خواتین کے بھرپور کردار کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا، وفاقی پولیس میں خواتین کی تعداد

بڑھانے کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں، خاتون ایس ایچ او تعینات کی جائے، اسلام آباد پولیس کا اپنا ہسپتال بنانے کے لئے دو ارب روپے مختص کئے ہیں، پولیس محکوموں اور کمزوروں کی طاقت اور سہارا بنے، خواتین اہلکاروں کو بہترین ماحول فراہم کیا جائے وزیر داخلہ پرویز احسن اقبال کا پولیس لائنز ہیڈ کوارٹرز میں خواتین پولیس اہلکاروں کے دربار سے خطاب

جمعہ 20 اپریل 2018 22:04

خواتین کے بھرپور کردار کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا، وفاقی پولیس ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 20 اپریل2018ء) وزیر داخلہ پرویز احسن اقبال نے کہا ہے کہ خواتین کے بھرپور کردار کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا، وفاقی پولیس میں خواتین کی تعداد بڑھانے کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں، خاتون ایس ایچ او تعینات کی جائے، اسلام آباد پولیس کا اپنا ہسپتال بنانے کے لئے دو ارب روپے مختص کئے ہیں، پولیس محکوموں اور کمزوروں کی طاقت اور سہارا بنے، خواتین اہلکاروں کو بہترین ماحول فراہم کیا جائے۔

جمعہ کو پولیس لائنز ہیڈ کوارٹرز میں خواتین پولیس اہلکاروں کے دربار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خواتین پولیس اہلکاروں کے حوالے سے گمنام شکایت کے درست یا غلط ہونے سے قطع نظر میں ضروری سمجھتا ہوں کہ خود ان سے ملاقات کروں اسی لئے میں نے لندن سے ہی آئی جی کو ہدایت کی کہ خواتین پولیس اہلکاروں کو جمع کریں۔

(جاری ہے)

وزیر داخلہ نے کہا کہ خواتین ہماری آبادی کے نصف سے بھی زائد 52 فیصد ہیں، انہیں ترقی کے اس عمل میں شامل کئے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا، تعلیم کے میدان سمیت ہر شعبے میں خواتین کامیابی کے جھنڈے گاڑھ رہی ہیں، کسی بھی عام یونیورسٹی میں جائیں وہاں لڑکیاں زیادہ ہیں حتیٰ کہ میرے اپنے حلقے نارووال میں یونیورسٹی کیمپس میں ساڑھے تین ہزار طلباء میں سے 80 فیصد طالبات ہیں، پہلے کلاس میں چند بچیاں ایک کونے میں بیٹھی ہوتی تھیں، اب صورتحال اس کے برعکس ہے اور ہر کلاس میں طلباء کم اور طالبات زیادہ نظر آتی ہیں، یہ بڑی تبدیلی جو ہمارے معاشرے میں رونما ہوئی ہے، خواتین اب مختلف شعبوں میں آگے آ رہی ہیں حتیٰ کہ سیکورٹی کا شعبہ جو صرف مردوں تک محدود تھا وہاں اب خواتین نظر آتی ہیں کیونکہ اب پرانے تصورات بدل گئے ہیں، یہ کمیونٹی پولیسنگ کا دور ہے جس میں خواتین کے لئے مواقع مردوں کے برابر ہیں، انسداد دہشت گردی کے شعبہ میں بھی کارکردگی کے لحاظ سے وہ مردوں سے پیچھے نہیں، میں نے اپنی فیس بک پر ٹیررازم کی تربیت لینے والی خواتین اہلکاروں کی تصویر لگائی تاکہ پاکستان کا امیج دنیا میں اجاگر ہو۔

انہوں نے خواتین اہلکاروں کو مبارکباد دی اور انہوں نے بہترین شعبے کا انتخاب کیا۔ وزیر داخلہ نے ہدایت کی کہ خواتین اہلکاروں کی تعداد فوری دگنا کی جائے اور جلد اسے 10 فیصد تک لانے کے لئے اقدامات کئے جائیں کیونکہ اس وقت مردوں کے تناسب سے بہت کم تعداد میں خواتین اہلکار ہیں۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ خواتین اہلکاروں کو ہراساں کرنے کی جو شکایت سامنے آئی اس کے درست یا غلط ہونے سے قطع نظر یہ ایک حساس مسئلہ ہے، اسلام آباد پولیس میں خواتین کو مثالی اور گھر جیسا ماحول فراہم کیا جائے اور انہیں پولیس فورس کے خاندان کے اندر بیٹی یا بہن کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے، ایسا ماحول ہو کہ انہیں ہراساں کرنا تو دور کی بات کوئی ایسی سوچ بھی دل میں نہ لا سکے اور اس مسئلے کے مستقل حل کے لئے ایس پی سطح کی خاتون افسر کو محتسب کے طور پر مقرر کیا جائے تاکہ اگر کسی اہلکار کو شکایت ہو تو بلاخوف و خطر شکایت کر سکے، خواتین اہلکاروں کے لئے ڈے کیئر کو مثالی بنایا جائے تاکہ وہ اپنے فرائض منصبی بے فکری سے سر انجام دے سکیں۔

