پارلیمان کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے فیصلوں کی مانیٹرنگ اور ان پر عملدرآمد کے لئے قائم ذیلی کمیٹی کا اجلاس

این ایل سی کے منافع میں حکومتی حصے کے تعین کے حوالے سے فیصلہ نہ ہوسکا، کمیٹی نے وزارت خزانہ سے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن ، این ایل سی بورڈ کی حیثیت کے حوالے سے قواعد وضوابط کی تفصیلات طلب کر لیں

جمعرات 5 اپریل 2018 14:08

پارلیمان کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے فیصلوں کی مانیٹرنگ اور ان پر عملدرآمد ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 05 اپریل2018ء)پبلک اکائونٹس کمیٹی کے فیصلوںکی مانیٹرنگ اور ان پر عملدرآمد کے لئے قائم ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں نیشنل لاجسٹک سیل ( این ایل سی) کے منافع میں حکومتی شیئر کے تعین کے حوالے سے فیصلہ نہ ہوسکا، کمیٹی نے معاملے کو آئندہ اجلاس تک مؤخر کرتے ہوئے آڈٹ حکام اور وزارت منصوبہ بندی و ترقی سے تحریری طورپر اس حوالے سے وزارت خزانہ سے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن اور این ایل سی بورڈ کی حیثیت کے حوالے قواعد وضوابط کی تفصیلات طلب کرلیں۔

اجلاس جمعرات کو کمیٹی کے کنوینر رانا محمد افضال حسین کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا جس میں کمیٹی کے ارکان مولانا عبدالغفور حیدری اور محمود خان اچکزئی سمیت متعلقہ سرکاری اداروں کے اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

اجلاس میں منصوبہ بندی و ترقی ڈویژن کے 1999-2000ء ، 2005-06ئ اور 2008-09ء کے زیر التواء آڈٹ اعتراضات پر عملدرآمد کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔

سیکرٹری منصوبہ بندی و ترقی شعیب صدیقی نے کہاکہ ہم نے آڈٹ کے ساتھ مل کر گزشتہ تین دنوں میں پوری جانفشانی سے کام نمٹانے کی کوشش کی ہے۔ محمود خان اچکزئی سمیت تمام ارکان نے وزارت منصوبہ بندی و ترقی کے سیکرٹری کو محکمانہ آڈٹ کمیٹی کی جامع رپورٹ پیش کرنے پر مبارکباد پیش کی اور کہاکہ گزشتہ 16 سالوں کا تین دنوں میں کام ہو سکتاہے تو اس کا مطلب ہے کہ ماضی میں اس وزارت کے افسران کا کردار قابل مذمت تھا۔

اس پر سیکرٹری منصوبہ بندی نے کہاکہ میں نے بچپن میں پڑھا تھاکہ آج کاکام کل پر نہ چھوڑا جائے۔ نیشنل لاجسٹک سیل ( این ایل سی) کے حوالے سے ایک آڈٹ اعتراضات کے جائزے کے دوران سیکرٹری منصوبہ بندی ڈویژن نے کہاکہ این ایل سی کے منافع میں سے حکومت کو ادائیگی کے حوالے سے صرف سفارش کی گئی ہے حکم نہیں دیا گیا۔ اس ادارے کے منافع کی شیئرنگ کی کوئی شق موجود نہیں ہے۔

ہم نے پی اے سی کی سفارشات کا جائزہ لیا ادارے کے بورڈ نے فیصلہ کیا کہ یہ ادارہ منافع میں ہے حکومت کو ادائیگی نہیں کرے گا تاہم عوامی فلاح و بہبود کے کام کرے گا۔ محمود خان اچکزئی نے کہاکہ اس حوالے سے پی اے سی کے 2012ء کے واضح احکامات موجود ہیں ۔ یہ محکمانہ غفلت ہے۔ ان حالات سے ملک ترقی کیسے کرسکتا ہے۔ آڈٹ حکام نے کہاکہ ہم نے یہ نہیں کہا کہ اپنے پیسے نکال کرحکومت کو دے دیں۔

ہمارا مدعا یہ ہے کہ پی اے سی کی سفارشات کے مطابق اس کا فیصلہ ادارے سے مل کرکیا جائے۔ آڈٹ کا کام فیصلہ کرنا نہیں معاملے کی نشاندہی کرنا ہے۔ وزارت خزانہ اس کافیصلہ کرسکتی ہے۔ یہ فنانس ڈویژن کو ریفرنس بھیجنے کے حوالے سے گریزاں ہیں ۔وزارت خزانہ کے نمائندے نے کہاکہ یہ فیڈرل سیکرٹری این ایل سی بورڈکے رکن ہیں۔ اگر پی ا ے سی نے سفارش کی ہے تو ریفرنس فنانس ڈویژن کو بھجوا دیا جائے ہم جائزہ لے کر فیصلہ کریں گے۔

