مرکزی بینک کا اگلے دو ماہ کے لئے پالیسی ریٹ کو 6 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ

جمعہ 30 مارچ 2018 23:35

مرکزی بینک کا اگلے دو ماہ کے لئے پالیسی ریٹ کو 6 فیصد پر برقرار رکھنے ..
کراچی ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 30 مارچ2018ء) مرکزی بینک نے اگلے دو ماہ کے لئے پالیسی ریٹ کو 6 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اسٹیٹ بینک سے جمعہ کو جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق جنوری 2018 ء میں ہونے والے زری پالیسی کمیٹی کے اجلاس کے بعد سے اب تک کی تازہ ترین معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ گیارہ سال کی بلند ترین شرح نمو حاصل کرنے کے امکانات مضبوط ہیں جبکہ اوسط عمومی مہنگائی مالی سال 18 اور مالی سال 19 کے لئے مناسب حدود میں رہے گی۔

اس بلند نمو اور کم مہنگائی کے نتیجے کے ہمراہ بلند جاری کھاتے کا خسارہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ خسارہ اس کے ساتھ بلند مالیاتی خسارہ معیشت کے وسط مدتی استحکام پر منفی اثر مرتب کرسکتا ہے۔ تاہم توقع ہے کہ شرح مبادلہ کی زیادہ لچک سے پیدا ہونے والی حالیہ ردوبدل، فعال زری انتظام نیز برآمدات اور ترسیلات ِزر میں نمایاں بہتری استحکام کے لیے خطرہ بنے بغیر وسط مدت میں نمو کی موزوں رفتار قائم رکھنے کے لحاظ سے ثمر آور ثابت ہوسکیں گی۔

(جاری ہے)

جنوری تا فروری مالی سال 18 میں مہنگائی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت (CPI)خاصی معتدل رہی ہے اور اوسطا 4.1 فیصد رہی۔ اس کی بڑی وجہ کم غذائی قیمتیں اور مکانات کے کرایوں میں توقع سے کم اضافہ تھا۔ موخر الذکر نے قوزی مہنگائی ، یعنی غیرغذائی غیر توانائی مہنگائی ، کو گھٹا دیا اور وہ دسمبر مالی سال 18 میں 5.5 فیصد (سال بسال) سے کم ہوکر جنوری اور فروری مالی سال 18 کے دوران 5.2 فیصد ہوگئی۔

قوزی مہنگائی کی اس کمی کی کئی بار (بشمول مارچ مالی سال 18 میں) کئے جانے والے آئی بی اے ایس بی پی اعتماد صارف سرویز سے تصدیق ہوتی ہے ۔ ان سرویز سے ظاہر ہوتا ہے کہ مہنگائی کی توقعات قدرے قابو میں ہیں۔ آگے چل کر، منجمد (sticky) قوزی مہنگائی کے ساتھ غذائی اشیا کی معتدل قیمتیں اور ان کے ہمراہ اناج کا وافر اسٹاک اور جنوری مالی سال 18 میں پالیسی ریٹ میں اضافہ، یہ سب مل کر متوقع طور پر اوسط مہنگائی کو مالی سال 18 کے مہنگائی کے ہدف 6 فیصد سے نیچے اور مالی سال 19 میں ہدف کے قریب رکھیں گے۔

اس تجزیے میں تاہم شرح مبادلہ کی لچک کے موخر اثر اور اس کے دورثانی کے اثرات( خصوصا ایندھن کی قیمتوں میں ردوبدل کے توسط سی)، طلبی دباؤ اور تیل کی متغیر عالمی قیمتوں کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ حقیقی شعبہ خوب ترقی کررہا ہے اور نمو صحیح راستے پر گامزن ہے۔ کپاس کی پیداوار میں کچھ کمی کے باوجود انداز ہ ہے کہ شعبہ زراعت مسلسل دوسرے برس مثبت نمو دکھائے گا۔

موجودہ استعداد کے بہتر استعمال اور تنصیب شدہ استعداد میں مسلسل اضافے کے ذریعے صنعتی شعبے نے طلبی دباو کو قابو میں رکھا ہے۔ نتیجے کے طور پر گنے کی کرشنگ کے دیر سے آغاز کے باوجود بڑے پیمانے کی اشیا سازی (ایل ایس ایم) نے جولائی تا جنوری مالی سال 18 کے دوران 6.3 فیصد کی نمو درج کی جبکہ مالی سال 17 کی اسی مدت میں 3.6 فیصد نمو ہوئی تھی۔ معینہ سرمایہ کاری کے اضافی پیداواری استعداد میں بدلنے اور عالمی طلب میں سازگار رجحان کے باعث ایل ایس ایم کی نمو مالی سال 18 کے بقیہ مہینوں میں بھی متوقع طور پر اپنی موجودہ رفتار قائم رکھے گی۔

