بجٹ پورے سال کا پیش کیا جاتا ہے، 3 ماہ کا بجٹ کسی صورت بھی ممکن نہیں، پالیسیاں پورے سال کے لیے بنائی جاتی ہیں، ہر 3 ماہ کے بعد پالیسیاں تبدیل نہیں کر سکتے،یہ لوگ بھی ساری باتیں سمجھتے ہیں،ہم ذمہ دارانہ بجٹ پیش کریں گے ،انشااللہ گزشتہ سالوں کی نسبت کم خسارے کا بجٹ پیش ہو گا،عبدالقدوس بزنجو، مراد علی شاہ اور پرویز خٹک نے قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس سے بلا وجہ واک آئوٹ کیا،وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل کی نجی ٹی وی چینل سے گفتگو،

قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں آئندہ مالی سال کے بجٹ اور ترقیاتی پروگرام پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا،سندھ،کے پی کے اور بلوچستان کے وزراء اعلیٰ کی پریس کانفرنس

بدھ 25 اپریل 2018 00:00

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 اپریل2018ء) وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ بجٹ پورے سال کا پیش کیا جاتا ہے، 3 ماہ کا بجٹ کسی صورت بھی ممکن نہیں کیونکہ پالیسیاں پورے سال ہی کے لیے بنائی جاتی ہیں، ہر 3 ماہ کے بعد ہم اپنی پالیسیاں تو تبدیل نہیں کر سکتے۔ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے مشیر خزانہ نے کہا کہ یہ سب لوگ بھی یہ ساری باتیں سمجھتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ سندھ اور بلوچستان حکومت بھی اپنا بجٹ پیش کریں گی،ایک ماہ قبل اسپیکر قومی اسمبلی کے چیمبر میں میری شیریں مزاری اور نوید قمر سے ملاقات ہوئی جس میں ہم سب نے اتفاق کیا کہ ہم بجٹ پیش کریں گے جس کے بعد ہم نے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو خط بھی لکھے کہ آپ بھی اپنے صوبائی بجٹ کی تیاری کریں،میں یہ اس لیے ہی جلدی پیش کر رہا ہوں کہ صوبوں کو بھی وقت ملے اور وہ بھی اپنا بجٹ پاس کر سکیں تاکہ صوبوں کا کام بھی نہ رکے۔

(جاری ہے)

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم اس ملک کے شہری ہیں اور اپنے وطن سے مخلص بھی ہیں اس لیے ایک ذمہ دارانہ بجٹ پیش کیا جائے گا کیونکہ ہم نے پوری دنیا کو ساتھ لیکر چلنا ہے،انشااللہ گزشتہ سالوں کی نسبت کم خسارے کا بجٹ پیش کریں گے اور بجٹ کے بعد بھی کمیٹیوں کے اندر ہونے والی باتوں پر غور کیا جائے گا،انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز قومی اقتصادی کونسل (این ای سی) میں ہونے والی پریزنٹیشن کے آغاز ہی میں جب ابھی سیکرٹری پلاننگ نے پہلا صٖفحہ ہی شروع کیا تھا کہ عبدالقدوس بزنجو، مراد علی شاہ اور پرویز خٹک تینوں وزرائے اعلیٰ صاحبان نے کہا کہ ہمیں قابل قبول نہیں جس پر میں نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے یہ کہا کہ اگر یہ منظور نہیں تو اگلے ایجنڈے پر آ جاتے ہیں لیکن انہوں نے بلا وجہ واک آئوٹ کر دیا، یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ پی ایس ڈی پی کو این ای سی پاس نہیں کرتی بلکہ اسے پاس کرنے کا مینڈیٹ قومی اسمبلی کے پاس ہوتا ہے اور قومی اسمبلی ہی اسے پاس بھی کرتی ہے جس طرح صوبائی بجٹ کو صوبائی اسمبلیاں پاس کرتی ہے۔

