پی اے سی نے اسلامی بنک فر وخت سکینڈل میں19ارب کی کرپشن کی جلد تحقیقات کیلئے چیئرمین نیب کو ہدایت کردی

اسحاق ڈار کی طرف سی162 ارب روپے کی ریلیز کی تفصیلات اور مکمل آڈٹ کرانے کا حکم کمپنیوں میں عدم شرکت پر اے جی پی آر سے وضاحت طلب جبکہ وزارت خزانہ کے جوائنٹ سیکرٹری ظہور احمد کو نالائقی اور کرپشن کی بنا پر کسی بھی اہم عہدے پر تعینات نہ کرنے کی سیکرٹری اسٹبلشمنٹ کو ہدایت،کرپشن کرکے سٹیٹ بنک نے اپنی ساکھ تباہ کردی،پی اے سی

بدھ 25 اپریل 2018 19:00

پی اے سی نے اسلامی بنک فر وخت سکینڈل میں19ارب کی کرپشن کی جلد تحقیقات ..
اسلا م آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 25 اپریل2018ء) پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کو بنک اسلامی کو ایک ہزار روپے میں فروخت سکینڈل کی جلد تحقیقات کرنے کی ہدایت کردی ہے جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسلامی بنک کی فروخت پر از خود نوٹس لیں تاکہ19 ارب روپے سکینڈل کے مجرمان کو جلد سزا دی جاسکے۔

پی اے سی نے اسحاق ڈار کی طرف سی162 ارب روپے کی تقسیم کا ریکارڈ بھی وزارت خزانہ سے طلب کرلیا ہے جبکہ سٹیٹ بنک کی کمرشل بنکوں کے معاملات نمٹانے بارے ریکارڈ کا آڈٹ کرانے کی قانونی حیثیت جانچنے کے لئے وزارت قانون وانصاف سے رائے طلب کرلی ہے۔پی اے سی کا اجلاس گزشتہ روز سید خورشید شاہ کی صدارت میں ہوا جس میں عاشق گوپانگ،راجہ جاوید اخلاص،نوید قمر،شفقت محمود،ہدایت اللہ،شاہد اختر علی،مشاہد حسین سید اور سینیٹر چوہدری تنویر نے شرکت کی،اجلاس میں وزارت خزانہ کے مالی سال2016-17ء کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔

(جاری ہے)

آڈٹ حکام نے پی اے سی اجلاس میں انکشاف کیا کہ سٹیٹ بنک آف پاکستان نے بنک اسلامی کو15 ارب روپے کا قرضہ4.7فیصد مارک اپ پر دیا جبکہ4 ارب روپے کا قرضہ0.01فیصد مارک اپ پر دیاگیا جس سے قومی خزانہ کو سالانہ44 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔اجلاس کو بتایا گیا کہ سٹیٹ بنک آف پاکستان نی2015ء میں بنک اسلامی کو ایک ہزار روپے میں(کے اے ایس بی) کساب بنک کو فروخت کیا،یہ کرپشن کا بڑا سکینڈل ہے جس کی نیب بھی تحقیقات کر رہا ہے۔

سٹیٹ بنک کے نمائندہ نے اجلاس کو بتایا کہ چار کمرشل بنکوں نے بنک اسلامی خریدنے کی دلچسپی ظاہر کی تھی جبکہ ایم سی بی نی100ملین روپے میں خریدنا چاہا لیکن سابقہ گورنر کے دور میں یہ بنک(کساب بنک) انتظامیہ کو فروخت کردیا جس سے قومی خزانہ کو19 ارب روپے کا نقصان ہوا۔پی اے سی کے بار بار استفسارکے باوجود سٹیٹ بنک کے نمائندہ نے بنک اسلامی کی انتظامیہ اور کساب بنک کے مالکان کی معلومات چھپاتے رہے جس پر پی اے سی اراکین نے شدید برہمی بھی دکھائی ،بعد میں بتایا گیا کہ بنک اسلامی کا مالک علیم حسین ہے جس کا تعلق سنگاپور سے ہے جبکہ دوسرے مالک کا تعلق بحرین سے ہے۔

سید خورشید شاہ نے کہا کہ سٹیٹ بنک نے بنک اسلامی کو ایک ہزار میں فروخت کرکے اپنی ساکھ کو شدید متاثر کیا ہے۔پی اے سی نے چیئرمین نیب کو ہدایت کی کہ وہ اس سکینڈل کی جلد تحقیقات مکمل کرکے اور اس سکینڈل کو ایک امتحان سمجھ کر مکمل کرے تاکہ قومی مجرمان کی پکڑ دھکڑ ہوسکے اور لوٹی گئی دولت واپس لائی جاسکے۔پی اے سی نے سفارش کی کہ چیف جسٹس آف پاکستان بھی اس سکینڈل کا از خود نوٹس لیں تاکہ معاملہ کی اصل تہہ تک پہنچ سکیں۔

پی اے سی نے سٹیٹ بنک سی267 ارب روپے کے فنڈز کا آڈٹ کرانے کیلئے ریکارڈ طلب کرنے سے قبل وزارت قانون سے رائے طلب کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔سیکرٹری خزانہ نے اجلاس کو بتایا کہ اسحاق ڈار دور میں 162 ارب پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر اداروں کو تقسیم کئے گئے تھے جن میں سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو102 ارب، افغانستان کی تعمیر نو کے لئے 3 ارب،غربت کے خاتمہ کے نام پر2ارب،ٹریڈ اتھارٹی کو16 ارب،یوریا کھاد کی درآمد پر25 ارب ادا کئے گئے تھے۔

پی اے سی نے 162 ارب روپے کا مکمل ریکارڈ آڈٹ حکام کو دینے اور تحقیقات کرانے کی ہدایت کردی۔وزارت خزانہ کے جوائنٹ سیکرٹری ظہور علی کی طرف سے غلط بیانی اور پارلیمنٹیرین کے ساتھ بے عزتی سے بولنے پر پی اے سی نے سیکرٹری اسٹبلشمنٹ کو افسر کیخلاف تادیبی کارروائی کرنے کی ہدایت کردی اور ہدایت کی کہ ظہور علی ایک نالائق اور کرپٹ افسر ہے اسے آئندہ کسی اہم آسامی پر تعینات نہ کیا جائے جبکہ پی اے سی نے افسران کو ہدایت کی کہ وہ عوامی نوکر بن کر کام کریں نہ کہ پارلیمنٹ کو لیکچر دیں۔

پی اے سی نے اے جی پی آر کو ہدایت کی کہ آئندہ ہفتے ادارہ کی کارکردگی اور طریقہ کار پر مکمل بریفنگ دیں۔سیکرٹری خزانہ نے اجلاس کو بتایا کہ وفاقی حکومت کے 14 لاکھ ملازمین ہیں جن میں سی6لاکھ56ہزار سویلین جبکہ7لاکھ20ہزار افواج پاکستان سے منسلک ہیں ان کی تنخواہوں اور پنشن پر بھاری بجٹ خرچ ہوتا ہے۔پی اے سی نے زیارت منصوبہ،کھپلو،کوٹلی ستیاں،خاران، بارخان،اٹھمقام،کیل،ڈھڈیال اور شاردہ میں شروع کئے گئے منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر کی وجوہات جاننے کے لئے سیکرٹری اطلاعات کو بھی طلب کرلیا ہے۔سیکرٹری خزانہ نے بتایا کہ گزشتہ مالی سال کے دوران مختلف اشیاء پر حکومت نی538 ارب روپے سے زائد سبسڈی پر خرچ کئے ہیں۔