریٹائر ہوجاتے ہیں اور نصف ارکان نئے منتخب ہوکر آتے ہیں۔ پنجاب اور سندھ میں 7، 7 جنرل نشستوں، خواتین اور ٹیکنوکریٹ کی 2، 2 نشستوں اور ایک اقلیتی نشست پر انتخاب ہوا جبکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں 7،7 جنرل نشستوں جبکہ خواتین اور ٹیکنوکریٹ کی 2، 2 نشستوں پر انتخاب ہوا۔

فاٹا میں 4 جنرل نشستوں جبکہ اسلام آباد میں ایک جنرل نشست اور ایک ٹیکنو کریٹ کی نشست کے لیے انتخاب ہوا۔ امیدواروں کی سیٹوں کی تقسیم میں پنجاب سے 20 امیدوار حتمی فہرست میں شامل تھے۔ جنرل نشستوں پر 10، خواتین کی نشستوں پر 3، ٹیکنوکریٹ نشستوں پر 5 جبکہ اقلیتوں کی نشست پر 2 امیدوار میدان میں تھے۔ سندھ سے مجموعی طور پر 33 امیدواروں نے الیکشن میں حصہ لیا۔

جنرل نشستوں پر 18، ٹیکنوکریٹ نشستوں پر 6، خواتین کی نشستوں پر 6 جبکہ اقلیتوں کی نشست پر 3 امیدواروں میں مقابلہ ہوا۔ اسی طرح خیبر پختونخوا سے سینیٹ کی 11 نشستوں کے لئے 27 امیدواروں کے درمیان مقابلہ تھا، جنرل نشستوں پر 14، ٹیکنوکریٹ نشستوں پر 5 اور خواتین کی نشستوں پر 8 امیدوار مقابلے کی دوڑ میں تھے۔ بلوچستان سے 25 امیدواروں نے سینیٹ الیکشن میں حصہ لیا، جنرل نشستوں پر 15، خواتین کی نشستوں پر 6 جبکہ ٹیکنوکریٹ نشستوں پر 4 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا۔

پنجاب کیلئے 1600 بیلٹ پیپرز، سندھ کیلئے 800، خیبر پختونخوا کے لئے 600، بلوچستان کیلئے 300، اسلام آباد کے لئے 800 اور فاٹا کیلئے 50 بیلٹ پیپرز چھاپے گئے تھے۔ سیکورٹی کے حوالے سے رینجرز اور ایف سی کو چاروں صوبائی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر تعینات کیا گیا تھا۔ پولنگ کا آغاز صبح 9 بجے ہوا اور بغیر کسی وقفے کے 4 بجے تک جاری رہا۔ ووٹ کی رازداری کو یقینی بنانے اور کسی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے الیکشن کمیشن نے تمام ریٹرننگ افسران کو مجسٹریٹ درجہ اول کے اختیارات بھی تفویض کئے ہوئے تھے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے خصوصی ہدایات تمام ووٹرز کو جاری کی گئی تھیں کہ وہ اپنے موبائل فون پولنگ سٹیشن کے اندر نہ لائیں۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے اسلام آباد کی دو اور فاٹا کی چار نشستوں کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق سینیٹر مشاہد حسین سید، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے 223 ووٹ لے کر ٹیکنوکریٹ کی نشست پر اور اسد جونیجو 214 ووٹ لے کر جنرل نشست پر کامیاب قرار پائے۔

فاٹا سے ہدایت اللہ، شمیم آفریدی، مرزا محمد آفریدی اور ہلال الرحمن نے 7، 7 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی۔ ہفتہ کو چار بجے قومی اسمبلی جسے سینٹ انتخابات کے لئے پولنگ سٹیشن کا درجہ دیا گیا تھا، میں پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد ریٹرننگ افسر ظفر اقبال نے اعلان کیا کہ سینٹ کے انتخابات کے لئے 300 ارکان نے مجموعی طور پر اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔

غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق اسلام آباد سے ٹیکنوکریٹ کی نشست پر آزاد امیدوار مشاہد حسین سید نے 223 ووٹ حاصل کر کے میدان مار لیا۔ ان کے 13 ووٹ مسترد قرار پائے۔ ان کے مدمقابل پاکستان پیپلزپارٹی کے راجہ شکیل عباسی صرف 64 ووٹ حاصل کر سکے۔ جنرل نشست پر آزاد امیدوار اسد جونیجو نے 214 ووٹ حاصل کئے ان کے 9 ووٹ مسترد ہوئے۔ پیپلزپارٹی کے راجہ عمران اشرف صرف 45 اور پی ٹی آئی کی امیدوار کنول شوزب 32 ووٹ حاصل کر سکیں۔

فاٹا کی چار نشستوں کے لئے شمیم آفریدی، مرزا محمد آفریدی، ہدایت اللہ اور ہلال الرحمن نے سات سات ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی۔ فاٹا کے 11 میں سے سات ارکان نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ پی ٹی آئی کے قیصر اور (ن) لیگ کے شہاب الدین خان نے تحفظات کے باعث انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ ہفتہ کو ایوان بالا کے وفاقی دارالحکومت سے دو اور فاٹا کے چار امیدواروں کے انتخابات کے لئے پولنگ پارلیمنٹ ہائوس میں ہوئی۔

الیکشن کمیشن کی طرف سے پریذائیڈنگ افسر کے فرائض ہارون شنواری اور ریٹرننگ افسر کے فرائض الیکشن کمیشن کے ایڈیشنل سیکرٹری ظفر اقبال نے انجام دیئے۔ پولنگ قومی اسمبلی ہال میں صبح 9 بجے شروع ہوئی۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق اور وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے سب سے پہلے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ وفاقی دارالحکومت سے ٹیکنو کریٹ نشست پر مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ امیدوار مشاہد حسین سید اور عام نشست پر اسد جونیجو امیدوار تھے۔

پیپلزپارٹی کی جانب سے راجہ عمران اشرف جبکہ تحریک انصاف کی جانب سے کنول شوزب امیدوار تھیں۔ اس طرح وفاقی دارالحکومت کی ایک ٹیکنو کریٹ اور ایک عام نشست کے لئے مجموعی طور پر پانچ امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا۔ فاٹا کی چار نشستوں کے لئے آزاد امیدوار پیر محمد عقیل شاہ، پیپلزپارٹی کے جنگریز خان، آزاد امیدوار حاجی خان، آزاد امیدوار ساجد حسین طوری، آزاد امیدوار سید جمال، آزاد امیدوار سید غازی جمال، آزاد امیدوار سبیل خان، آزاد امیدوار صادق حسین، آزاد امیدوار ہدایت اللہ، آزاد امیدوار ہلال الرحمن، پیپلزپارٹی کے امیدوار شعبان علی، فرہاد شباب، آزاد امیدوار شعیب حسین، شمیم آفریدی صالح، ضیاء الرحمن، طاہر اقبال، عبدالرزاق، حنیف الرحمن، مرزا محمد آفریدی اور ملک افضل دین خان سمیت مجموعی طور پر 24 امیدواروں نے حصہ لیا۔

سیکرٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب فتح محمد نے پولنگ کے عمل کا جائزہ لیا۔ فاٹا کی چار نشستوں کے لئے پولنگ پارلیمنٹ ہائوس کے کمیٹی روم نمبر 2 میں ہوئی۔ اس میں فاٹا کے 11 ارکان قومی اسمبلی نے اپنے اپنے امیدوار کے حق میں اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی 11 بج کر 52 منٹ پر پولنگ ہال میں داخل ہوئے۔ اس موقع پر ارکان اسمبلی، وفاقی وزراء نے وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کی اور پولنگ ہال کے اندر کافی دیر وزیراعظم اور ارکان اسمبلی کے درمیان خوشگوار انداز میں گپ شپ جاری رہی۔

