مالی سال 2018-19 کیلئے 5661 ارب روپے سے زائد مجموعی حجم کاٹیکس فری وفاقی بجٹ پیش

متعدد اشیاء پر ٹیکسوں میں چھو ٹ وکمی ،خسارہ 18کھرب 90 ارب روپے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اورپنشن میں 10فیصد،ہائوس رینٹ الائونس میں50 فیصد اضافہ ،پنشن کی کم سے کم حد 10ہزار ، فیملی پنشن 7500 روپے کردی گئی،سگریٹ مہنگے،زراعت، ڈیری اور پولٹری، کھادیں ،نظر کی عینکیں سستی نان فائلرز پر پھر ٹیکس کی بجلی گرادی گئی ، 40 لاکھ روپے سے زائد مالیت کی جائیداد خریدنے کی اجازت نہیں ہوگی،4 لاکھ سے 8 لاکھ آمدن پر ایک ہزار روپے،8 لاکھ سے 12 لاکھ آمدن پر 2 ہزار روپے برائے نام انکم ٹیکس عائد ، ایل این جی کی درآمد پر 3 فیصد ویلیو ایڈیشن ٹیکس ختم ، ایل این جی کی درآمد، آرایل این جی کی سپلائی پر17 فیصد سیلزٹیکس کم ،قرآن پاک کی طباعت میں استعمال کاغذ پر سیلز ٹیکس اورکسٹم ڈیوٹی میں چھوٹ،الیکٹرک گاڑیوں پر کسٹم میں کمی دفاع کیلئے 1100 ارب روپے،بنیادی صحت کے لئی37 ارب اور ہائیر ایجوکیشن کے لیے 57 ارب روپے مختص ، ترقیاتی پروگرام کا حجم ایک ہزار 152 ارب اورایک کروڑ روپے ہوگا حکومت کو تباہ شدہ معیشت ورثے میں ملی تھی، ملک میں سرمایہ کاری اور ترقی کم تھی، گزشتہ حکومت کے پانچ سالہ دور میں ترقیاتی اخراجات میں 230 فیصد اضافہ کیا گیا ، حکومت نے مالیاتی خسارہ 5.5 فی صد تک محدود رکھا ، ترقی کی شرح نمومیں مسلسل اضافہ ہوا۔ یہ بجٹ عوام کی امنگوں کا عکاس ہے،وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا وفاقی بجٹ 2018-19 قومی اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے خطاب

جمعہ 27 اپریل 2018 22:38

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 27 اپریل2018ء) وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال 2018-19کا 5 ہزار 661 ارب روپی سے زائد کا مجموعی حجم کا 18 کھرب 90 ارب روپے کے خسارے کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا جس کے تحت دفاع کیلئے 1100 ارب روپے،بنیادی صحت کے لیے 37 ارب اور ہائیر ایجوکیشن کے لیے 57 ارب روپے مختص کردیئے گئے ، ترقیاتی پروگرام کا حجم ایک ہزار 152 ارب اورایک کروڑ روپے ہوگا ،سول ،فوجی ملازمین کی تنخواہ میں 10 فیصد ایڈہاک ریلیف الائونس جبکہ تمام پنشنرز کے لئے 10 فیصد،ہائوس رینٹ الائونس میں50 فیصد اضافہ کردیا گیا ، پنشن کی کم سے کم حد 6000 سے بڑھا کر10ہزار روپے ، فیملی پنشن کو 4500 روپے سے بڑھا کر 7500 اور 75 سال سے زائد عمر کے پنشنرز کے کیلئے کم از کم پنشن 15 ہزار روپے مقرر کردی گئی ،، نان فائلرکمپنی پرود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح 7 فیصد سے بڑھا کر 8 فیصد ، 4 لاکھ سے 8 لاکھ آمدن پر ایک ہزار روپے انکم ٹیکس عائد ہوگا، 8 لاکھ سے 12 لاکھ آمدن پر 2 ہزار روپے برائے نام انکم ٹیکس عائد ہوگا، نان فائلرزکو40 لاکھ روپے سے زائد مالیت کی جائیداد خریدنے کی اجازت نہیں ہوگی، ایل این جی کی درآمد پر 3 فیصد ویلیو ایڈیشن ٹیکس ختم ، ایل این جی کی درآمد، آرایل این جی کی سپلائی پر17 فیصد سیلزٹیکس کم کردیا گیا ،سگریٹ کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ، ہر قسم کی کھادوں پر سیلز ٹیکس کی شرح 3 فیصد تک کم ،قرآن پاک کی طباعت میں استعمال ہونے والے کاغذ پر سیلز ٹیکس اورکسٹم ڈیوٹی میں چھوٹ،الیکٹرک گاڑیوں پر کسٹم میں کمی،نظر کی عینکیں سستی ،زراعت، ڈیری اور پولٹری کے شعبوں میں کسٹم ڈیوٹی میں 5فیصد کمی ،فلم کے منصوبوں پر 5سال تک انکم ٹیکس پر50 فیصد چھوٹ دیدی گئی ۔

