مذہب کی تبدیلی کا ڈھونگ:مسیحی لڑکے اور لڑکی نے مسلمان بن کر نکاح کرلیا

پولیس سے ملی بھگت کرکے نکاح کے بعد دو نوں پھر عیسائیت کی جانب لوٹ گئے عدالت عظمیٰ ایسے گھنائونے جرائم کو روکنے کیلئے قانونی و شرعی اقدامات کرے،والد مختار مسیحی اسلامی نظریاتی کونسل اور اعلیٰ عدالتیں ایسے معاملات پر نوٹس لیتے ہوئے مذاہب کی توہین کر نے والے افراد کی نہ صرف سرکوبی کریں ،سینیٹرحافظ حمد اللہ کا موقف

منگل 20 مارچ 2018 23:11

مذہب کی تبدیلی کا ڈھونگ:مسیحی لڑکے اور لڑکی نے مسلمان بن کر نکاح کرلیا
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 20 مارچ2018ء)وفاقی دارالحکومت میں مسیحی نوجوان لڑکا اورلڑکی نے وقتی طور پر مسلمان بنتے ہوئے نکاح پڑھا لیا بعد ازاں پولیس سے ملی بھگت کرکے عدالت سے بیان دلوانے کے بعد اپنے مذہب میں لوٹ گئے ، لڑکی کا والدہ انصاف کیلئے دربدر ہو گیا ہے۔تفصیلات کے مطابق دو ماہ قبل تھانہ آبپارہ پولیس کو مختار مسیحی نے درخواست دی کہ ان کی بیٹی جویرہ مختار گھر پر موجود تھی کہ شہباز مسیحی و دیگر افراد ان کے گھر میں داخل ہو کر میری بیٹی کو ساتھ لے گئے اور اغواء کار شہباز مسیحی نے اپنے چند دوستوں کی مدد سے میری بیٹی کا فرضی طور پر مسلمان بن کر نکاح پڑھایا اور قانون و شریعت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے تحفظ حاصل کرلیا۔

اس حوالے سے ٹریفک پولیس میں تعینات انسپکٹر شمس گل لڑکے اور لڑکی کے اس گھنائونے جرم میں شریک ہو کر ان کا تحفظ کرنے لگا ۔

(جاری ہے)

والد کی درخواست پر پولیس نے ملزمان کے خلاف عدالتی حکم کے بعد مقدمہ نمبر117 مورخہ 13مارچ 2018ء کو درج کرتے ہوئے 365بی ،452اور34 آئینی دفعات لگا کر شامل تفتیش کرلیا۔اس دوران پولیس نے نہ تو لڑکا لڑکی سے تفتیش کی اور نہ ہی انہیں کسی برادری کے جرگہ میں پیش ہونے دیا ۔

لڑکی کے والد نے بتایا کہ بعد ازاں پولیس نے دونوں ملزمان کو مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کرکے دفعہ164کا بیان لیا اور مقدمہ خارج کرنے کی ٹھان لی۔مختار مسیحی نے بتایا کہ وقتی طور پر مسلمان بنتے ہوئے لڑکا لڑکی نے ناجائز نکاح کیا ہے اور اس حوالے سے نکاح خوان اور مجسٹریٹ نے ان سے مسلمانیت کے شرعی سوال و جواب تک نہیں کیے اور نہ ہی ان کی رہائش مسیحی آبادی سے ہٹانے کا حکم دیا ۔

وہی شراب و کباب کی محفلیں ، شوروغوغا ، چرچوں میں آمد و رفت جاری و ساری ہے۔میری اہل اقتدار اور عدالت عظمیٰ سے درخواست ہے کہ ایسے گھنائونے جرائم کو روکنے کیلئے قانونی و شرعی اقدامات کیے جائیں جو کہ وقتی طورپر کوئی مسیحی بن کر اور کوئی مسلمان کا لبادہ اوڑھ کر عزت خراب کررہے ہیں ۔سپریم کورٹ کے معروف قانون دان ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے کہا ہے کہ جھوٹ بول کر مذہب تبدیل کرنا اور پھر نکاح کرنا نہ صرف مذہب کی توہین ہے بلکہ لڑکی کے والدین کو چاہیے کہ وہ اسلامی نظریاتی کونسل سے رجوع کریں اور اس حوالے سے شرعی فتویٰ حاصل کرکے ان کیخلاف قانونی کارروائی کریں ۔

نیز 164کا بیان دیتے ہوئے اگر لڑکا لڑکی نے مسلمان بننے کا ڈھونگ رچایا ہے تو لڑکی کا والد آئینی حق رکھتا ہے کہ وہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کرے ۔جمعیت علماء اسلام (ف) کے سینئر رہنما سینیٹرحافظ حمد اللہ نے موقف دیتے ہوئے کہا کہ عیسائیت ہو یا مسلم مذاہب کی توہین کی اجازت کسی صورت نہیں دی جاسکتی، اسلامی نظریاتی کونسل اور اعلیٰ عدالتیں ایسے معاملات پر نوٹس لیتے ہوئے مذاہب کی توہین کر نے والے افراد کی نہ صرف سرکوبی کریں بلکہ اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں ۔

عیسائی و مسلمان دو نوں مذاہب قابل احترام ہیں اور آئین پاکستان کے مطابق وقتی طور پر مذاہب کی آڑ لے کر گھنائونے جرم کا ارتکاب کرنیوالے افراد کو کٹہرے میں لانا چاہیے ۔ اسلامی نظریاتی کونسل ازخود نوٹس لیتے ہوئے ایسے مسائل کو سلجھانے کے لئے اقدامات اٹھائے۔