سیکرٹری منصوبہ بندی ڈویژن نے کہاکہ ہم آڈٹ اور قانون کو اپنی طاقت سمجھتے ہیں۔ میرا مؤقف اصولی ہے۔ بورڈ میں تمام وزارتوں کے سیکرٹریز موجود ہیں ۔بورڈ کی قانونی حیثیت ہے اور تمام فیصلہ کرنے کا مجاز ہے۔ آڈٹ حکام نے کہاکہ سیکرٹری خزانہ کی بورڈ میں فیصلہ سازی کے حوالے سے حیثیت کا تعین کرلیا جائے تو ہم اعتراض نہیں کریں گے۔ ڈپٹی آڈیٹر جنرل نے کہاکہ اگر این ایل سی اپنا منافع حکومت کے ساتھ شیئر کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہوگا کیونکہ یہ ہمارے ملک کااپنا ادارہ ہے۔

این ایل سی کے ڈائریکٹر لیگل بریگیڈیئر رؤف نے کہاکہ پی اے سی کے حکم پر ڈی اے سی بنائی گئی جس کی سفارش پر این ایل سی میں پیش ہوا جس میں سیکرٹری خزانہ موجود تھے یہ فیصلہ بورڈ نے کیا اور کسی سیکرٹری کے حوالے سے کوئی اختلافی نوٹ بھی نہیں دیا گیا۔ این ایل سی حکومت سے کوئی رقم نہیں لیتی ۔ اس ادارے نے زلزلوں اور قدرتی آفات میں ہمیشہ حکومت کی اعانت کی ہے۔

ہم اپنے تمام اخراجات خود برداشت کرتے ہیں ۔ رانا افضال حسین نے کہاکہ سیکرٹری خزانہ بورڈ میں رکن کی حیثیت سے فیصلوں میں شامل ہوتا ہے ۔ آڈٹ حکام نے کہاکہ سیکرٹری خزانہ بورڈ میں بیٹھ کر بطور سیکرٹری خزانہ کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے۔ سیکرٹری منصوبہ بندی ڈویژن نے کہاکہ سیکرٹری خزانہ بورڈ میں پوری وزارت کی نمائندگی کرتے ہیں ورنہ ان کو بورڈ کارکن بنانے کی کیا ضرورت تھی۔

اگر بورڈ کے فیصلوں کو نظر انداز کیاگیا تو بورڈ بنانے کی افادیت ختم ہو جائے گی۔ وزارت خزانہ کے نمائندے نے کہاکہ اگر وزارت خزانہ کو معاملہ بھجوایاجائے تو سیکشن افسر تمام متعلقہ کاغذات لگا کر مختلف مراحل سے گزار کر فائل کو سیکرٹری تک پہنچاتا ہے۔ اس میں تمام افسران کی رائے شامل ہوتی ہے ۔ سیکرٹری منصوبہ بندی ڈویژن نے کہاکہ پی ا ے سی جو حکم کرے گی اس پر عملدرآمد ہو گا۔

ڈی جی آڈٹ نے کہاکہ ہمیں دو دن کا وقت دیاجائے ہم پی اے سی کو 2006ء کا فنانس ڈویژن کانوٹیفکیشن پیش کردیں گے جس میں واضح ہے کہ بورڈ کا فیصلہ سیکرٹری خزانہ کا فیصلہ نہیں ہوتا۔ یہ فنانس ڈویژن کا اپنا ہی نوٹیفکیشن ہے جس کو آڈٹ نے نپٹا دینا ہے۔ بورڈ میں سیکرٹری خزانہ بطور بورڈ کے رکن کے جاتا ہے بطور سیکرٹری خزانہ نہیں۔ سیکرٹری منصوبہ بندی نے کہاکہ ہماری اپنی کوئی ذاتی حیثیت نہیں ہے۔

ہم بورڈ میں وزارت کے پرنسپل اکائونٹنگ آفیسر کے طورپر شامل ہوتے ہیںً این ایل سی حکومتی فیصلوں کے مجاز ایک اہم ادارہ ہے ۔این ایل سی کو رقم کاروبار کے لئے نہیں بلکہ اس کی ری سٹرکچرنگ کے لئے دیا گیاتھا۔ این ایل سی کے ڈائریکٹر لیگل بریگیڈیئر رؤف نے کہاکہ اس کے بعد حکومت کی طرف سے کوئی رقم نہیں دی گئی ری سٹرکچرنگ اور اسٹیشن بنانے کے لئے حکومت کی طرف سے فراہم کردہ فنڈز ادارے میں سرمایہ کاری نہیں تھی۔ پی اے سی نے اس معالے کو آئندہ اجلاس تک مؤثر کرتے ہوئے کہا کہ پی ا ے سی کا اس حوالے سے فیصلہ دور رس اثرات کا حامل ہوگا۔ آڈٹ حکام اس معاملے پر انہیں سفارشات پی ا ے سی کو تحریری طورپر پیش کریں ۔ این ایل سی بورڈ کے تمام قواعد و ضوابط بھی پی اے سی کو پیش کئے جائیں ۔