نون لیگ کا سینیٹ انتخابات میں پنجاب اسمبلی کے28”غدار“اراکین کی نشاندہی کا دعوی‘بڑی تعداد خواتین ایم پی ایز کی ہے-ذرائع

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعہ 16 مارچ 2018 15:11

نون لیگ کا سینیٹ انتخابات میں پنجاب اسمبلی کے28”غدار“اراکین کی نشاندہی ..
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 16 مارچ۔2018ء) پاکستان مسلم لیگ (ن) نے سینیٹ انتخابات میں مبینہ طور پر پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ دینے والے پارٹی کے 28 ایم پی ایز کی نشاندہی کرلی جن میں سے زیادہ تر خواتین ہیں۔نجی ٹی وی کے مطابق مسلم لیگ (ن) قیادت کی جانب سے مشتبہ ارکان کی نشاندہی کے لیے 2 کمیٹیاں تشکیل دی گئی تھیں، جنہیں اس بات کی نشاندہی کرنی تھی کہ پارٹی پالیسی کے خلاف کن ارکان نے تحریک انصاف کے چوہدری سرور اور پیپلز پارٹی کے شہزاد علی خان کو سینیٹ انتخابات میں ووٹ دیا۔

مسلم لیگ (ن) قیادت کی جانب سے تشکیل دی گئی ایک کمیٹی کی نمائندگی وزیر قانون رانا ثناءاللہ، اقلیتی امور کے وزیر خلیل طاہر سندھو اور وزیر اعلیٰ کے مشیر رانا ارشد جبکہ دیگر خواتین ارکان میں عظمیٰ بخاری، ذکیہ شاہنواز، میری گل اور مہوش سلطانہ شامل تھیں۔

(جاری ہے)

تاہم کمیٹی کی سفارشات کے حوالے سے جب رانا ثناءاللہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس معاملے پر بات کرنے سے انکار کیا۔

اس بارے میں ہونے والی پیش رفت کے بارے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ذرائع نے بتایا کہ ہم نے 28 مشتبہ ارکان کی نشاندہی کی ہے، جن میں زیادہ تر خواتین ارکان اسمبلی شامل ہیں، جنہوں نے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے امیدوار کو ووٹ دیئے اور اس بارے میں ایک جامع رپورٹ قیادت کو پیش کی اور جن کے خلاف پارٹی قیادت ہی کارروائی کرے گی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ مشتبہ ارکان نے اپوزیشن کے امیدواروں کو پیسوں کے لیے ووٹ دیئے جبکہ دیگر نے مستقبل میں اعتماد کی وجہ سے ووٹ دیا۔

اس رپورٹ کے حوالے سے ایک اور ذرائع نے بتایا کہ پارٹی قیادت نے فیصلہ کیا کہ ان ایم پی ایز کے خلاف تادیبی کارروائی کے لیے یہ صحیح وقت نہیں کیونکہ اس وقت لیگی حکومت کو مختلف چلینجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ان مشتبہ ارکان کو آئندہ عام انتخابات میں جنرل یا مخصوص نشستوں پر پارٹی کی جانب سے کوئی ٹکٹ جاری نہیں کیا جائے گا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ پنجاب میں سینیٹ انتخابات میں مختلف کٹیگریز میں ووٹنگ کے طریقہ کار میں حیران کن پہلو بھی دیکھنے میں آیا اور خواتین کی نشستوں پر 13، اقلیتوں کی نشست پر 11 اور ٹیکنوکریٹ کی نشستوں پر 9 ووٹ مسترد ہوئے جبکہ جنرل نشستوں پر 3 ووٹ مسترد ہوئے جو اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ جن 3 کٹیگریز میں مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کو باآسانی کامیابی حاصل ہوسکتی تھی اس میں ووٹوں کو ضائع کیا گیا۔

دوسری جانب چوہدری سرور کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی نے ضمیر اور جمہوری ذہنیت کے باعث انہیں ووٹ دیا جبکہ پیپلز پارٹی کی جانب سے نائب صدر میاں منظور وٹو کا کہنا ہے کہ وہ شہزاد علی کی کامیابی کے لیے مسلم لیگ (ن) کے 20 ایم پی ایز سے رابطے میں تھے۔ذرائع کا کہنا ہے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے صاحبزادے اور ایم پی اے حمزہ شہباز کو سینیٹ انتخابات میں تعاون کے لیے ترجمان مقرر کیا گیا تھا، تاہم وہ اس معاملے پر کسی طرح کی تحقیقات میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے کیونکہ یہ حمزہ شہباز اور ان کی کمپنی کی ناکامی تھی۔

واضح رہے کہ سینیٹ انتخابات میں مختلف جماعتوں کی جانب سے پیسوں کے استعمال اور ہارس ٹریڈنگ کے الزامات لگائے گئے تھے تاہم الیکشن کمیشن میں کوئی بھی جماعت کسی طرح کا بھی ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہی تھی۔