(جاری ہے)

جبکہ وزیر خزانہ نے کہا کہ بجٹ کی منظوری کے بغیر حکومت ایک قدم بھی نہیں چل سکتی۔ حکومت کو تباہ شدہ معیشت ورثے میں ملی تھی، ملک میں سرمایہ کاری اور ترقی کم تھی، گزشتہ حکومت کے پانچ سالہ دور میں ترقیاتی اخراجات میں 230 فیصد اضافہ کیا گیا۔ حکومت نے مالیاتی خسارہ 5.5 فی صد تک محدود رکھا ہے جب کہ ترقی کی شرح نمومیں مسلسل اضافہ ہوا۔ یہ بجٹ عوام کی امنگوں کا عکاس ہے۔

جمعہ کو یہاں قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 2018-19کا وفاقی بجٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہاکہ ہوئے کہا کہ میں آج مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا 6واں بجٹ پیش کر رہا ہوں، پاکستانی قوم اور پارلیمنٹ کیلئے یہ ایک تاریخی لمحہ ہے، باوجود مشکلات کے ہماری حکومت نے 13سال کی بلند ترین شرح نمو، کم ترین افراط زر اور معاشی استحکام حاصل کیا، پوری قوم اور پارلیمنٹ مبارکباد کی مستحق ہے، نئے مالی سال کا بجٹ پیش کرنا اس حکومت کا مقدس فریضہ ہے، پارلیمنٹ پر لازم ہے کہ اپنی مدت کے خاتمے سے پہلے بجٹ پر بحث کرے اور پاس کرے، بجٹ کی منظوری کے بغیر حکومت ایک دن بھی نہیں چل سکتی، وفاقی بجٹ کی منظوری اس لئے بھی لازم ہے کہ وفاقی محصولات کے سالانہ تخمینے کے بغیر صوبائی حکومتیں اپنا بجٹ نہیں بنا سکتیں اور نہ ہی اپنا نظم و نسق چلا سکتی ہیں، بجٹ کا پاس ہونا حکومتی مشینری کے تسلسل اور اقتصادی استحکام کو یقینی بننے کیلئے ضروری ہے،پیش کیا جانے والا بجٹ میاں نواز شریف کے وژن کا عکاس ہے، یہ بجٹ پاکستانی قوم کی امنگوں کا بھی عکاس ہے جس کی اکثریت نے 2013میں نواز شریف کو وزیراعظم منتخب کیا تھا، آج ہم اس ایوان میں ان کی کمی محسوس کر رہے ہیں،2013میں ہمیں ایک تباہ شدہ معیشت ورثے میں ملی، ترقی اور سرمایہ کاری کم جبکہ افراط زر اور مالی خسارہ زیادہ تھے، ہمارے فوریکس ریزرو تاریخ کی کم ترین سطح پر تھے اور بین الاقوامی سطح پر ہم دیوالیہ ہونے کے قریب تھے۔

