سینیٹ الیکشن میں متحد اپوزیشن کو کامیابی پر ن لیگ مایوس ہو کر الزام تراشی کر رہی ہے ،پی پی پی رہنماء

قانونی طور پر کہیں کوئی قدغن نہیں کہ سینیٹ ارکان اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ نہ کر سکیں نواز شریف پہلے کہتے تھے مجھے کیوں نکالا اب کہتے ہیں مجھے کیوں مارا جو کہتے تھے روک سکو تو روک لو ان کو ہم نے روک لیا ہے ،آئندہ صوبوں اور مرکز میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہو گی نواز شریف نے بے نظیر بھٹو اورآصف زرداری پر جھوٹے مقدمات بنائے جو ان کی موجودہ حکومت کے دور میں ختم ہوئے ہیں اب ایوانوں میں نعرے لگ گئے ہیٖں کہ اگلی بار پھر زرداری اور اب یہ عوام میں نہیں لگیں گے نواز شریف جلد جیل میں ہوں گے ،ضیاء کے سیاسی وارث کس منہ سے ذالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے نام لیتے ہیں،نیئر بخاری قمر زمان کائرہ اور مولا بخش چانڈیو کی مشترکہ پریس کانفرنس

منگل 13 مارچ 2018 21:44

سینیٹ الیکشن میں متحد اپوزیشن کو کامیابی پر ن لیگ مایوس ہو کر الزام ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 13 مارچ2018ء) پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ سینیٹ الیکشن میں متحد اپوزیشن کو کامیابی ملی ہے جس پر ن لیگ بہت مایوس اورالزام تراشی کر رہی ہے قانونی طور پر کہیں کوئی قدغن نہیں کہ سینیٹ ارکان اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ نہ کر سکیں نواز شریف پہلے کہتے تھے کہ مجھے کیوں نکالا اب کہتے ہیں مجھے کیوں مارا، جو کہتے تھے روک سکو تو روک لو ان کو ہم نے روک لیا ہے اور آئندہ صوبوں اور مرکز میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہو گی ۔

نواز شریف نے بے نظیر بھٹو اورآصف علی زرداری پر جھوٹے مقدمات بنائے جو ان کی موجودہ حکومت کے دور میں ختم ہوئے ہیں اب ایوانوں میں نعرے لگ گئے ہیٖں کہ اگلی بار پھر زرداری اور اب یہ عوام میں نہیں لگیں گے ۔

(جاری ہے)

اور نواز شریف جلد جیل میں ہوں گے ،ضیاء کے سیاسی وارث کس منہ سے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے نام لیتے ہیں ان خیالات کا اظہار نیئر حسین بخاری، قمر زمان کائرہ اور مولا بخش چانڈیو نے پریس کانفرنس کے دوران کیا چوہدری منظور ، سعید غنی ، فیصل کریم کنڈی اور نذیر ڈھوکی بھی ان کے ہمراہ تھے ۔

پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل سید نیئر حسین بخاری نے کہا کہ سینیٹ کے لایکشن میں اپوزیشن کو کامیابی ہوئی ہے حکومتی جماعتر مایوس ہوتی ہے اوراس نے الزام تراشی کا سلسلہ شروع کر دیا ہے سینیٹ کے الیکشن میں ہر ممبر اینی رائے کا اظہار کر سکتا ہے وہ پارٹی کا پابند نہیں ہوتا ۔ سینیٹ الیکشن سے جمہوریت کو تقویت ملی ہے انہوں نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت نے جو ر وش اختیار کی ہے وہ وفاق میں حکومت بنا ئے گی ۔

پی پی پی پنجا ب کے صدر قمر زمان کائرہ نے کہا کہ جو کہتے ہے کہ روک سکتے ہو تو روک لو ہم نے روک لیا ہے نواز شریف کے لوگ ان کے ساتھ نہیں ہیں انہیں صوبے اور مرکز میں ووٹ نہیں دیئے اور اب اتحادیوں کو گالیاں دے رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کہتے ہیں کہ جو 70 سال سے چل رہا ہے وہ اب نہیں چلے گا اس میں قائداعظم اور لیاقت علی ٖخان کا دور بھی آتا ہے اور جو آپ تیس سال سے ایجنسیوں سے مل کر رہے ہیں اس پر قوم سے معافی مانگیں انہوں نے کہا ہے کہ ایوانوںمیں نعرے لگے ہیں کہ اگلی باری پھر زرداری۔

جو لوگوں سے روز گار چھین رہے ، وہ کس طرح کہتے ہیں کہ ہم نے ووٹ کو تقدس کرنا ہے۔ نواز شریف نے کہا کہ ہم ایک ہی بار گاہ میںجھک گئے ہیں ہم صرف ایک ہی بار گاہ میں جھکتے ہیں سینیٹ الیکشن کو تماشا کہا جا رہا ہے اگر حکومتی امیدوار جیت جا تا تو سب ٹھیک تھا عدالتیں اور نیب آپ کی مرضی کے فیصلے دے تو ٹھیک ،جس طرح فون کر کے فیصلے کروائے جاتے تھے ۔

نواز شریف پر 14-15 ریفر نسز ڈکیتی کے ہیں ۔ ان کے بارے میں اب نیب آپ کو بتائے گی انہوں نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ آپ نے عوام پارلیمنٹ اور عدالت سے جھوٹ بولا ہے ۔ آج آپ کو عدالتوں کے چکر یاد آ رہے ہیں لیکن جو جعلی کیس آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو پر بنائے تھے اس پر قوم سے معافی مانگیں بے نظیر کراچی پشاور اور کوئٹہ لاہور اور اسلام آباد میں پیش ہوتی رہی ہیں آپ کو تو جیل میں ہونا چاہتے تھا آپ کا نام ای سی ایل میں ڈالنا چاہتے تھا انہوں نے کہا ہے کہ اب جو نعرے ایوانوں میں لگے وہ اب میدانوں میں بھی لگیں گے ، نئے منتخب ہونے والے سینیٹر مولا بخش چانڈیو نے کہا ہے کہ سینیٹ الیکشن میں ذوالفقار علی بھٹواور بے نطیر بھٹو کی جیت ہوئی ہے جبکہ غرور و تکبر کو شکست ہوئی ہے وفاقی حکومت نے پانامہ کیس کے بعد صوبوں کو کچھ نہیں دیا نواز شریف کو اب بے نظیر بھٹوا ور زوالفقار علی بھٹو یاد آ رہے ہیں یہ ضیاء اللہ حق کے وار ث ہیں انہوں نے اداروں کو تباہ کر دیا ہے انہوں نے کہا کہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے 2018 کے الیکشن آنے والے ہیں چھوٹے صوبوں کے لوگ اب نواز شریف کی با توں میں آنے والے نہیں ہیں نواز شریف باہر کے دوروں میں صرف اپنے بھائی کو لے کر جاتے اور چھوٹے صوبوں کے وزراء اعلیٰ کو نظر انداز کرتے رہے۔