بجٹ کو بحث ،حتمی منظوری کیلئے قومی اسمبلی میں پیش کرنے سے قبل ابہامات ،

خامیاں دور کی جائیں ‘ لاہور چیمبر آف کامرس وفاقی بجٹ میں ٹیکس چھوٹ کی حد میں اضافے، اہم خام مال پر ریگولیٹری ڈیوٹی کے خاتمے، پانی و بجلی کے منصوبوں کے لیے فنڈز، ترقیاتی بجٹ میں اضافے ، زراعت اور لائیوسٹاک کے شعبوں کے لیے فنڈز اور پنشن میں اضافے سمیت دیگر اچھے اقدامات اٹھائے گئے ہیں

جمعہ 27 اپریل 2018 21:53

بجٹ کو بحث ،حتمی منظوری کیلئے قومی اسمبلی میں پیش کرنے سے قبل ابہامات ..
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 اپریل2018ء) لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے وفاقی بجٹ 2018-19 پر ملے جلے ردّ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب یہ بجٹ بحث اور حتمی منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے تو اس میں موجودابہامات اور خامیاں دور کی جائیں تاکہ اسے حقیقی معنوںمعاشی بحالی کا پلان بنایا جاسکے۔ بجٹ تقریر کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے لاہور چیمبر کے صدر ملک طاہر جاوید نے کہا کہ وفاقی بجٹ میں ٹیکس چھوٹ کی حد میں اضافے، اہم خام مال پر ریگولیٹری ڈیوٹی کے خاتمے، پانی و بجلی کے منصوبوں کے لیے فنڈز، ترقیاتی بجٹ میں اضافے ، زراعت اور لائیوسٹاک کے شعبوں کے لیے فنڈز اور پنشن میں اضافے سمیت دیگر اچھے اقدامات اٹھائے گئے ہیں لیکن کافی ایسے معاملات ہیں جنہیں قومی اسمبلی کی جانب سے درستگی کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

لاہور چیمبر کے سینئر نائب صدر خواجہ خاور رشید، نائب صدر ذیشان خلیل، سابق عہدیداروں اور ایگزیکٹو کمیٹی اراکین نے بھی اس موقع پر خطاب کیا۔ ملک طاہر جاوید نے کہا کہ ریفنڈز کلیم کی ادائیگی کا اعلان مستحسن مگر اس پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے لیے 3935ارب کی محاصل وصولی تاجروں کی بدولت ہوئی، اگلے سال 4435ارب روپے کا ہدف حاصل کرنے کے لیے غیرمعمولی اقدامات اٹھانے اور ٹیکس گزاروں کو سہولیات دینا جبکہ ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرنا ہوگا۔

انہوں نے کمپوزٹ آڈٹ اور ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے پیکیج کا بھی خیر مقدم کیا۔ انہوں نے کہا کہ حسب سابق یہ بھی خسارے کا بجٹ ہے مگر یہ نہیں ذکر کیا گیا کہ اس مسئلے سے کیسے نمٹا جائے گا، ڈیبٹ سروسنگ کے لیے پہلے ہی سولہ سو ارب روپے سے زائد کی بھاری رقم رکھی گئی ہے، اگر خسارے پر قابو پانے کے لیے مزید قرضے لیے جاتے ہیں تو معاشی صورتحال بہت خراب ہوجائے گی، قرضے لینے کے بجائے معاشی نشوونما حکومت کی ترجیح ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ بینک ٹرانزیکشن پر ودہولڈنگ ٹیکس کا خاتمہ کاروباری برادری کا دیرینہ مطالبہ تھا جسے نظر اندازکردیا گیا، یہ غیر منصفانہ ٹیکس ہر صورت ختم ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی بجٹ میں کالاباغ ڈیم کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے جس کا مطلب ہے کہ مستقبل قریب میں پانی کا کوئی بڑا ذخیرہ تعمیر نہیں ہوپائے گا جس سے زرعی شعبے اور مینوفیکچرنگ سیکٹر سب کو نقصان ہوگااور انہیں پانی و سستی بجلی کی قلت کا سامنا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ابھی بھی وقت ہے کیونکہ بجٹ بحث و منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں پیش ہونا ہے لہذا اس میں موجود ابہامات اور خامیاں دور کرکے اسے معاشی بحالی کا جامع منصوبہ بنایاجائے۔