انہوں نے کہا کہ کیا ہمیں شاد ہے کہ 2008 سے 2013 کے دوران مہنگائی کی اوسط شرح 12فیصد اور جی ڈی پی میں اضافہ کی شرح صرف 2.8فیصد تھی، ملک توانائی کے شدید بحران کا شکار تھا، شہری اور دیہاتی علاقوں میں 12 سے 18گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی تھی، ملک میں بڑے پیمانے پر کارخانے بند ہو رہے تھے اور بے روزگاری اور مایوسی پھیلی ہوئی تھی، میرے کسان بھائیوں کے پاس ٹیوب ویل چلانے کیلئے بجلی نہ تھی اور شہروں میں میری مائوں اور بہنوں کو چولہا جلانے اور اپنے بچوں کے لئے کھانا پکانے کیلئے گیس دستیاب نہیں تھی، ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا، اور شہری اپنے گھر میں بھی محفوظ نہیں تھے، بدعنوانی اور خراب حکمرانی عام تھی، چاروں اطراف اداسی تھی اور قوم کا مورال پست تھا۔

انہوں نے کہا کہ 2013میں ہم دیوالیہ ہونے کے قریب تھے، مسلم لیگ (ن) نے معیشت کی بہتری کیلئے اقدامات کئے، آئندہ آنے والی حکومت کو یہ اختیار ہو گا کہ وہ بجٹ میں تبدیلیاں کر سکیں، ہماری معاشی ترقی کی شرح 5.8فیصد پر پہنچ چکی ہے، زرعی شعبہ میں ترقی کی شرح 3.58فیصد تک پہنچ چکی ہے، معاشی ترقی کی شرح 13برس کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، مجموعی ترقی کی شرح 5.4فیصد رہی، کسانوں کو مراعات دی گئیں، لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کیا، مالی خسارہ 5.5 فیصد تک محدود ہے، معیشت کا حجم 34ہزار ارب روپے تک پہنچ چکا ہے، ٹیکس وصولیوں کا ہدف 3935ارب روپے رکھا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ افراط زر کی شرح 3.8فیصد ہے جبکہ اشیاء خوردونوش پر 2 فیصد رہی، طویل مدتی قرضوں پر سود کی شرح 11فیصد سے کم ہو کر 5 یا 6 فیصد رہ گئی ہے، سی پیک کے تحت مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری ہو رہی ہے، آج ہم دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت ہیں، پانچ سال میں ٹیکس وصولیوں میں 2ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا، زرعی شعبہ کو 800ارب روپے کے قرضے دے رہے ہیں، گزشتہ ماہ برآمدات میں 24فیصد اضافہ دیکھا گیا، معاشی اصلاحات کے نتیجے میں اسٹاک مارکیٹ کا سرمایہ 100 ارب ڈالر ہو گیا،12لاکھ سالانہ آمدن والے ٹیکس سے مستثنیٰ ہوں گے، افراط زر کی شرح 6فیصد سے کم رکھنے کا ہدف ہے، بی آئی ایس پی کیلئے 125ارب روپے مختص کئے گئے، ٹیکس وصولیوں کیلئے 4435ارب روپے رکھے گئے ہیں، وزیراعظم یوتھ پروگرام کیلئے 10 ارب روپے رکھے گئے ہیں، سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام کیلئے 800 ارب روپے رکھے گئے ہیں، بجٹ خسارہ 4.9 فیصد تک لانے کا ہدف ہے، زرعی مشینری پر جی ایس ٹی 7فیصد سے کم ہو کر 5فیصد کر دی گئی ہے، اقتصادی سرح نمو کا ہدف 6.2فیصد مقرر کیا گیا ہے۔

