وفاقی پولیس میں جنسی ہراسمنٹ سے متعلق گمنام درخواست کی تفتیش نیا رخ اختیار کر گئی ،خواتین پولیس اہلکاروں نے دوران انکوائری درخواست کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کردیا

دو خواتین افسروں سے تحقیقات کروانے کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست بھی دائر کردی گئی

بدھ 11 اپریل 2018 22:53

وفاقی پولیس میں جنسی ہراسمنٹ سے متعلق گمنام درخواست کی تفتیش  نیا رخ ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 11 اپریل2018ء) وفاقی پولیس میں جنسی ہراسمنٹ سے متعلق لکھی گئی گمنام درخواست کی تفتیش نے نیا رخ اختیار کرلیا ہے۔ گمنام درخواستیں پولیس لائن ہیڈ کوارٹر میں تعینات افسران کو دبائو میں رکھنے کیلئے مرد اہلکاروں کی طرف سے دی گئیں۔ خواتین پولیس اہلکاروں نے انکوائری کے دوران گمنام درخواست کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کردیا۔

دو خواتین پولیس افسروں سے تحقیقات کروانے کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست بھی دائر کردی گئی۔ تفصیلات کے مطابق آن لائن کو مصدقہ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وفاقی پولیس میں گمنام درخواست پر جنسی سکینڈل کی انکوائری کرنے والی خاتون پولیس آفیسر محترمہ عائشہ کے رو برو کسی ایک خاتون پولیس اہلکار نے بھی گمنام درخواست کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔

(جاری ہے)

البتہ انکوائری کے دوران کچھ پولیس اہلکاروں کی طرف سے یہ الزام لگایا گیا کہ نائب محرر اورنگزیب ‘ اے ایس آئی اسحاق اور آپریٹر راشد کاکردار مشکوک رہا ہے جس پر پولیس حکام نے انہیں معطل کردیا۔ لیکن کسی بھی پولیس اہلکار خاتون نے یہ تسلیم نہیں کیا کہ جنسی سکینڈل سے متعلق درخواست انہوں نے لکھی ہے۔ تمام اہلکاروں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ انہیں ایسی کسی درخواست کا علم ہی نہیں ہے۔

آن لائن کی تحقیقات کیمطابق پولیس لائن ہیڈ کوارٹر میں ریزرو پولیس انسپکٹر عظمت اللہ اور کانسٹیبل طاہر شاہ نے افسران کے خلاف ایک گروپ بنا رکھا ہے۔ انسپکٹر عظمت اللہ کی خواہش تھی کہ طاہر شاہ کو اس کے ساتھ نائب محرر مقرر کیا جائے لیکن طاہر شاہ کو ایس پی ہیڈ کوارٹر اور ایس ایس پی ہیڈ کوارٹر نے کچھ عرصہ پہلے ہی کارپنٹرز‘ نائی‘ دھوبی اور صفائی کیلئے موجود سٹاف کی سرپرستی سے 7 سال بعد ہٹایا تھا اس لئے طاہر شاہ کو جنرل ڈیوٹی کیلئے کہا گیا ۔

چنانچہ طاہر شاہ اور عظمت اللہ انسپکٹر نے ان پولیس اہلکاروں کو بھی اپنے گروپ میں شامل کرلیا جنہیں عرصہ دراز بعد ڈیوٹی کیلئے مجبور کیا جارہا تھا۔ معتبر ذرائع کے مطابق عظمت اللہ اور طاہر شاہ نے پولیس اہلکاروں کو یہ باور کرایا کہ تینوں افسران بالا ہمارے کام میں رکاوٹ ہیں۔ ذرائع کے مطابق پولیس افسروں کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ کانسٹیبل طاہر شاہ کمپوزنگ بھی جانتا ہے اور آئی جی کو بھجوائی گئی گمنام درخواست اس نے کمپوز کی تھی۔

اس جنسی سکینڈل کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کی گئی ہے جس میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ یہ انکوائری ایک خاتون پولیس آفیسر کی بجائے دو خواتین پولیس افسروں کے ذریعے کروائی جائے اور اس وقت تک مزید کسی پولیس اہلکار کو سزا نہ دی جائے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ آج اس درخواست کی سماعت بھی کرے گی۔ واضح رہے کہ قانون گمنام درخواست پر کارروائی کے حوالے سے خاموش ہے لیکن سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد جب پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر یہ درخواست وائرل ہوئی تو آئی جی سلطان اعظم تیموری کارروائی پر مجبور ہوگئے۔

پولیس افسران کے خلاف گروپ بنانے والے اہلکاروں کے بارے میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ یہ تمام اہلکار عرصہ دراز سے ڈیوٹی کرنے کی بجائے محرر کو ماہانہ بھتہ دے کر صرف تنخواہیں وصول کرنے کیلئے آتے تھے۔ پولیس لائن ہیڈ کوارٹرز میں تعینات افسران نے اس حوالے سے اہم شواہد بھی اکٹھے کرلئے ہیں جو اسلام آباد ہائی کورٹ اور آئی جی اسلام آباد سلطان اعظم تیموری کو پیش کئے جائیں گے۔
وفاقی پولیس میں جنسی ہراسمنٹ سے متعلق گمنام درخواست کی تفتیش  نیا رخ ..

متعلقہ عنوان :