زری محاذ پر مالی وساطت میں قدرے بہتری، جو نجی شعبے کے قرضے کی مسلسل نمو کی وجہ سے آرہی ہے زرِ وسیع (ایم ٹو)کی نمو کو بڑھانے میں کردار ادا کررہی ہے۔ معینہ سرمایہ کاری میں کم اعتدال ،گنے کی کرشنگ کے موسم کے دیر سے آغاز اور اضافی ذخائر کے ہمراہ کھاد کی کم پیداوار کے باوجودجولائی تا فروری مالی سال 18 کے دوران نجی شعبے کا مجموعی قرض 354 ارب روپے تک پہنچ گیا جبکہ مالی سال 17 کی اسی مدت میں 338 ارب روپے تھا۔

تاہم مالی سال 18 میں ایم ٹو کی نمو کی رفتار کم رہی۔ بینکاری نظام کے خالص بیرونی اثاثوں میں کمی کی وجہ سے حالیہ مہینوں میں یہ کمی نمایاں رہی ۔ سازگار معاشی منظرنامے کے پیش نظر توقع ہے کہ نجی شعبے کے قرضے کی نمو پورے مالی سال 18 کے دوران اور مالی سال 19 میں بھی کافی عرصے اپنی رفتار قائم رکھے گی۔ خالص بیرونی اثاثوں کے اثر کے علاوہ بینکاری نظام سے حکومتی میزانیہ قرض گیری بھی آئندہ مہینوں میں ایم ٹو نمو کے رجحان کا تعین کرے گی۔

اہم تجارتی شراکت داروں کی جانب سے طلب میں بہتری اور حکومت کے جاری برآمدی پیکیج دونوں کی بنا پر پاکستان کی برآمدات کے لیے نمو کی رفتار کے امکانات جنم لے رہے ہیں۔ جولائی تا فروری مالی سال 18 کے دوران برآمدات کی نمو 12.2 فیصد تک پہنچ گئی ہے جبکہ پچھلے سال اسی مدت میں 0.8 فیصد کمی ہوئی تھی۔ ملازمت کی غرض سے بیرون ملک جانے والے محنت کشوں کی تعداد میں کمی کے باوجود کارکنوں کی ترسیلاتِ زر میں مالی سال 18 کے دوران اب تک 3.4 فیصد کی نمو ریکارڈ کی گئی ہے۔

تاہم درآمدا ت کی نمو بدستور بلند ہے۔ بلند درآمدی ڈیوٹی اور شرح مبادلہ کی حرکات کی وجہ سے رفتار میں متوقع کمی کے باوجود درآمدات جولائی تا فروری مالی سال 18 کے دوران پچھلے سال کی اسی مدت کی نسبت بلند رہیں ۔ نتیجتا جولائی تا فروری مالی سال 18 کے دوران جاری کھاتے کا خسارہ 10.8 ارب ڈالر تک پہنچ گیاجو مالی سال 17 کی اسی مدت کے خسارے کے تقریبا 50 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔

اگرچہ برآمدات اور درآمدات پر شرح مبادلہ میں حالیہ کمی کا مکمل اثر آئندہ مہینوں میں بتدریج سامنے آئے گا تاہم بلند جاری کھاتے کے خسارے کو پورا کرنا دشوار ہوگیا ہے کیونکہ بیرونی براہ ِراست سرمایہ کاری کی بھرپور نمو اور بلند سرکاری رقوم کی آمد اسے پورا کرنے کے لیے ناکافی تھی۔ نتیجے کے طور پر 22 مارچ 2018ء تک اسٹیٹ بینک کے زر ِمبادلہ کے ذخائر کم ہوکر 11.78 ارب ڈالر ہوگئے۔

آگے چل کر جاری کھاتے کے فرق کو کم کرنے پر توجہ کے علاوہ سرکاری اور تجارتی دونوں قسم کی بیرونی رقوم کے بروقت حصول کے حکومت کے منصوبے اسٹیٹ بینک کے زر ِمبادلہ کے ذخائر کی کافی سطح کو قائم رکھنے اور بازار مبادلہ میں احساسات کو قابو میں رکھنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ تفصیلی سوچ بچار کے بعد زری پالیسی کمیٹی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ حالیہ پالیسی تبدیلیوں کے اثرات کو سامنے آنے کا وقت دیا جائے چنانچہ پالیسی ریٹ کو اگلے دو ماہ کے لئے 6.0 فیصد پر قائم رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