پولنگ ہال کے اندر مشاہد حسین سید اور دیگر امیدوار ہر آنے والے ارکان قومی اسمبلی کا بھرپور انداز میں استقبال کرتے رہے۔ اعجاز الحق جب اپنا ووٹ ڈالنے پولنگ ہال میں داخل ہوئے اور انہیں دیکھتے ہی مشاہد حسین سید نے ’’مردِ مومن مردِ حق‘‘ کا نعرہ لگایا۔ وزیرعظم شاہد خاقان عباسی ووٹ ڈالنے کے بعد سید نوید قمر، حاجی غلام احمد بلور اور آفتاب احمد خان شیرپائو سے ان کی نشستوں پر ملنے گئے اور ان سے کچھ دیر گفتگو کی۔

مشاہد حسین سید، اسد جونیجو سمیت دیگر امیدواروں نے وزیراعظم کے ساتھ پولنگ ہال میں تصاویر بنوائیں۔ چار بجے پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد ریٹرننگ افسر ظفر اقبال نے نتائج غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کا اعلان کیا۔ پنجاب سے سینیٹ کی اقلیتی سیٹ پر مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار کامران مائیکل جبکہ خواتین کی دو نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کی حمایت یافتہ امیدواروں سعدیہ عباسی اور نزہت صادق نے کامیابی حاصل کرلی۔

غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق کامران مائیکل نے 321‘ سعدیہ عباسی نے 160 جبکہ نزہت صادق نے 152 ووٹ حاصل کئے۔ سینیٹ کے انتخابی معرکہ میں پنجاب سے ایک جنرل نشست پاکستان تحریک انصاف نے اپنے نام کرلی‘ غیر حتمی اورغیر سرکاری نتائج کے مطابق تحریک انصاف کے چوہدری سرور پنجاب کی جنرل نشست پر 44 ووٹ لیکر کامیاب ہو گئے۔سینیٹ کے انتخابی معرکہ میں پنجاب سے سینیٹ کی 6 جنرل نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے کامیابی حاصل کرلی‘ غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق سینیٹ کی جنرل نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ امیدوار آصف کرمانی 42 ‘ مصدق ملک 42‘ ہارون اختر 42‘ رانا مقبول 43‘ شاہین خالد 41 اور رانا محمود الحسن 40 ووٹوں کے ساتھ کامیاب ہوئے۔

سینیٹ کے انتخابی معرکہ میں پنجاب کی ٹیکنو کریٹ نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ امیدواروں نے کامیابی حاصل کرلی‘ غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق ٹیکنو کریٹ نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ امیدوار اسحاق ڈار اور حافظ عبدالکریم کامیاب ہو گئے۔سندھ اسمبلی میں سینیٹ کی 12 نشستوں کے لئے ہونے والے الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی نے 10 سیٹوں پر کامیابی حاصل کرلی۔

صوبائی الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ غیر حتمی نتائج کے مطابق سینٹ کے الیکشن میں سندھ سے پاکستان پیپلز پارٹی نے 10 اور مسلم لیگ فنکشنل اور متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) نے ایک ایک نشست حاصل کرلی۔سینیٹ کے الیکشن میں سندھ سے پاکستان پیپلز پارٹی 10 نشستیں جبکہ پاکستان مسلم لیگ فنکشنل اور متحدہ قوی موومنٹ (پاکستان) ایک ایک نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔

صوبائی الیکشن کمیشنر محمد یوسف خٹک نے الیکشن کے غیر حتمی نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ سندھ میں سینیٹ کے لئے 12 نشستوں پر الیکشن سندھ اسمبلی کی عمارت میں منعقد کئے گئے جس میں 165 ارکان میں سے 161 اراکین سندھ اسمبلی نے اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔ غیر حتمی نتائج کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے 10 امیدوار جبکہ پاکستان مسلم لیگ فنکشنل اور متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کا ایک ایک امیدوار الیکشن میں کامیاب ہوا ہے۔

