وزارت عظمٰی اہم ذمہ داری ہے جسے اپنی صلاحیت کے مطابق نبھا رہے ہیں،

چیف جسٹس سے ملاقات سے متعلق چہ میگوئیوں کی کوئی ضرورت نہیں،میں نہ تو کسی پر تنقید کرتا ہوں اور نہ ہی یہ میرا کام ہے ، میرا کام تو ملکی معاملات کو چلانا ہے،جو لوگ ووٹ خرید کر ایوانوں میں پہنچے ہیں ان کا مقابلہ کرنا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں، الحمدللہ ملک بھر سے دہشت گردوں کا صفایا کر دیا ہے ، یہاں دہشت گردوں کی کوئی خفیہ پناہ گاہ نہیں ، پاکستان میں دہشت گرد حملے افغانستان سے ہو رہے ہیں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا نجی ٹی وی چینل کو انٹر ویو

بدھ 4 اپریل 2018 23:34

وزارت عظمٰی اہم ذمہ داری ہے جسے اپنی صلاحیت کے مطابق نبھا رہے ہیں،
اسلام آباد ۔4 اپریل(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 04 اپریل2018ء) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ وزارت عظمٰی ایک اہم ذمہ داری ہے جسے اپنی صلاحیت کے مطابق نبھا رہے ہیں، چیف جسٹس سے ملاقات سے متعلق چہ میگوئیوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ میرا بطور وزیراعظم پروٹوکول نہیں بلکہ یہ سیکیورٹی ہے اور یہ اس اہم عہدے کی ضرورت بھی ہے جس کو اب برداشت کرنا پڑتا ہے کیونکہ اس عہدے پر آنے کے بعد زندگی اپنی نہیں رہتی بلکہ سیکیورٹی کے کنٹرول میں ہوتی ہے اور اسی طرح معاملات چلتے ہیں۔

بدھ کو ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام ’’نیوز ٹاک‘‘ میں ایک انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میری وزارت عظمیٰ کے عہدے کی خواہش نہیں تھی لیکن اب مجھے یہ جو ذمہ داری ملی ہے اسے نبھانا ہے اور میں اپنی صلاحیت کے مطابق اسے بہتر طریقے سے نبھانے کے لیے کوشاں ہوں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ بہترین جج تو عوام ہی ہیں اور انہوں نے ہی فیصلہ کرنا ہے لیکن چونکہ ہماری جماعت کا ایک مینڈیٹ تھا، منشور تھا اور سابق وزیراعظم محمد نواز شریف نے عوامی فلاحی منصوبوں اور پالیسیوں کا جو سلسلہ شروع کیا تھا اسے آگے بڑھانے کی بات تھی جسے بہتر طریقے سے آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں اس مقصد میں کامیاب کرے۔

چیف جسٹس آف پاکستان کے ساتھ ملاقات کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس ملاقات سے متعلق چہ مگوئیوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ عدلیہ کے ایک ادارے کے سربراہ ہیں اور میں ایگزیکٹوز کا نمائندہ ہوں، میں نے پہلے اسمبلی کی اپنی تقریر میں بھی یہ بات کہی تھی کہ کچھ معاملات ایسے ہیں جن سے حکومت چلنے میں مشکل پیش آٓ رہی ہے اور اگر حکومت نہیں چلے گی یا حکومت کو مشکلات پیش آئیں گی تو پاکستان کے معاملات خراب ہوں گے ، اسی ضمن میں میں نے یہ ضروری سمجھا کہ چیف جسٹس سے ملاقات کی جائے جس پر میں نے ان سے رابطہ کر کے ملاقات کی درخواست کی ، انہوں نے کہا کہ بالکل ہم بھی ملاقات چاہتے ہیں جس کے بعد ملاقات ہوئی اور ہر مسئلے پر بڑی کھل کر بات ہوئی، میں نے اپنی مشکلات ان کے سامنے رکھیں اور انہوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا جس سے ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے میں بڑی مدد ملی ہے اور یہ ملاقات یقینا ملک اور جمہوریت کے لیے بھی بڑی مفید ثابت ہو گی اور اگر ضرورت پیش آئی اور میں نے محسوس کیا تو مستقبل میں بھی ایسی مزید ملاقاتیں ہو سکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہر ایک کی اپنی رائے ہو سکتی ہے لیکن چیف جسٹس سے ملاقات کوئی غیر قانونی یا غیر آئینی بات نہیں ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ ان حالات میں ملاقات نہ کرنا غلط بات ہے کیونکہ حالیہ ٹینشن کے ماحول کے خاتمے کے لیے یہ ملاقات بہت ضروری تھی تاکہ ایک دوسرے کے موقف کو جانا اور سمجھا جا سکے اور اس ملاقات سے جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں بلکہ اس سے جمہوریت کو تقویت ہی ملے گی۔