مفتاح اسماعیل نے کہا کہ این ایف سی کے تحت صوبوں کو 2500ارب روپے منتخب کئے گئے ہیں، کھاد پر جی ایس ٹی 2فیصد تک لا رہے ہیں، کھاد پر سیلز ٹیکس کی شرح 3فیصد کم کی گئی ہے۔ زرعی شعبہ ہماری معیشت میں اہم بنیاد ہے، حالیہ سال زرعی شعبہ میں ترقی کی شرح 3.8فیصد رہی جو کہ گزشتہ 18سالوں کی بلند ترین شرح ہے، تمام بڑی فصلوں بشمول کپاس، چاول اور گنا کی پیداوار میں واضح اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، یہ بہتری حکومت کے گزشتہ پانچ بجٹ میں درست اور مناسب فیصلوں کی بدولت آئی، اس کے علاوہ سال 2015-16 میں میاں نواز شریف نے خصوصی کسان پیکج کا اعلان کیا تھا، اس پیکج کے تحت کھادوں اور زرعی ادویات کی قیمتیں کم کی گئی تھیں اور زرعی قرضوں کی لاگت میں کمی اور چاول اور کپاس کے کاشتکاروں کی مالی مدد کی گئی تھی۔

صنعتی شعبہ بارے وزیر خزانہ نے کہا کہ صنعتی پیداوار میں اس سال 5.8فیصد اضافہ ہوا ہے، ترقی میں اضافے کی شرح پچھلے دس سالوں میں سب سے زیادہ ہے، صنعتی شعبہ میں یہ ترقی تاریخ کی کم ترین شرح سود اور کئی سالوں کی لوڈشیڈنگ اور اندھیروں کے خاتمے اور بجلی اور گیس کی متواتر فراہمی سے ممکن ہوئی ہے، آج صحت مند صنعتی شعبہ روزگار کے لاکھوں اضافی مواقع فراہم کر رہا ہے۔

خدمات کے حوالے سے وزیر خزانہ نے کہا کہ سروسز یعنی خدمات میں بینکنگ ٹرانسپورٹیشن اور ریٹیل وغیرہ کے شعبے شامل ہیں، اس سال اس شعبے میں ترقی کی شرح 6.4فیصد رہی ہے، اب آپ کو یہ جان کر حیرت نہیں ہو گی کہ یہ بھی اس دہائی کی بہترین کارکردگی ہے۔ انہوں نے افراط زر کے حوالے سے کہا کہ افراد زر پاکستان کے غریب لوگوں پر سب سے بڑا ٹیکس ہے، الحمداللہ ہم نے گزشتہ پانچ برس میں اوسط افراط زر 5فیصد سے کم رکھی ہے جو کہ 2008-13 میں 12فیصد تھی، موجودہ مالی سال میں مارچ 2018 تک افراط زر کی شرح 3.8فیصد رہی اور اشیائے خوردونوش کیلئے یہ شرح صرف 2فیصد تھی، ہمارے ان پانچ سال میں قیمتوں میں جو استحکام رہا اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔

وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے مالیاتی خسارے بارے بتایا کہ سال 2013 میں مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 8.2فیصد تھا، ہماری حکومت نے معیشت کے استحکام کیلئے فزیکل ڈسپلن پر سختی سے عمل کیا جس کی بدولت انشاء اللہ اس سال مالیاتی خسارہ 5.5فیصد تک محدود رکھا جائے گا، ہم نے حکومتی وسائل عوام کی امانت سمجھ کر صرف عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کئے۔ انہوں نے ایف بی آر کے محاصل بارے بتایا کہ مالی سال 2012-13 میں ایف بی آر نے 1946ارب روپے ٹیکس اکٹھا کیا تھا جبکہ اس سال ایف بی آر کی وصولیوں کا ہدف 3935ارب روپے ہے جو کہ پانچ سال پہلے کے مقابلے میں دگنا اضافہ ہے، ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب مالی سال 2012-13 میں 10.1فیصد تھا، رواں مالی سال میں یہ تناسب بڑھ کر 13.2فیصد ہو جائے گا، گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ٹیکس وصولیوں میں یہ غیر معمولی اضافہ بہت بڑی کامیابی ہے، اس کامیابی پر میں پاکستان کے ٹیکس دہندگان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔

اسٹیٹ بینک پالیسی بارے وزیر خزانہ نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک کا پالیسی ریٹ جون 2013 میں 9.5فیصد تھا جو کم ہو کر 2017میں 5.75فیصد ہو گیا جو پچھلی کئی دہائیوں کی کم ترین شرح ہے، ایکسپورٹ ری فنانس کا ریٹ جون 2013 میں 9.5فیصد تھا جو کہ جون 2016میں کم ہو کر 3فیصد ہو گیا، لانگ ٹرم فنانس فیزیلٹی پر شرح سود 11.4فیصد سے کم کر کے پانچ سے چھ فیصد کی گئی ہے، تاریخ کی کم ترین شرح سود کی بدولت کاروبار اور صنعت میں ترقی آئی ہے اور روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔

انہوں نے ایگریکلچر کریڈٹ بارے بتایا کہ پانچ سال پہلے زرعی شعبے کو قرضوں کی فراہمی 336ارب روپے تھی جو کہ فروری2018میں 570 ارب ہو چکی ہے جبکہ جون 2018کے آخر تک قرضوں کی فراہمی 800ارب تک متوقع ہے، زرعی قرضوں پر شرح سود میں بھی کافی حد تک کمی کی گئی ہے۔ انہوں نے کریڈٹ ٹو پرائیویٹ سیکٹر بارے بتایا کہ نجی شعبے کے قرضوں میں 383فیصد اضافہ ہوا جو 2013میں 93ارب روپے سے بڑھ کر 2018 تک 441ارب روپے تک جا پہنچے ہیں۔

برآمدات کے حوالے سے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بجٹ تقریر میں بتایا کہ اندرونی اور بیرونی وجوہات کی بناء پر برآمدات کا شعبہ دبائو کا شکار رہا، حکومت کی مسلسل کوششوں، 180 ارب روپے کے ایکسپورٹ پیکج اور ایکسچینج ریٹ ایڈجسٹمنٹ کی بدولت حالیہ سال کے پہلے 9 ماہ میں برآمدات میں 13فیصد اضافہ ہوا ہے اور صرف مارچ کے مہینے میں شپمنٹ بیسز پر برآمدات میں 24فیصد اضافہ ہوا ہے، ہم توقع کرتے ہیں کہ یہ بہتری جاری رہے گی۔

درآمدات کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ اس سال جولائی سے مارچ کے دوران درآمدات میں گزشتہ سال کی اس مدت کے مقابلے میں 17فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، درآمدات میں یہ غیر معمولی اضافہ مشینری کی درآمد، صنعتی خام مال اور پٹرولیم مصنوعات میں اضافے کے باعث ہوا ہے، مستقبل میں ان درآمدات کی بدولت ملک کی پیداواری صلاحیت میں بہتری متوقع ہے، جس سے برآمدات میں اضافہ ہو گا، اس سال سی پیک کے کئی منصوبوں کی تکمیل کی بدولت جون 2018کے بعد درآمدات میں واضح کمی متوقع ہے، اس کے علاوہ روپے کی قدر میں ردوبدل بھی درآمدات کی رفتار میں کمی متوقع ہے۔

کرنٹ اکائونٹ کے حوالے سے بجٹ تقریر میں کہا گیا کہ حالیہ مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں پروڈیکٹو درآمدات میں اضافے کی بدولت جاری کھاتوں کا خسارہ 12ارب ڈالر تک بڑھ گیا ہے، حکومت نے اس خسارے کو پورا کرنے کیلئے تمام ضروری اقدامات کرلئے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ 30 جون 2018 کو فارن ایکسچینج ریزروزموجودہ سطح سے بلند ہوں گے۔ بیرونی سرمایہ کاری کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ بیرونی سرمایہ کاری 2013 کے 1.3 ارب ڈالر سے بڑھ کر 2017 میں 2.7 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے، حالیہ سال کے پہلے 9 ماہ میں بیرونی سرمایہ کاری پچھلے سال کے اسی عرصے کے 1.9 ارب ڈالر کے مقابلے میں 2.1 ارب ڈالر رہی، بڑھتی ہوئی بیرونی سرمایہ کاری، سرمایہ کار کے اعتماد کا مظہر ہے۔