شام 4 بجے پولنگ کا عمل ختم ہونے کے بعد ووٹوں کی گنتی کا آغاز کیا گیا۔ اقلیتوں کی ایک نشست پر پاکستان پیپلز پارٹی کے انور لعل دین سب سے زیادہ ووٹ لیکر کامیاب رہے۔ ٹیکنوکریٹ کی 2 نشستوں پر بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار ڈاکٹر سکندر مہندرو اور رخسانہ زبیری نے کامیابی حاصل کی۔ اسی طرح خواتین کی مخصوص نشستوں کے لئے قرة العین مری اور کیشوبائی کامیاب قرار پائیں۔

خواتین کی مخصوص نشستوں پر کامیاب امیدواروں نے 55، 55 ووٹ حاصل کئے تھے، اسی لئے پریزائیڈنگ آفسر نے پرچی کے ذریعے قرعہ اندازی کر کے قرعة العین کو اول نمبر دیا۔ سینیٹ کی 7 جنرل نشستوں کے نتائچ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے 5 امیدوار امام الدین شوقین، مولا بخش چانڈیو، رضا ربانی، محمد علی جاموٹ اور مصطفے نواز کھوکھر کامیاب رہے جبکہ ایک نشست مسلم لیگ فکنشنل کے سید مظفر حسین شاہ اور ایک نشست متحدہ قومی موو منٹ (پاکستان) کے بیرسٹر فروغ نسیم نے حاصل کی۔

ممبر الیکشن کمیشن آف پاکستان جسٹس (ر) شکیل احمد بلوچ نے اے پی پی سے بات چیت کے دوران بتایا کہ سندھ میں سینیٹ کی خالی ہونے والی نشستوں کے لئے پرامن اور شفاف پولنگ کے انتظامات کئے گئے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ انتخابات میں حصہ لینے والی کسی بھی سیاسی جماعت نے کسی بھی قسم کی کوئی شکایت نہیں کی۔خیبرپختونخوامیںسینٹ کی11خالی نشستوں پرغیرحتمی وغیرسرکاری نتائج کے مطابق پی ٹی آئی پانچ،پیپلزپارٹی اورن لیگ دودوجبکہ جماعت اسلامی اور جے یوآئی ایک ایک نشست جیتنے میں کامیاب ہوگئی۔

سات جنرل نشستوں کیلئے 13، دوٹیکنوکریٹ کی نشستوں کیلئے پانچ اور دوخواتین کی نشستوں پر آٹھ امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا ،غیرحتمی وغیرسرکاری نتائج کے مطابق جنرل نشستوں پر پی ٹی آئی کے فیصل جاوید،ایوب آفریدی،فدامحمد ،جے یوآئی کے طلحہٰ محمود ,ن لیگ کے حمایت یافتہ آزادامیدوار پیر صابر شاہ, پیپلزپارٹی کے بہرہ مند تنگی اورجماعت اسلامی کے مشتاق احمد کامیاب قرار پائے ہیں خواتین نشستوں پر پی ٹی آئی کی مہرتاج روغانی اورپی پی کی روبینہ خالد کو کامیابی ملی ہے اسی طرح ٹیکنوکریٹس میں پی ٹی آئی کے اعظم سواتی نے 48 ووٹ جبکہ ن لیگ کے حمایت یافتہ امیدواردلاور نے 42 ووٹ لیکر کامیابی حاصل کرلی ہے ،یہاں یہ امرقابل ذکرہے کہ خیبرپختونخوااسمبلی میں پیپلزپارٹی کے صرف پانچ اراکین اسمبلی ہیں لیکن اسکے باوجوداسکے دوامیدوار جیت گئے ہیں جس سے اندزہ ہوتا ہے کہ دیگرسیاسی جماعتوں کے ایم پی ایز نے پارٹی سے ہٹ کر ووٹ دیئے۔

