سٹینڈرڈ چارٹر کے ’’گریٹر چائنا‘‘ خطہ کے انتظامی ماہرین کا سری لنکا، بنگلہ دیش اور پاکستان میں معلوماتی ’’روڈ شو‘‘ اور تشہیری سرگرمیوں کا انعقاد

بدھ 25 اپریل 2018 22:52

سٹینڈرڈ چارٹر کے ’’گریٹر چائنا‘‘ خطہ کے انتظامی ماہرین کا سری لنکا، ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 اپریل2018ء) سٹینڈرڈ چارٹر کے ’’گریٹر چائنا‘‘ خطہ کے انتظامی ماہرین نے سری لنکا، بنگلہ دیش اور پاکستان میں معلوماتی ’’روڈ شو‘‘ اور تشہیری سرگرمیوں کا انعقاد کیا جن کے ذریعے مملکت چین کے بین الاقوامی تجارتی اور ترقیاتی منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ (بی اینڈ آر ) میں سرمایہ کاری اور چینی زرمبادلہ کی بین الاقوامی قبولیت کے فوائد کو اجاگر کیا گیا۔

ان روڈ شوز کا مقصد یہ تھا کہ ہمارے صارفین چین کی زیر قیادت جاری ’’بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ منصوبے سے بھرپور فوائد حاصل کر سکیں کیونکہ یہ منصوبہ پاکستان اور چین کے درمیان باہمی تعاون کے بہت سے مزید مواقع بھی پیدا کر رہا ہے۔ بی اینڈ آر منصوبہ آج کے دور میں عالمگیر روابط کے فروغ کا اہم ترین اقدام ہے جس کے اہداف میں عالمی تجارت میں اضافہ اور ایشیاء سمیت مشرق وسطیٰ، افریقہ اور یورپ میں وسیع تر سرمایہ کاری شامل ہے۔

(جاری ہے)

بدھ کو سٹینڈرڈ چارٹرڈ سے جاری پریس ریلیز کے مطابق بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ کے اطراف میں واقع ممالک کے ساتھ چین کے تعلقات اور تجارت ہمیشہ سے بہت مضبوط ہے، 2014ء سے 2016ء تک ان تمام ممالک کے ساتھ چین کی تجارت کا مجموعی حجم 30 کھرب رہا اور 2017ء میں بھی یہی رفتار برقرار رہی حالانکہ عالمی تجارت کی ترقی بہت محدود رہی۔ گذشتہ چار سالوں میں بی اینڈ آر منصوبہ نے نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں اور اب اسے 100 سے زائد ممالک اور بین الاقوامی اداروں کا تعاون حاصل ہے جن میں سے 80 فیصد سے زائد ممالک نے چین کے ساتھ اشتراکی معاہدے بھی کر لئے ہیں۔

سٹینڈرڈ چارٹرڈ پاکستان کے چیف ایگزیکٹو آفیسر شہزاد دادا نے کہا کہ ہمارا بینک پاکستان اور چین میں گذشتہ 150 سال سے مصروف عمل ہے، ان دونوں ممالک میں ہمارے طویل اور گہرے روابط موجود ہیں جبکہ بی اینڈ آر کے اطراف میں واقع 70 فیصد ممالک میں بھی ہمارا بینک سرگرم عمل ہے۔ سٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک (چائنا) لمیٹڈ میں منیجنگ ڈائریکٹر اور ہیڈ آف گلوبل بینکنگ جین لو نے کہا کہ بیلٹ اینڈ روڈ کے اطراف میں موجود تمام ممالک اس وسیع ترین منصوبہ سے بے پناہ فوائد حاصل کریں گے جس سے عالمی سطح پر تیز ترین اقتصادی و سماجی ترقی ممکن ہو گی۔ پاکستان سمیت بہت سے ممالک کو جدید بنیادی ڈھانچہ کی ضرورت ہے۔