راؤ انوار کی اچانک سپریم کورٹ میں پیشی، کمرہ عدالت سے گرفتار

راؤ انوار کے بنک اکاؤنٹس بحال ، نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم ، سپریم کورٹ کا معاملے پر جے آءی ٹی تشکیل دینے کا حکم ، آئی جی سندھ کو راؤ انوار کی سکیورٹی یقینی بنانے کی ہدایت

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین بدھ 21 مارچ 2018 12:28

راؤ انوار کی اچانک سپریم کورٹ میں پیشی، کمرہ عدالت سے گرفتار
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 21 مارچ 2018ء) : سپریم کورٹ نے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نقیب اللہ قتل کیس میں آج سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوئے۔ راؤ انوار سفید گاڑی میں ماسک پہن کر کالے کپڑوں میں ملبوس سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔ سپریم کورٹ میں پیشی کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اتنے دلیر ہیں ، آپ کہاں چھپے ہوئے تھے ؟ آپ لوگوں کو گرفتار کرتےرہے خود کہاں چھُپے رہے؟ راؤ انوار نے عدالت میں بیان دیا کہ میری زندگی کو خطرات لاحق تھے ، میں نے اپنے خطوط میں بھی آپ کو آگاہ کیا تھا، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے خطوط لکھنے کا جو طریقہ اپنایا اس سے درست تاثر نہیں گیا۔

راؤ انوار کے وکیل نےکہا کہ راؤ انوار نے خود کو عدالت کے سامنے سرنڈر کردیا۔

(جاری ہے)

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئے کہ راؤ انوار نے عدالت کے سامنے خود کو سرنڈر کرکے کوئی احسان نہیں کیا۔ راؤ انوار کے وکیل نے عدالت سے حفاظتی ضمانت کی درخواست کی جسے مسترد کرتے ہوئے عدالت نے راؤ انوار کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم حفاظتی ضمانت نہیں بلکہ آپ کو ابھی گرفتار کرنے کا حکم دیں گے۔

عدالت نے راؤ انوار کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس واپس لیتے ہوئے پولیس کو ان کی سکیورٹی یقینی بنانے کی ہدایت کی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ راؤ انوار کے خلاف توہین عدالت کے چارجز واپس لے رہے ہیں ، کسی کو کوئی اعتراض تو نہیں۔ سپریم کورٹ نے راؤ انوار کے اکاؤنٹس بحال کرنے ، ان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیا ،چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کے بنک اکاؤنٹس کھول رہے ہیں تاکہ آپ کے بچوں کو روٹی ملتی رہے۔

عدالت نے اس معاملے پر جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم دیا اور کہا کہ راؤ انوار کو جو کچھ کہنا ہے جے آئی ٹی کے سامنے کہیں۔ سپریم کورٹ نے تحقیقاتی ٹیم سے متعلق را انوار کے تحفظات کو بھی مسترد کردیا۔ راؤ انوار کے وکیل نے کہا کہ تحقیقاتی کمیٹی میں ایجنسی بھی شامل کی جائے ، چیف جسٹس نے ایجنسی سے متعلق استفسار کیا تو وکیل نے کہا کہ تحقیقاتی کمیٹی میں ملک کی ایجنسیوں کو شامل کی جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دئے کہ آپ صاف صاف بتائیں ، ہمیں ڈائریکشن نہ دیں، جس پر راؤ انوار کے وکیل نے کہ تحقیقاتی کمیٹی میں آئی بی اور آئی ایس آئی کے افسران کو شامل کیا جائے۔ وکیل کی اس استدعا پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ایک سادہ کیس ہے۔ اس میں خفیہ ایجنسیوں کا کیا تعلق ہے؟ جے آئی ٹی پر مشاورت کے لیے عدالت نے 10 منٹ کا وقفہ لیا جس پر چیف جسٹس نے میڈیا نمائندوں سے کہا کہ یہ نہ سمجھیں کہ ہم کسی اور سے مشورہ کرنے جا رہے ہیں، عدالتیں آزاد ہیں، جے آئی ٹی میں کون کون ہو گا اس پر مشاورت کرنے جا رہے ہیں، آپس میں مشورہ کر کے آتے ہیں۔

جس کے بعد سپریم کورٹ نے ایڈشنل آئی جی سندھ آفتاب پٹھان کی سربراہی میں 5 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی۔ جوائنٹ اوسٹی گیشن ٹیم میں سابق ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان ، ولی اللہ ، آزاد خان اور ذوالفقار لاڑک بھی شامل ہیں۔ عدالت نے جے آئی ٹی سے متعلق راؤ انوار کے تمام اعتراضات بھی مسترد کر دئے۔ چیف جسٹس نے راؤ انوار کی حفاظت کی ذمہ داری آئی جی سندھ کو سونپ دی اور پولیس کو ہدایت کی کہ راؤ انوار کی سکیورٹی کو یقینی بنایا جائے۔

جس کے بعد راؤ انوار کو کمرہ عدالت سے باقاعدہ طور پر گرفتار کر لیا گیا۔یاد رہے کہ سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار پر قبائلی نوجوان نقیب اللہ کو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کرنے کا الزام تھا، عدالت نے وارنٹ گرفتاری جانے ہونے کے بعد راؤ انوار 19 جنوری سے روپوش تھے اور پولیس بھی انہیں ڈھونڈنے میں ناکام رہی تھی۔

متعلقہ عنوان :