ترسیلات کے حوالے سے وزیر خزانہ نے بتایا کہ 2013 میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی گئی ترسیلات 13.9ارب ڈالر تھیں جو کہ مالی سال 2016-17میں 19.3ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں، ہم توقع کر رہے ہیں کہ سال کے اختتام تک ترسیلات 20ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گی جو کہ پاکستان کی تاریخ میں ریکارڈ ہو گا۔ فارن ایکسچینج ریزروزکے حوالے سے بجٹ تقاریر میں بتایا گیا کہ جب ہم نے حکومت سنبھالی تو ریورس 6.3 ارب ڈالر کی حد تک گر چکے تھے،اکتوبر 2016تک یہ ریزروزبڑھ کر 19.4 ارب ڈالر تک آ گئے، تاہم تجارتی خسارے کا ریزروز پر منفی اثر پڑا، اس وقت ایف بیپی کے ریزروز11ارب ڈالر کے قریب ہیں، حکومت ریزروزکو مناسب سطح پر رکھنے کیلئے ضروری اقدامات کررہی ہے۔

پاکستان سٹاک ایکسچینج کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ پاکستان سٹاک ایکسچینج مئی 2013 میں 19ہزار کی سطح پر تھی جبکہ موجودہ حکومت کی بہتر معاشی اصلاحات کی بدولت انڈکس مئی 2017 میں تاریخ کی بلند ترین سطح پر 53,124 پر پہنچ گیا، مارکیٹ کیپیٹلائزیشن تقریباً 100 ارب ڈالر تک پہنچ گئی، مگر پھر سیاسی ہلچل کی وجہ سے دسمبر 2017 تک انڈکس 37,919 تک گر گیا، تاہم اس کے بعد انڈکس بہتر ہو کر اب تقریباً 46 ہزار پوائنٹس تک آ گیا ہے۔

نئی کمپنیوں کی رجسٹریشن کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس سال مارچ 2018 تک 8349 نئی کمپنیاں رجسٹر کی گئیں جبکہ پچھلے سال یہ تعداد 5,883 تھی، پچھلے پانچ سالوں میں 33,285 نئی کمپنیاں رجسٹر کی گئیں ، اس کے مقابلے میں 2008-13 تک صرف 17,079کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئیں، نئی کمپنیوں کی رجسٹریشن میں اس قدر اضافہ بہتر کاروباری ترقی کی نشاندہی کرتا ہے۔ سرمایہ کاری میں اضافے کے حوالے سے بتایا گیا کہ بہتر طرز حکومت، کاروبار دوست پالیسیوں اور سیکیورٹی حالات میں بہتری کی وجہ سے سرمایہ کار پاکستان کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں، سی پیک کے تحت اہم شعبوں بشمول توانائی، انفراسٹرکچر، مواصلات، ٹیلی مواصلات، ٹیکسٹائل اور تعمیراتی شعبوں میں وسیع سرمایہ کاری ہو رہی ہے، اس سرمایہ کاری کی بدولت توانائی اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں بہتری کی وجہ سے معیشت کی برق رفتار ترقی ممکن ہوئی ہے، اندرونی اور بیرونی ذرائع سے پچھلے پانچ سال کے عرصہ میں معیشت 223 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی ہے، جبکہ 2008 سے 2013 کے دوران صرف 140 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی۔

وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے توانائی کے شعبے میں پیش رفت بارے بتایا کہ پانچ سال پہلے ہمارے شہروں اور دیہات میں بجلی 16 سے 18 گھنٹے غائب رہتی تھی ، ہم نے الیکشن 2013 میں سب سے بڑا وعدہ یہی کیا تھا کہ ہم بجلی کا بحران ختم کر دیں گے، پاکستان کی تاریخ کے پہلے 66 برسوں میں 20ہزار میگاواٹ کی پیداواری صلاحیت حاصل کی گئی جبکہ پچھلے پانچ سال کے مختصر دور میں 12230 میگاواٹ کا اضافہ ہوا ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ معاشی ترقی کی رفتار مزید تیز کرنے کیلئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے حال ہی میں 5 نکاتی معاشی ریفارمز پیکج کا اعلان کیا ہے جس کے ذریعے پاکستان کی تاریخ میں ٹیکس کی سب سے بڑی کمی کی گئی ہے، اس پیکج میں کی گائی چیدہ چیدہ اصلاحات یہ ہیں کہ انفرادی ٹیکس کی شرح کو کم کیا گیا ہے، بارہ لاکھ روپے سالانہ آمدن یا ایک لاکھ ماہانہ آمدن والے افراد کیلئے ٹیکس سے مکمل استثنیٰ کا اعلان کیا گیا ہے جو کہ پچھلی حد سے تین گنا ہے، ایک لاکھ سے دو لاکھ ماہانہ آمدن والے افراد پر صرف پانچ فیصد ٹیکس لاگو ہو گا، دو سالکھ سے چار لاکھ ماہانہ آمدن والے افراد ٹیکس کی شرح 10 فیصد ہو گی، چار لاکھ ماہانہ سے زیادہ آمدن والے افراد پر ٹیکس کی شرح 15فیصد ہو گی، پاکستان میں ٹیکس کا سب سے زیادہ بوجھ متوسط اور تنخواہ دار طبقہ پر تھا جن میں اساتذہ، ڈاکٹرز، وکلاء، نرسیں اور اکائونٹنٹس وغیرہ شامل ہیں، لیکن ریٹ میں کمی سے سب سے زیادہ فائدہ اسی طبقے کو ہو گا۔

وہ لوگ جن کی آمدنی قابل ٹیکس ہے اور وہ اپنے حصے کا ٹیکس ادا نہیں کر رہے حکومت ان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے ڈیٹا انٹری کے ذریعے نئے اقدامات کر رہی ہے، حکومت اب ٹیکس ادا کرنے کی صلاحیت رکھنے والوں کے مالی ریکارڈ کی نگرانی کرے گی اور ٹیکس چوری کی شہادت ملنے کی صورت میں ان کو نوٹس جاری کرے گی۔ اب جبکہ ٹیکس ریٹ اتنے کم کر دیئے گئے ہیں اور ڈیٹا انٹری کے ذریعے اثاثہ جات کی تلاش شروع کر دی گئی ہے ہم لوگوں کو اندرونی ملک غیر اعلانیہ اثاثے ڈکلیئر کرنے کا آخری موقع دے رہے ہیں، 30جون 2017 سے پہلے کمائی گئی غیر اعلانیہ آمدنی اور اندرون ملک اثاثے (سونا، بانڈ، جائیداد وغیرہ) پانچ فیصد ادائیگی کے بعد ریگولرائزڈ کئے جا سکتے ہیں، غیر اعلانیہ رقم سے ڈالر خریدنے والے ڈالر اکائونٹ ہولڈرز 2فیصد ادائیگی سے انہیں ریگولرائزڈ کر سکتے ہیں۔

آزاد معیشت اور بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کیلئے 1992 میں پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ بنایا گیا، اس سہولت کے تحت زر مبادلہ کی اندرون اور بیرون ملک نقل و حرکت پر کوئی پوچھ گچھ نہیں تھی، تاہم کالے دھن کو سفید کرنے کیلئے اس سہولت سے کچھ عناصر نے ناجائز فائدہ اٹھایا، ہم نے قانون میں اس گنجائش کو تبدیل کیا ہے اور اب صرف فائلرز ہی فارن کرنسی اکائونٹس میں رقوم جمع کرواسکیں گے، تاہم ایک شخص کیلئے ایک لاکھ ڈالر سالانہ تک زر مبادلہ ملک میں لانے پر آمدنی کے ذرائع پر کوئی سوال نہیں کیا جائے گا اور ٹیکس سے استثنیٰ ہو گی، تاہم ایک لاکھ سے ہم لوگوں کو یہ سہولت دے رہے ہیں کہ وہ اپنے غیر ظاہر شدہ غیر ملکی اثاثہ جات تین فیصد کی ادائیگی پر ڈکلیئر کر دیں اور اپنے لکویڈ ایسٹس کو پانچ فیصد پر ڈکلیئر کر دیں۔

