لاہور ہائی کورٹ ، صدارتی آرڈیننس کیخلاف اور اقوام متحدہ وفد کی پاکستان آمدکے موقع پر حافظ محمد سعیدکی ممکنہ نظربندی سے متعلق دائر کردہ درخواستوں کو یکجا کردیا گیا

سماعت 23اپریل تک ملتوی

بدھ 4 اپریل 2018 21:26

لاہور ہائی کورٹ ، صدارتی آرڈیننس کیخلاف اور اقوام متحدہ وفد کی پاکستان ..
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 04 اپریل2018ء) لاہور ہائی کورٹ نے صدارتی آرڈیننس کیخلاف اور اقوام متحدہ وفد کی پاکستان آمدکے موقع پر حافظ محمد سعیدکی ممکنہ نظربندی سے متعلق دائر کردہ درخواستوں کو یکجا کرتے ہوئے سماعت 23اپریل تک ملتوی کر دی ہے۔ اس دوران وفاقی حکومت کی طرح پنجاب حکومت نے بھی اپنا تحریری جواب جمع کروادیا ہے۔

بدھ کے دن مسٹر جسٹس امین الدین خاں کی عدالت میں حافظ محمد سعید کی ممکنہ نظربندی کے حوالہ سے دائر درخواست کی سماعت ہوئی تو اے کے ڈوگر ایڈووکیٹ نے درخواست کی کہ حافظ محمد سعید کی جانب سے دائر کردہ دونوں کیسوں کو یکجا کر دیا جائے جس پر فاضل عدالت نے ان کی اس بات سے اتفاق کیا اور آئندہ تاریخ تک سماعت ملتوی کر دی ۔بعد ازاں حافظ محمد سعید کے وکیل اے کے ڈوگر ایڈووکیٹ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ جماعةالدعوة ‘پاکستان کے آئین اور قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے رفاہی و فلاحی سرگرمیاں انجام دے رہی ہے لیکن بھارتی و امریکی دبائو پر ان کے خلاف اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔

(جاری ہے)

نیا صدارتی آرڈیننس جس میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ جس تنظیم کو دہشت گرد قرار دے گی اس پر پاکستان میں بھی پابندی ہو گی‘ انتہائی عجلت میں پاس کیا گیا ہے۔ یہ آرڈیننس دراصل بیرونی قوتوں کے دبائو پر انہیں خوش کرنے کیلئے پاس کیا گیا ہے۔ انہوںنے کہاکہ آئین کے آرٹیکل 89میں یہ بات واضح طور پر کہی گئی ہے کہ صدارتی آرڈیننس اس وقت پاس کیا جاتا ہے جب اسمبلی سیشن نہ ہو رہے ہوںلیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ جب یہ آرڈیننس پاس کیا گیا اس وقت تو ملک میں قطعی طور پر ایسے حالات نہیں تھے کہ اسمبلی اجلاس کا انتظار کئے بغیر نیا آرڈیننس جاری کر دیا جائے۔

اے کے ڈوگر ایڈووکیٹ نے کہاکہ صدارتی آرڈیننس کے بعد جس طرح نوٹیفکیشن جاری کر کے جماعةالدعوة کے سینکڑوں سکولوں، ایمبولینسوں، ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں پر قبضہ کر کے وہاں ایڈمنسٹریٹر بٹھائے گئے ہیںاس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ موجودہ حکومت انتہائی کمزور اور بیرونی دبائو کا شکار ہے۔لاہور ہائی کورٹ میں حافظ محمد سعید کیس کی سماعت کے دوران وکلاء اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی کثیر تعداد موجود تھی