وزیراعظم سمیت مجھے یا کسی اور کو بھی کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ سندھ کی حکومت کو کہہ سکے کہ آپ کراچی میں کم پیسے خرچ کر رہے ہیں کیونکہ یہ سندھ حکومت کی مرضی ہے،اسی طرح بلوچستان اسمبلی اور خیبرپختونخوا اسمبلی بھی اپنی اپنی ترجیحات سیٹ کرتی ہیں، بالکل اسی طرح وفاقی حکومت کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی ترجیحات سیٹ کرتی ہے لیکن ہم اس سلسلے میں صوبوں سے مشورہ ضرور کرتے ہیں، ان سے بات کرتے ہیں اور ان کے منصوبے بھی ڈالتے ہیں ،اس کے بعد ہی پالیسیاں بھی بنائی جاتی ہیں تاکہ عوام کو بہتر معیار زندگی کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ اسی ضمن میں ہم نے ان سے بات کی اور انہیں بتایا کہ یہ منصوبے ہیں جبکہ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے بھی انہیں بتایا کہ 95 فیصد منصوبے تو وہی ہیں جنہیں گزشتہ سالوں میں فنڈنگ کی جاتی رہی ہے جنہیں مکمل کرنا ہے،جو نئے منصوبے ہیں وہ بھی نئے نہیں کیونکہ یہ پچھلے سال بجٹ میں بھی آ گئے تھے جن کا کسی وجہ سے پی سی ون منظور نہیں ہوا تھا، ایکنک میں منظور نہیں ہوئے تھے یا سی ڈی ڈبلیو ڈی میں منظور نہیں ہوئے تھے اس لیے کوئی بھی ایسی نئی بڑی سکیم نہیں جو ہم کر رہے ہیں اور یہی چیز ہم انہیں بتانا بھی چاہتے ہیں لیکن یہ لوگ سننے کو تیار نہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگلے سال تعمیر وطن پروگرام میں پاکستان کو 1.8 بلین ڈالر کے بیرونی قرضے کی ضرورت ہے،اس بیرونی قرضے کے حصول کے لیے جو کمٹمنٹ ہوتی ہے وہ ایک سال کی ہوتی ہے،میں انہیں 3 ماہ کی کمٹمنٹ نہیں دے سکتا اور نہ ہی انہیں یہ کہہ سکتا ہوں کہ 3 ماہ تک کی کمٹمنٹ تو ہم دیتے ہیں لیکن اس کے بعد کا ہمیں نہیں معلوم کہ ان منصوبوں کا کیا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ جو موٹر وے ہم سکھر سے ملتان بنا رہے ہیں اسے مکمل تو کرنا ہے چاہے وہ منصوبہ 2 سال پہلے کا ہی ہے جسے مکمل ہونے میں ابھی بھی ایک سال مذید لگے گا۔ اسی طرح دیامیر بھاشا ڈیم کو بھی مکمل ہونے میں ابھی 7 سال اور لگیں گے کیونکہ اس طرح کے منصوبوں کو کسی صورت بھی روکا نہیں جا سکتا، اس لیے سمجھ نہیں آتی کہ یہ لوگ کس طرح کی بات کرتے ہیں کیونکہ اگر ہم کسی کی تنخواہ میں اضافہ کر رہے ہیں تو کیا صرف 3 ماہ کے لیے اضافہ کر رہے ہیں اس کے بعد کیا یہ تنخواہ واپس ہو جائے گی۔

ایک سوال کے جواب میں مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ جس طرح وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ ہم اپنے گزشتہ منصوبوں کو ہی مکمل کر رہے ہیں بالکل اسی طرح ہم بھی پی ایس ڈی پی میں گزشتہ منصوبوں کو ہی مکمل کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مراد علی شاہ اپنے صوبے سندھ میں سالانہ پروگرام اپنے صوبے کی ترجیحات کے حساب سے کر رہے ہیں اور ہم بھی اپنے وفاق کی ترجیحات کو سامنے رکھ کے آگے بڑھ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم یہ بجٹ پاس نہیں کرتے تو ہم اپنے فرائض سے ہٹ کے کام کریں گے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ اگلے دو مہینوں کے بعد یہ اسمبلی نہیں ہو گی۔ اانہوں نے کہا کہ اس طرح کا بجٹ پیش کریں گے کہ اگر دوبارہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی تو ہم اسے جاری رکھیں گے اور اگر کوئی اور بھی حکومت آئی تو یہ بجٹ اتنا مناسب ہو گا کہ وہ بھی اسے جاری رکھ سکے گی، ہم کوئی بھی نئی چیز نہیں کر رہے۔

دریں اثناء سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے وزراء اعلیٰ نے نیشنل پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں آئندہ مالی سال کے بجٹ اور ترقیاتی پروگرام پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور وہ اس پریس کانفرنس کے ذریعے بھی قوم کو اپنے تحفظات سے آگاہ کر رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ اجلاس میں سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام پر بحث ہوئی تاہم ہماری موجودگی میں اجلاس میں پی ایس ڈی پی کو منظور نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی مدت مئی میں ختم ہو رہی ہے اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ اگلے مالی سال کیلئے موجودہ حکومت پی ایس ڈی پی نہیں بنا سکتی۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے کہا کہ اجلاس میں ہماری سفارشات نہیں مانگی گئیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ ہم نے اجلاس کے دوران یہ مؤقف اختیار کیا کہ دو تین ماہ ہیں، صرف اس کا بجٹ پیش کیا جائے اور باقی بجٹ آنے والی حکومت پر چھوڑ دیا جائے۔