سعودی نظام انصاف میں سنگین خامیاں موجود ہیں ،ْ انسانی حقوق کے اداروں کی رپورٹ

پچھلے چار برس میں سعودی عرب میں 61 پاکستانیوں کو سزائے موت دی جا چکی ہے ،ْ جسٹس پروجیکٹ پاکستان اور ہیو من رائٹس واچ کی رپورٹ سعودی نظامِ انصاف میں سنگین خامیاں موجود ہیں، ملزموں کو شفاف مقدمے کا حق نہیں ملتا، رپورٹ میں دعویٰ

بدھ 7 مارچ 2018 19:10

سعودی نظام انصاف میں سنگین خامیاں موجود ہیں ،ْ انسانی حقوق کے اداروں ..
ریاض /اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 07 مارچ2018ء) سعودی نظامِ انصاف کے بارے میں انسانی حقوق کے دو اداروں کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس نظام میں سنگین خامیاں موجود ہیں۔جسٹس پروجیکٹ پاکستان اور ہیومن رائٹس واچ کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پچھلے چار برس میں سعودی عرب میں 61 پاکستانیوں کو سزائے موت دی جا چکی ہے جبکہ وہاں جو 83 افراد رپورٹ کی تیاری کے وقت زیرِ حراست تھے ان میں سے بھی 61 ایسے تھے جنھیں عدالت میں ایک مرتبہ بھی پیش کیے گئے بغیر چھ ماہ سے زیادہ عرصے سے قید رکھا گیا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ سعودی نظامِ انصاف میں سنگین خامیاں موجود ہیں، ملزموں کو شفاف مقدمے کا حق نہیں ملتا، انھیں طویل عرصے تک بغیر مقدمہ چلائے قید رکھا جاتا ہے، ان سے زبردستی اعتراف ناموں پر دستخط کروائے جاتے ہیں، جب کہ جیل کے اندر کے حالات انتہائی ناقص ہیں اور وہاں صفائی ستھرائی اور طبی سہولیات کا فقدان ہے۔

(جاری ہے)

جال میں گرفتار پاکستانیوں کے ساتھ سلوک اور سعودی نظامِ انصاف نامی رپورٹ 38 پاکستانیوں کے انٹرویوز پر مبنی ہے جن میں سے 22 پر سعودی عرب میں مقدمہ چلاجبکہ سات افراد ایسے ہیں جن کے رشتے داروں پر مقدمے چلے اور نو دوسرے ملزمان ہیں۔

رپورٹ کے مطابق 2014 سے اب تک سعودی عرب نے 163 افراد کو سزائے موت دی ہے جن میں 61 پاکستانی بھی شامل ہیں۔اس کے علاوہ بتایا گیا کہ اگست 2017 تک کے اعداد و شمار کے مطابق سعودی جیلوں میں 83 پاکستانی قید ہیں جن میں سے 61 ایسے ہیں جنھیں قید ہوئے چھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے لیکن انھیں عدالت میں تاحال پیش نہیں کیا گیا ،ْان 61 میں سے 50 افراد کو زیرِ تفتیش قرار دیا گیا ہے، چھ کے بارے میں بتایا گیا کہ ان کا معاملہ بیورو آف انویسٹی گیشن کو بھیجا جا رہا ہے ،ْ پانچ کا معاملہ بیورو کو بھیجا جا چکا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ جن باقی 22 پاکستانیوں پر مقدمہ چلا، ان میں سے صرف ایک کو وکیلِ صفائی کی خدمات حاصل تھیں۔ اس کے علاوہ چار نے کہا کہ انھیں عربی نہیں آتی تھی اور مقدمے کے دوران انھیں مترجم کی سہولت نہیں دی گئی ،ْاس کے علاوہ ان افراد کے مطابق جیلوں کی حالت انتہائی ناقص ہے ،ْایک شخص نے بتایا کہ جیل گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی تھی اور وہاں حالات افسوس ناک تھے ،ْ اکثر وہاں پانی نہ ہوتا اور نہ ہی نکاسی کا کوئی نظام تھا،ْسعودی عرب میں 16 لاکھ کے قریب پاکستانی کام کرتے ہیں جن کی بڑی تعداد غیر تربیت یافتہ اور کم پڑھے لکھے مزدوروں پر مشتمل ہے ،ْوہاں گرفتار پاکستانیوں کو اکثر اوقات قونصل خانے کی خدمات حاصل نہیں ہوتیں کیوں کہ انھیں معلوم ہی نہیں کہ کس سے رابطہ کیا جائے۔

جسٹس پروجیکٹ پاکستان اور ہیومن رائٹس واچ کو معلوم ہوا ہے کہ سعودی حکام پاکستانی شہریوں کو گرفتار کرنے کے بعد پاکستانی حکام کو آگاہ بھی نہیں کرتے۔سعودی قانون کے تحت منشیات کی سمگلنگ انتہائی سنگین جرم ہے اور اس کی سزا موت ہے، اور اکثر اوقات سرِ عام تلوار سے گردن اڑا دی جاتی ہے۔تاہم ماہرین کے مطابق سعودی قانون میں منشیات کی کوئی کم از کم مقدار مقرر نہیں کی گئی، جس سے سمگلنگ کا تعین ہو سکے، اس لیے کسی بھی مقدار میں منشیات برآمد ہونے پر موت کی سزا دی جا سکتی ہے۔

متعلقہ عنوان :