عوام کیلئے طبی سہولیات کی رسائی ، پاکستان کا ساٹھ 60ممالک میں سے 52واں نمبر

نوزائیدہ بچوں کی اموات ، ماؤں کی زچگی کے دوران اموات میں پاکستان سرفہرست ممالک میں شامل ہے،گلوبل ایکسیس ٹو ہیلتھ کیئر انڈکس رپورٹ

اتوار 8 اپریل 2018 23:30

عوام کیلئے طبی سہولیات کی رسائی ، پاکستان کا ساٹھ 60ممالک میں سے  52واں ..
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 08 اپریل2018ء) گلوبل ایکسیس ٹو ہیلتھ کیئر انڈکس رپورٹ کے مطابق عوام کیلئے طبی سہولیات کی رسائی میں پاکستان کا ساٹھ (60) ممالک میں سے 52واں نمبر ہے اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ میں نوزائیدہ بچوں کی اموات ، ماؤں کی زچگی کے دوران اموات میں پاکستان سرفہرست ممالک میں شامل ہوتا ہے۔گندے پانی کے استعمال، ماحولیاتی آلودگی سے پھیلنے والی بیماریاں پاکستانی صحت کے نظامی پر ایک طمانچہ ہے۔

ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر کامران سعید ، جنرل سیکریٹری پی ایم اے پنجاب نے پی ایم اے ہاؤس میں ورلڈ ہیلتھ ڈے پر ہونے والے ایک اجلاس میں کیا جس کی صدارت پی ایم اے پنجاب کے صدر ڈاکٹر اظہار احمد چوہدری نے کی۔ اجلاس میں شرکاء کو بتایا گیا کہ پنجاب میں ہیلتھ پالیسی تشکیل نہیں دی جا سکی۔

(جاری ہے)

سرکاری ہسپتالوں پر عوام کی عدم تسلی، پرنٹ، سوشل، الیکٹرونک میڈیا پر حقائق کی تصویر کشی، میڈیکل سے متعلق نمائندہ تنظیموں کے مسلسل احتجاج، ادویات کی عدم دستیابی حالات کی ابتری کی غمازی کرتے ہیں۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کے طبی تعلیم، صاف پانی، ملاوٹ شدہ اور زہریلا دودھ کے کاروبار پر سوموٹو ایکشن اور ہسپتالوں کے دورے ناصرف عوام الناس اور متاثرین کی دادرسی کر رہے ہیں بلکہ ارباب اختیار کیلئے ایک ڈراؤنے خواب کا روپ دھار چکے ہیں۔مختلف قوانین، قواعد و ضوابط کے نام پر فیملی فزیشنز کو جس طرح ہراساں کیا جا رہا ہے اس سے ناصرف موجودہ پریکٹیشنرز عدم تحفظ کا شکار ہو گئے ہیں بلکہ نئے آنے والے ڈاکٹرز اس شعبے میں آنے سے گریزاں ہیں۔

میڈیکل یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کی عدم تعیناتی، میڈیکل انٹری ٹسٹ کا پرچہ لیک ہونااور سرکاری ڈاکٹروں کی بروقت ترقی نہ ہونا محکمہ صحت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اجلاس میں تمام شرکاء اس بات پر متفق تھے کہ اس شعبے میں 1سے 2 وزیر، 1سے 2ہیلتھ کے محکمے، ان میں اتھارٹیز، کمپنیاں اور ایجنسیاں صرف مشاہیر، وزراء اور بیوروکریسی کو ترقی دینے کیلئے بنائی جا رہی ہیں جبکہ ان پر بے دریغ ستعمال ہونے والا پیسہ جس کے اس شعبے میں کئی دوسرے بہترین مصرف ہو سکتے ہیںضائع کیا جا رہا ہے۔

اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ محکمہ صحت کی تقسیم در تقسیم فوراً ختم کی جائے۔ اس کی ناکامی کے اسباب تلاش کرتے ہوئے اسے فوری طور پر تکنیکی ماہرین اور ڈاکٹرز کے حوالے کیا جائے۔ مزیدبرآں مطالبہ کیا گیا کہ مختلف قوانین اور قواعدوضوابط کے نام پر فیملی فزیشنز کو ہراساں کرنا فوری طورپربند کیا جائے۔

متعلقہ عنوان :