جرائم کی روک تھام کیلئے ڈی این اے رپورٹ سے مدد لینا وقت کی اہم ضرورت ہے، ڈاکٹر ذکریا ذاکر

جمعرات 5 اپریل 2018 21:55

لاہور۔5 اپریل(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 05 اپریل2018ء) وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر زکریا ذاکر نے کہا ہے کہ معاشرے میں بڑھتے مختلف جرائم کی روک تھام کے لئے جرائم کی تفتیش کے لئے جدید طریقوں اور ڈی این اے رپورٹ سے مدد حاصل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سنٹر آف ایکسیلنس ان اپلائیڈ مالیکولر بائیولوجی کے زیر اہتمام کرائم انویسٹی گیشن میں ڈی این اے کا کردار کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کر رہے تھے۔

تقریب میں جامعہ نعیمیہ کے سربراہ مولانا ڈاکٹر راغب حسین نعیمی، ڈائریکٹر کیمب ڈاکٹر ندیم شیخ، سینئر ریسرچ آفیسر کیمب منظور حسین، فرانزک سائنس کے معروف قانون دان عبداللہ عثمان ،ماہر نفسیات ڈاکٹر رخسانہ کوثر، فیکلٹی ممبران اور طلباء و طالبات کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر ذکریا ذاکر نے کہا کہ جرائم کی جامع تحقیقات کے لئے انٹر ڈسپلنری ریسرچ کے جدید طریقوں سے استفادہ کرنا جدید دور میں انتہائی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں مختلف جرائم نت نئے طریقوں سے ہو رہے ہیں جن کی روک تھام اور مجرم کا سراغ لگانے کے لئے تفتیش کے طریقوں کو بھی جدید بنانا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ نئی تھیراپیز ، ادویات، ٹیکنالوجیز، موجودہ ماحول ، منفی سوچ ، بڑھتی ہوئی عدم برداشت و دیگر سماجی مسائل کی وجہ سے ہمیں کئی قسم کے خطرات لاحق ہو رہے ہیں جن سے بچنے کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے۔

۔انہوں نے کہا کہ کسی بھی مضمون کے طالبعلم کو سائنسی علوم سے متعلق جدید معلومات کا علم ہونا چاہئے اور سلسلے میں تمام ڈسلپنز کا کردار بہت اہم ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ڈی این اے ایک ٹیکنالوجی ہے جو جرائم کی تفتیش میں معاونت فراہم کرتی ہے۔ وائس چانسلر نے بہترین معلوماتی موضوع پر منعقدہ تقریب کے انعقادپر ڈائریکٹر کیمب ڈاکٹر ندیم شیخ اور ان کی ٹیم کو مبارک باد پیش کی ۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جامعہ نعیمیہ کے سربراہ مولانا ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے کہا کہ ڈی این اے رپورٹ امدادی شہادت تو ہو سکتی ہے لیکن ابتدائی شہادت کے طور پر حدود کے مقدمات میں اس سے فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ حدود اللہ اور گواہان کی تعداد متعین ہے۔ البتہ کوئی ایسا جرم جو حدود میں آتا ہے لیکن شہادتیں / گواہی مکمل نہیں ہے تو جج اپنی صوابدید پر ثانوی شہادت بشمول ڈی این اے رپورٹ کی شہادت کی بنیاد پر مجرم کو سزا دے سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ڈی این اے ٹیسٹنگ ایجنسی سرکاری سطح پر ہو اور اس کے ٹیکنیشن اعلیٰ صلاحیتوں اور معیار کے حامل ہوں تو صحیح نتائج اخذ کئے جا سکیں گے۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سینئر ریسرچ آفیسر منظور حسین نے کہا کہ ڈی این اے کی مدد سے مجرم تک پہنچتے میں ٹھوس مدد مل سکتی ہے جس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ ڈی این اے کی تجزیہ رپورٹ جرائم کی تفتیش میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے ۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ندیم شیخ نے کہا کہ فرانزک سائنس میں ڈی این اے کے تجزیہ فرانزک سائنسز کے شعبے میں ناقابل یقین حد تک اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر فرد کا ڈی این اے دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈی این اے پروفائل مشکوک ملزمان میں سے حقیقی مجرم کی شناخت کے لئے بہترین ذریعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جرائم کی تفتیش کی بدلتی ہوئی ضروریات کے تحت کیمب کی جانب سے اس سیمینار کا اہتمام کیا گیا ہے تاکہ ہم آگاہی حاصل کر سکیں کہ ڈی این اے تجزیہ سے ہم کس طرح مجرم کی شناخت کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کیمب اس شعبے میں متعلقہ تفتیشی افسران کو تربیت بھی فراہم کر رہا ہے۔

متعلقہ عنوان :