اسی طرح پی ٹی آئی کے اعظم سواتی،پی پی کی روبینہ خالد اورجے یوآئی کے طلحہٰ محمودریٹائرمنٹ کے بعددوسری بار سینیٹرزمنتخب ہوئے ہیں ۔جے یوآئی س کے سربراہ مولاناسمیع الحق جس کو پی ٹی آئی کی حمایت حاصل تھی ،نے صرف تین ووٹ لئے ۔پی ٹی آئی جس نے اپنے حجم کے مطابق چھ امیدوار کھڑے کئے تھے ،کو ایک نشست ہارکر اپ سیٹ کاسامنا کرناپڑا ۔سینٹ انتخابات کے بعد کامیاب امیدواروںکے حق میں سیاسی جماعتوں کی طرف سے جشن منایاگیااورپشاورمیں ہوائی فائرنگ بھی ہوئی۔

بلوچستان اسمبلی میں سینیٹ انتخابات میں 6 آزاد ،پشتونخوامیپ اورنیشنل پارٹی کے دودو جبکہ جمعیت علماء اسلام کے ایک سینیٹرمنتخب ہوگئے ۔سینٹ کے 11 نشستوں کیلئے 23امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا۔ صوبائی الیکشن کمشنر نعیم مجید جعفرکی نگرانی میںمقررہ وقت سے 2 گھنٹے تاخیرسے سینٹ کے انتخابات کے لیے پولنگ کاعمل بلوچستان اسمبلی میں منعقدہوا جس میں 64 اراکین اسمبلی نے اپناحق رائے دہی استعما ل کرتے ہوئے سینٹ کے لیے آئندہ چھ برس کے لیے 11 سینیٹروں کا انتخاب کیا۔

صوبائی الیکشن کمشنرنعیم مجید جعفر کی جانب سے فراہم کردہ نتائج کے مطابق جنرل کے سات نشستوں کے لے 15 امیدواروں کے مابین مقابلہ ہواجس میں پشتونخوا میپ کے سردار شفیق ترین ،نیشنل پارٹی کے اکرم بلوچ ،جمعیت علماء اسلام کے مولانا فیض محمد جبکہ آزاد امیدواراحمد خان ،انوارالحق کاکڑ،صادق سنجرانی اورکہد ہ بابرمنتخب ہوگئے جبکہ ٹینکوکریٹ کے 2 نشستوں کے لیے 5 امیدوارں کے مابین مقابلہ ہواجس میں نیشنل پارٹی کے طاہربزنجو اورآزاد امیدوارنصیب اللہ بازئی کامیاب قرارپائے جبکہ جمعیت علماء اسلام کے امیدوارکامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ کامیابی حاصل نہ کرسکے اسی طرح خواتین کی دو نشستوں کے لیے 3 امیدواروں کے مابین مقابلہ ہوا جس کے مطابق پشتوانخومیپ عابدہ عمراورآزاد امیدوارثنا ء جمالی کامیاب قرارپائی ۔

ایوان میں سینیٹ کاپہلاووٹ نیشنل پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی سردار اسلم بزنجو جبکہ آخری ووٹ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے استعمال کیاجبکہ پشتونخوامیپ کے ایک منحرف رکن صوبائی اسمبلی منظورخان کاکڑ الیکشن کمیشن کے جانب سے نااہل قراردے جانے کے سبب اپناووٹ کاسٹ نہ کرسکے ۔سینٹ کے انتخابات کے موقع پر سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے تھے سینٹ انتخابات میں بلوچستان نیشنل پارٹی اورعوامی نیشنل پارٹی کوئی نشست حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے نومنتخب سینیٹروں نے بلوچستان کے عوام کے حقوق کیلئے ایوان بالا میں بھرپورآواز اٹھانے کاعزم کیا ۔