انہوں نے کہا کہ میری چیف جسٹس سے ہونے والی ملاقات کوئی خفیہ ملاقات نہیں تھی بلکہ ہمارے درمیان بڑے اچھے اور خوشگوار ماحول میں ملاقات ہوئی جس کے بعد چیف جسٹس کی جانب سے پریس ریلیز بھی جاری ہوئی۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ میں نہ تو کسی پر تنقید کرتا ہوں اور نہ ہی یہ میرا کام ہے بلکہ میرا کام تو ملکی معاملات کو چلانا ہے اور اس ضمن میں جو صورت حال ہو اور جو بھی مناسب ہو اس کے مطابق میں آگے بڑھوں گا کیونکہ مجھ سے تو عوام نے کام سے متعلق پوچھنا ہے یہ نہیں پوچھنا کہ آپ کس سے ملے اور کس سے نہیں ملے۔

چیف جسٹس سے ملاقات کرنا میری ضرورت اور میرا اپنا موقف تھا اس لیے میں نے جو مناسب سمجھا وہ میں نے کیا۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ملک میں بنیادی مقصد انصاف مہیا کرنا ہے۔ لوگوں کو فوری انصاف کی فراہمی عدلیہ کا معاملہ ہے جس پر میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا لیکن عدلیہ بہتر سمجھتی ہے اور مجھے امید ہے کہ وہ ملک میں فوری انصاف کی فراہمی کے معاملات پر بھی ضرور غور کریں گے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ میں جو بھی ترمیم لیکر جانا چاہیں لے جا سکتے ہیں کیونکہ قانون سازی پارلیمنٹ کا حق ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی ایک ذمہ داری ہوتی ہے جسے نبھانے میں انہیں اگر کوئی مشکل پیش آئے تو اسے تنائو نہیں کہتے کیونکہ مسائل کو حل کرنا کوئی تنائو نہیں ہوتا بلکہ یہ تو نظام کا ایک حصہ ہوتا ہے اور اسی کے مطابق کام بھی کرنا ہوتا ہے، اور نہ ہی یہ کوئی نئی بات ہی ہے بلکہ دنیا بھر میں ایسے معاملات ہوتے رہتے ہیں لیکن دنیا میں یہ تنائو بریکنگ نیوز نہیں بنتے۔

ہمارے یہاں کوئی تنائو ہو یا نہ ہو بریکنگ نیوز کی شکل ضرور اختیار کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا یا ہمارے قائد سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کا کسی ادارے سے بھی کوئی تنائو نہیں اور نہ ہی ایسی باتوں میں کوئی صداقت ہی ہے۔ سینیٹ کے حالیہ انتخابات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم نے ووٹ کو بالکل عزت دی لیکن جو ووٹ بکا ہے وہ عزت کے قابل نہیں اور جو ووٹ خریدا گیا ہے وہ بھی عزت کے قابل نہیں۔

