احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں قطری شہزادے کے خط سمیت 3 اضافی دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کی درخواست منظور کرلی

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 27 مارچ 2018 15:28

احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں قطری شہزادے کے خط سمیت 3 اضافی ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔27مارچ۔2018ء) اسلام آباد کی احتساب عدالت نے شریف خاندان کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس میں قطری شہزادے کے خط سمیت 3 اضافی دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کی درخواست منظور کرلی ہے۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کی، اس دوران پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف، ان کی صاحبزدای مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر بھی پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران نیب استغاثہ افضل قریشی کی جانب سے ایک درخواست دائر کی گئی، جس میں استدعا کی گئی تھی کہ قطری شہزادے کے سپریم کورٹ کو لکھے گئے خط، برٹش ورجن آئی لینڈ کے خط اور واجد ضیاءکی جانب سے اٹارنی جنرل پاکستان کو لکھے گئے خط کو ایون فیلڈ ریفرنس میں عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔

(جاری ہے)

نیب کی درخواست پر مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ دستاویزات پہلے سے موجود تھیں تو انہیں ریکارڈ کا حصہ کیوں نہیں بنایا گیا تھا اور انہیں ریفرنس میں کیوں شامل نہیں کیا گیا تھا۔

عدالت نے نیب پراسیکیوٹر کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا تاہم کچھ دیر بعد فیصلہ سناتے ہوئے مذکورہ دستاویزات کوعدالتی ریکارڈ کا حصہ بنادیا۔اس سے قبل دوران سماعت نیب کے گواہ واجد ضیاءکا بیان قلمبند کرانے کا سلسلہ جاری رہا، اس دوران انہوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے حوالے سے بتایا کہ لینڈ رجسٹری ریکارڈ کے مطابق نواز شریف نے 1993 سے 1996 میں لندن میں فلیٹس خریدے جبکہ ملزمان خود اعتراف کرچکے ہیں کہ 90 کی دہائی میں فلیٹس کا قبضہ حاصل کیا۔

انہوں نے بتایا کہ جب فلیٹس کا قبضہ حاصل کیا گیا تو حسین نواز طالبعلم تھے اور تمام ملزمان مانتے ہیں کہ فلیٹ نمبر 16 صرف نواز شریف کے زیر استعمال رہا اور یہ فلیٹ صرف اس وقت استعمال کیا جب نواز شریف علاج کے لیے برطانیہ گئے۔واجد ضیاءنے بتایا کہ ملزمان نے 2 ٹرسٹ ڈیڈ جمع کرائی جبکہ جے آئی ٹی کے مطابق دونوں ٹرسٹ ڈیڈز کا صفحہ نمبر 2 اور 3 ایک جیسا تھا اور ٹرسٹ ڈیڈز پر تاریخیں تبدیل کی گئیں اور ٹرسٹ ڈیڈ پر اووررائٹنگ کرکے 2004 کو 2006 بنایا۔

واجد ضیاءنے بتایا کہ حسین اور مریم نواز کی طرف سے پیش کی گئی دستاویزات میں بیئرر شیئرز مریم نواز کی تحویل میں ہونے کا ذکر نہیں جبکہ سال 2006 آف شور کمپنیوں سے متعلق قانون سازی کا اہم سال تھا اور نئی قانون سازی کے بعد بیئرر شیئرز کی ملکیت چھپانا ممکن نہیں تھا۔سماعت کے دوران واجد ضیاءنے عدالت کے سامنے بیان دیتے ہوئے بتایا کہ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی نیلسن اور نیسکول کی ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپی فرانزک ٹیسٹ کے لیے بھجوائی گئی، جس میں ریڈلے کی رپورٹ کے بعد جے آئی ٹی نے نتیجہ اخذ کیا کہ یہ ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جے آئی ٹی کی طرف سے مریم نواز کو طلب کیا گیا اور ان کی طرف سے 2 ٹرسٹ ڈیڈ جمع کرائیں جو بقول ان کے اصلی تھیں لیکن فرانزک ٹیسٹ کے بعد جے آئی ٹی نے نتیجہ اخذ کیا کہ یہ ٹرسٹ ڈیڈ بھی جعلی تھیں۔واجد ضیاءنے بتایا کہ مریم نواز، حسین نواز اور کیپٹن(ر) صفدر نے جعلی دستاویزات پر دستخط کرکے سپریم کورٹ میں انہیں پیش کیا جبکہ حسن نواز نے بھی ٹرسٹ ڈیڈ کی یہی کاپیاں عدالت میں پیش کیں۔

جے آئی ٹی سربراہ نے عدالت کو بتایا کہ حسن اور حسین نواز کی طرف سے اسٹیفن مورلے سے لی گئی قانونی رائے جامع نہیں تھی اور انہوں نے ٹرسٹ ڈیڈ اور دیگر متعلق دستاویزات کو دیکھے بغیر رائے دی جبکہ اسٹیفن مورلے کی رائے کے مطابق ٹرسٹ ڈیڈ کی رجسٹریشن ضروری نہیں تھی۔انہوں نے کہا کہ درخواست گزار عمران خان کی طرف سے جمع کرائی گئی قانونی رائے تفصیلی تھی جبکہ گیلارڈ کاپر نے ٹرسٹ ڈٰیڈ اور متعلقہ دستاویزات کا جائزہ لینے کے بعد رائے تحریر کی۔

دوران سماعت مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ واجد ضیاءاپنی رائے دے رہے ہیں جبکہ اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے راہنماﺅں کی جانب سے عدالت میں گفتگو کی گئی، جس پر عدالت نے انہیں بیان ریکارڈ کرانے کے دوران شور نہ مچانے کی ہدایت کی۔

متعلقہ عنوان :