انہوں نے کہا کہ میں نے ہدایت کی تھی کہ لیڈی ایس ایچ او تعینات کی جائے لیکن بتایا گیا کہ کوئی آفیسر سب انسپکٹر نہیں ہے۔ وزیر داخلہ نے ہدایت کی کہ کسی خاتون افسر کو ترقی دے کر ایس ایچ او لگایا جائے یا کسی آفیسر کو ڈیپوٹیشن پر لانا پڑے تو لایا جائے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ اینٹی رائٹ پولیس کے لئے ایک ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جبکہ دو ارب روپے اسلام آباد پولیس کے ہسپتال سے رکھے گئے ہیں۔

اسلام آباد پولیس کا اپنا ہپستال ہونا چاہیے، پولیس جان ہتھیلی پر رکھ کر کام کر رہی ہے، اسے بہترین سہولیات مہیا ہونی چاہئیں، صوبوں کو بھی اس حوالے سے کام کرنا چاہیے۔ انہوں نے خواتین پولیس اہلکاروں کی آمد و رفت کے لئے ٹرانسپورٹ کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے اور ان کے لئے فزیکل فٹنس کلب بنانے کی بھی ہدایت کی۔ انہوں نے کہا کہ خواتین پولیس کے لئے ایسا ماحول فراہم کیا جائے گا جس میں وہ کسی بھی دبائو اور خوف سے آزاد ہو کر کام کر سکیں اور اسلام آباد پولیس کو باقی ملک کے لئے مثال بنایا جائے گا۔

انہوں نے پولیس پر زور دیا کہ وہ اپنے فرائض منصبی اس طرح سر انجام دے کہ بچوں میں بھی ان کی اتنی عزت ہو کہ وہ پولیس کے جوانوں کو سلیوٹ کریں اور تحفظ کے لئے ان کی طف دیکھیں، پولیس کمزوروں اور محکوموں کی طاقت بنے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ 7 ماڈل پولیس سٹیشن تیار ہو گئے ہیں، مزید 7 بھی بنائے جائیں گے اور تمام 22 تھانوں کو جدید سہولیات سے آراستہ کیا جائے گا لیکن پولیس کو اپنا رویہ اور کردار بھی مثالی بنانا ہو گا۔

قبل ازیں آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ وزیر داخلہ کی آمد سے بالخصوص خواتین کے حوصلے بلند ہوئے ہیں، اسلام آباد میں 289 پولیس اہلکار ہیں اور تمام ڈویژنز میں کام کر رہی ہیں، 47 خواتین اہلکار انسداد دہشت گردی کے شعبے میں کام کر رہی ہیں، پولیس میں خواتین کی تعداد 2.5 فیصد ہے جو بہت کم ہے، بھارت میں یہ تعداد 7 فیصد اور امریکہ میں 12 اور برطانیہ میں 28 فیصد سے بھی زائد ہے۔

خواتین اہلکاروں کی شکایت کے ازالے کے لئے 2012ء سے اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی کام کر رہی ہے، ہراساں کرنے کی گمنام شکایت کی تحقیقات کی جا رہی ہیں، جو بھی ملوث پایا گیا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ وزیر داخلہ نے تقریب میں خواتین اہلکاروں کے سوالات کے جوابات بھی دیئے اور ان کے لئے کوارٹرز، الگ بیرکس تعمیر کرنے کے علاوہ دو روز قبل حادثہ میں جاں بحق ہونے والی خاتون اہلکار کی بہن کو نوکری فراہم کرنے کا بھی اعلان کیا۔ بعد ازاں وہ خواتین اہلکاروں میں گھل مل گئے جنہوں نے ان کے ساتھ تصاویر بنوائیں اور مطالبات کی منظوری پر ان کا شکریہ ادا کیا۔