خلیفہ اول بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کا دور خلافت مسلم حکمرانوں کے لئے مشعل راہ ہے‘ پیر عتیق الرحمن

پیر 12 مارچ 2018 20:15

میرپور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 12 مارچ2018ء) جمعیت علماء جموں و کشمیر کے صدر و آستانہ عالیہ فیض پور شریف کے سجادہ نشین حضرت مولانا پیر محمد عتیق الرحمن نے کہا ہے کہ خلیفہ اول بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کا دور خلافت مسلم حکمرانوں کے لئے مشعل راہ ہے،آپؓ کی پوری زندگی اسوہ رسول ﷺ سے عبارت ہے،سیدنا صدیق اکبرؓ نے نظام مصطفیٰ ﷺ کی قوت سے تمام فتنوں کا مقابلہ کیااورمنکرین ِ ختم نبوت ؐو زکوٰةکا قلع قمع کرکے دین محمدیؐ کی حفاظت و دفاع کیا، آپؓ اطاعت رسول کا جیتا جاگتا نمونہ تھے،آپ نے سنت رسول ﷺسے بال برابر ہٹنا گوارا نہ کیا اور نبی کریم ﷺ کی محبت میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا،ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعیت علماء جموں وکشمیر کے مرکزی سیکرٹریٹ سیکٹر ایف ٹو میں یوم خلیفہ اول بلافصل حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ کے حوالے سے منعقدہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ،اجلاس سے جماعت اہل سنت جموں وکشمیر کے ناظم اعلیٰ مولانا سید غلام یاسین شاہ گیلانی، مولانا سید محبوب حسین شاہ حقانی ، مولانا حافظ خورشید احمدنقشبندی، مولانا حافظ حبیب الرحمن مدنی نے بھی خطاب کیا ،پیر محمد عتیق الرحمن نے کہا کہ یار غار رسالت، پاسدار خلافت، تاجدار امامت، افضل بشر بعد الانبیاء حضرت سید نا صدیق اکبرؓ کو امت مسلمہ کا سب سے افضل امتی کہا گیا ہے، بالغ مردوں میں آپ سب سے پہلے حلقہ بگوش اسلام ہوئے، آپ کی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو رسول اللہﷺکی سب سے محبوب زوجہ ہونے کا شرف حاصل ہوا،انہوں نے کہا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ تجارت کیا کرتے تھے اورسماج میں آپ کا شمار قریش کے رئیسوں میں ہوتا تھاخون بہا کا فیصلہ آپ کے سپرد تھا، اس معاملہ میں تمام قریش آپ کے سامنے سر تسلیم خم کرتے تھے، جودو سخا، صلہ رحمی،مہمان نوازی، بردباری و حلم اور صداقت و دیانت آپ ؓ کے نمایاں اوصاف تھے، جن کا انکار آپ کے بدترین دشمن کفار قریش بھی نہیں کرسکتے تھے،آپ ؓ کو ابتداء ہی سے فطرتِ سلیمہ، قلب و نظر کی پاکیزگی، حق کو قبول کرنے والا دِل اور بے پناہ ذہانت و فطانت عطا ہوئی،آپ ؓنے زمانہ جاہلیت میں نہ کبھی بُت پرستی کی اور نہ ہی کبھی شراب پی،پیر محمد عتیق الرحمن نے کہا کہ صدیق اور عتیق کا خطاب آپ کو دربار رسالت ﷺ سے عطا ہوئے، آپ کو دو موقعوں پر صدیق کا خطاب عطا ہوا، اول جب آپ نے نبوت کی بلا جھجک تصدیق کی اور دوسری بار جب آپ نے واقعہ معراج کی بلا تامل تصدیق کی اس روز سے آپ کو صدیق اکبر کہا جانے لگا، جب سرکار دوعالم ﷺنے مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کا حکم دیا تو آپ کو سرکارﷺ کا ہمسفر بننے کا اعزاز حاصل ہوا، آپ نے ہجرت کے تمام مواقعوں بالخصوص غار ثور میں قیام کے دوران حق دوستی ادا کیا،پیر محمد عتیق الرحمن نے کہا کہ اسلام قبول کرنے کے بعد خلیفہ اول سیدنا صدیق اکبر ؓتمام اسلامی جہادوں میں شامل رہے اور زندگی کے ہر موڑ پر آپ شہنشاہ کونین ﷺ کے رفیق و جان نثار رہے، غزوہ تبوک میں آپ نے جو اطاعت رسول ﷺ کی اعلی مثال قائم کرتے ہوئے اپنے گھر کا سارا سامان لے آئے، جب رسول اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ--’’ اے ابوبکر! گھر والوں کے لیے بھی کچھ چھوڑا ہے تو آپ نے عرض کی گھر والوں کے لیے اللہ اور اس کا رسولﷺ ہی کافی ہیں‘‘۔