جو لوگ ووٹ خرید کر ایوانوں میں پہنچے ہیں ان کا مقابلہ کرنا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں اور یہ بات میں نے پہلے بھی کہی کیونکہ ہمیں نظر آ رہا تھا کہ کون ووٹ خرید رہا ہے اور کون سا ووٹ بک رہا ہے، اس وقت بھی ہم نے اس بات کی نشاندہی کی اور آج بھی نشاندہی کر رہے ہیں کیونکہ یہ وہ برائی اور خرابی ہے جس کو اگر آج ہم نے ختم نہیں کیا تو پھر کل ووٹ خریدنے اور بیچنے والے ہی ہمارے ایوانوں میں بیٹھے ہوں گے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب ووٹ خریدنے اور بیچنے والے دونوں راضی ہوں تو اس کا ثبوت نہیں ہوتا لیکن اس کا سب سے بڑا ثبوت یہی ہے کہ ایک ایسا شخص جس کی کوئی سیاسی حیثیت نہیں ہے اور نہ ہی اس کا اسمبلی کے اندر کوئی ایم پی اے ہے وہ کیسے منتخب ہو کر آ گیا اور دوسرا یہ کہ کئی جماعتوں نے یہ کہا کہ ہمارے ایم پی ایز خریدے گئے ہیں یا کئی نے کہا کہ ان پر دبائو ڈالا گیا اور کسی کو دھمکی دی گئی اس لیے ہمارے ووٹ ادھر سے ادھر ہوئے جس سے یہ واضح نظر آتا ہے کہ سینیٹ کے یہ انتخابات صاف و شفاف نہیں تھے جس کی وجہ سے آج سینیٹ میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ووٹ خرید کر وہاں پہنچے ہیں اور میں انہیں سینیٹ میں بیٹھنے کا حقدار نہیں سمجھتا۔

انہوں نے مذید کہا کہ ایوان بالا کو خود اس بات کا نوٹس لینا چاہیئے یا پھر یہ کہہ دیں کہ یہاں کوئی ووٹ نہیں بیچا گیا اور نہ ہی کوئی ہارس ٹریڈنگ ہوئی ہے۔ اسفند یار ولی خان نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اس دفعہ ہارس ٹریڈنگ نہیں ہوئی بلکہ پورا اصطبل ہی بک گیا ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جنہیں ہم ماضی میں چھوڑ آئے ہیں اور یہ نہ ہونے کے برابر تھیں لیکن آج سینیٹ میں نئے منتخب ہونے والے زیادہ تر لوگ پیسے دیکر اور ووٹ خرید کر سینیٹ میں آئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سینیٹ میں منتخب ہونے والے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے 17 لوگوں میں سے کسی نے نہ تو کسی کو کوئی پیسہ دیا اور نہ ہی کسی نے کوئی پیسہ لیا لیکن اس کے برعکس ایسی جماعتیں جن کا کوئی ایم پی اے ہی نہیں یا اتنے نہیں تھے کہ وہ ایک بندہ بھی منتخب کرا سکتے لیکن انہوں نے بھی اپنے دو دو تین تین لوگ الیکٹ کروائے اور جن جماعتوں کا کوئی ایک بھی ایم پی اے نہیں تھا ان کے آدمی بھی الیکٹ ہوئے جو اس بات کی واضح نشاندہی ہے کہ سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں پیسے کا وافر استعمال ہوا ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ ہمارا ملک ہے جہاں سے دہشت گردی کی لعنت کے جڑ سے خاتمے اور اس وطن عزیز کے امن و استحکام کے لیے فوج سمیت پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ہمارے عام شہریوں نے بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں اور آج الحمدللہ ہم نے ملک بھر سے دہشت گردوں کا صفایا کر دیا ہے اور یہاں اب دہشت گردوں کی کوئی خفیہ پناہ گاہ نہیں بلکہ یہاں پاکستان میں دہشت گردوں کے جو حملے ہو رہے ہیں وہ افغانستان سے ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے تو 30 لاکھ افغان مہاجرین کی انکے وطن واپسی کے بارے میں بھی موثر آواز اٹھائی ہے تاکہ انہیں باعزت طریقے سے ان کے وطن واپس بھیجا جا سکے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان پہلے بھی اپنے کشمیری بھائیوں کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کرتا رہا ہے اور ہمیشہ ان کا ساتھ دیا ہے اور آج بھی اپنے کشمیری بہن بھائیوں کے ساتھ ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں بزدلانہ کارروائیاں کر رہا ہے جس سے اس کی پریشانی واضح ہوتی ہے اور وہ نہتے شہریوں پر حملے کر کے ان کا بلاوجہ قتل عام کر رہا ہے جو انسانی حقوق کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہر عالمی فورم پر مسئلہ کشمیر کو بھرپور طریقے سے اجاگر کیا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کشمیری عوام کی امنگوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے عین مطابق حل ہو۔