(جاری ہے)

پیر محمد عتیق الرحمن نے کہا کہ دور رسالت کے آخری ایام میں رسول اللہ ﷺ کے حکم پر نمازوں کی امامت فرمائی، رسول اللہ ﷺ کا یہ اقدام آپ کی خلافت کی طرف واضح اشارہ تھا چنانچہ آپ پہلے خلیفہ مسلمین منتخب ہوئے۔امیرالمومنین منتخب ہونے کے بعد حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت ابوعبیدہ ؓ کے اس اصرار پر کہ ’’اگر خلیفہ تجارت کریں گے تورعایا کا حق ادا نہ کرسکیں گے لہذا ان کی اور ان کے اہل و عیال کی ضرورت کے لیے بیت المال سے وظیفہ مقرر کردینا چاہیے۔

اس موقع پر حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ میرا وظیفہ '' جتنا مدینے کے کسی ایک مزدور کی آمدنی ہوتی ہے اتنا کافی رہے گا''۔ عرض ہوا کہ اتنے کم سے تو آپ کا گزارہ نہیں ہو سکے گا '' آپ نے فرمایا ''اگر اس سے ایک عام آدمی کے گھر کا گزارہ ہو سکتا ہے تو خلیفہ کا بھی ہونا چاہیے اگر نہیں ہو سکتا تو اس کا مطلب ہے کہ ایک عام مزدور کس طرح گزارہ کرتا ہوگا''۔

چنانچہ آپ ؓ کا وظیفہ ایک عام مزدور کے مساوی مقرر ہوا،پیر محمد عتیق الرحمن نے کہا کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو میٹھا پسند تھا لیکن جو مقدار بیت المال سے عطا ہوتی اس میں میٹھا بنانا مشکل تھا، آپ کی زوجہ محترمہ نے بیت المال سے آنے والے آٹا میں سے چٹکی چٹکی جمع کرکے ایک روز میٹھا تیار کرکے دسترخوان پر رکھا، آپ ؓ نے فرمایا '' یہ کہاں سے آیا زوجہ محترمہ نے عرض کیا '' گھر میں بنایا ہے '' آپ نے فرمایا '' جو مقدار ہم کو روزانہ ملتی ہے اس میں تو اس کی تیاری ممکن نہیں زوجہ محترمہ نے سارا ماجرا عرض کیا، آپ نے یہ سن کر فرمایا '' اس سے تو یہ ثابت ہوا کہ ہم کو روزانہ بچت کیا جانے والے چٹکی آٹا زیادہ ملتا ہے اس سے کم میں بھی گزارہ ہو سکتا ہے۔

لہذا اس کو بیت المال میں داخل کروا دیا جائے اور آئندہ سے روزانہ ملنے والے وظیفے سے یہ مقدار کم کردی جائے ‘‘پیر محمد عتیق الرحمن نے کہا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓکے دور کے ابتدا میں فتنہ ارتداد زوروں پر تھا لیکن آپؓ کی مستقل مزاجی اور صبر سے اسلام پر خطرناک ترین دور بخیر و عافیت ان کی موجودگی میں ختم ہوا اور جنگ کے ذریعے عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ یقینی بنا تے ہوئے مسیلمہ کذاب جیسے خطرناک عناصر کا مکمل خاتمہ کرکے واضح کر دیا کہ حضور اکر م حضرت محمد مصطفی ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد تا قیامت کوئی دوسرا نبی نہیں آسکتا، انہوں ے کہا کہ 22 جمادی الثانی کو آپ ؓ کی63 برس کی عمر میں مدینہ منورہ میں ظاہرہ پردہ پوشی ہوئی اپنے وصال سے پہلے آپ ؓ نے مسلمانوں کو ترغیب دی کہ وہ حضرت سیدناعمر فاروق ؓ کو خلیفہ تسلیم کر لیں جس پر حضرت سیدناعمر فاروق ؓ کو خلیفہ تسلیم کر لیا گیا،وصال کے وقت حضرت سیدناابوبکر صدیق ؓ نے وہ تمام رقم جو بطور وظیفہ بیت المال سے دوران خلافت لی تھی اپنی وراثت سے بیت المال کو واپس کر دی،بیت المال سے استعمال ہونے والی اونٹنی ، ایک غلام اور ایک کمبل بھی واپس خلیفہ ثانی کی طرف لوٹادیا۔

تجہیز و تکفین کے متعلق کپڑے کے بہت بڑے تاجر نے وصیت کرتے ہوئے فرمایا:جو کپڑا میرے بدن پر ہے اسے دھو کر اوراس کے ساتھ دو کپڑے اور ملاکر مجھے کفن دے دینا،حضرت عائشہ ؓنے کہاکہ یہ تو پرانا ہے کفن نیا ہونا چاہیے جواب دیا:زندہ مردوں کی نسبت نئے کپڑوں کے زیادہ حقدار ہیں، آپؓ کی مدت خلافت دو سال تین ماہ اور گیارہ دن رہی ، زندگی میں جو عزت واحترام آپ کو ملا بعد وصال بھی آپ اسی کے مستحق ٹھہرے اور سرکار دوعالم ﷺکے پہلو میں محو استراحت ہوئے، آپ کی لحد سرکار دوعالمﷺ کے بائیں جانب اس طرح بنائی گئی کہ آپ کا سر، رسول اللہﷺ کے شانہ مبارک تک آتا ہے،آپ ؓکی شخصیت ہر دور کے انسان کیلئے راہنما ہے اور اس سے ہر شعبہ جات کا انسان فیض یاب ہوسکتا ہے،پیر محمد عتیق الرحمن نے کہا کہ عقیدہ ختم نبوت اصل ایمان ہے اور جہاں کہیں قادیانیوں کی سرگرمیوں کے کچھ آثار ہیں قرآن و حدیث اور ملکی آئین کے مطابق انہیں فی الفور ختم کردینا چاہیے، گزشتہ40 سال سے میں نے تسلسل کے ساتھ عقیدہ ختم نبوت کی اشاعت میں وقت گزارا ہے اور ملک و بیرون ملک بڑے بڑے اجتماعات کیے ہیںاور اب کانفرنسوں کا ایک سلسلہ شروع ہو رہا ہے ،15 مارچ بروزجمعرات جمعیت علماء جموں وکشمیر کے زیر اہتمام 10 بجے دن کوٹلی میں عظیم الشان ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد ہو گا جس میں عقیدہ ختم نبوت پرقرآن وحدیث کی روشنی میں مفصل خطابات ہوں گے اور انشاء اللہ اس کے بعد گوئی ،تتہ پانی ،نیوسٹی میرپوراور دیگر علاقوں میں بھی ختم نبوت نبوت کے اجتماعات ہوں گے ۔