زمین اور جائیداد کی انڈر ڈکلیریشن کو روکنے کیلئے ریاست کو اختیار ہو گا کہ وہ رجسٹری کے چھ ماہ کے اندر کوئی بھی زمین جائیداد کی اعلان کردہ قیمت سے دگنی قیمت پر خرید سکے۔ اس کے علاوہ نان فائلر40لاکھ سے زائد قیمت کی جائیداد نہیں خرید سکیں گے، یکم جولائی 2018 سے ایف بی آر کے پراپرٹی ریٹ ختم کئے جا رہے ہیں، صوبوں ک ڈی سی ریٹس ختم کرنے کی بھی تجویز کر دی گئی ہے، فائلر کے لئے جائیداد کی خرید پر ٹیکس صرف ایک فیصد ہو گا، یہ ایک تاریخی اقدام ہے جس سے معیشت کی ڈاکومنٹیشن میں مدد ملے گی۔

انہوں نے بجٹ اسٹریٹیجی کے حوالے سے بتایا کہ اس سال کے بجٹ سٹرٹیجی کے کچھ اہم اہداف یہ ہیں جی ڈی پی کی شرح میں 6.2فیصد اضافہ، 6فیصد سے کم افراط زر، ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 13.8فیصد، بجٹ خسارہ کی شرح 4.9فیصد، نیٹ پبلک ڈیبٹ ٹو جی ڈی پی کو 63.2فیصد تک رکھنا، زر مبادلہ کے ذخائر 15 ارب ڈلار اور سوشل سیفٹی کے اقدامات کو جاری رکھنا شامل ہیں۔ میڈیم ٹرم میکرو اکنامک پالیسی بارے انہوں نے بتایا کہ اس کا مقصد بہتر اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ ایکسٹرنل اکائونٹ کے عدم توازن کو درست کرنا ہے، اگلے تین سالوں میں مالیاتی خسارہ کم کیا جائے گا، مانیٹری پالیسی پر محتاط نگاہ رکھی جائے گی اور سرمایہ کاری کے ماحول کو بہتر بنانے، برآمدات کے فروغ، مالی استحکام، پی ایس ای ایف اور توانائی کے شعبوں میں اگلے درجے کی اصلاحات کا آغاز ہو گا، پی ایس ای ایس کا خسارہ کم کرنا اور ٹیکس بیس کو وسعت دینا ہماری ترجیحات ہونی چاہئیں۔

ان مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے بجٹ حکمت عملی پیش کی جا رہی ہے، ایف بی آر ٹیکس آمدنی کا ہدف 4,435ارب روپے مقرر کیا گیا ہے، یہ ہدف بہتر ٹیکس اور بہتر ٹیکس ایڈمنسٹریشن کے ذریعے حاصل کیا جائے گا، ٹیکس بیس میں اضافہ اور ٹیکس کی شرح میں کمی کی جا رہی ہے۔ حکومت سماجی تحفظ خاص طور پر بی آئی ایس پی میں سرمایہ کاری جاری رکھے گی اور ٹارگٹڈ سبسڈی سکیم کے تحت سماج کے پسماندہ طبقے کیلئے اقدامات جاری رکھے گی، بی آئی ایس پی کیلئے 125 ارب روپے کی تجویز ہے جبکہ سبسڈی کی مد میں 179ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔

وزیراعظم کی یوتھ سکیم جاری ہے اس مقصد کیلئے دس ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ پی ایس ڈی پی کیلئے بجٹ میں 800 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے جبکہ 230 ارب روپے اضافی رقم خود مختار اداروں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اور دیگر ذرائع سے مہیا کی جائے گی، پانی، سڑکوں، بنیادی ڈھانچے، بجلی کے شعبے اور سی پیک میں سرمایہ کاری کو یقینی بنایا جائے گا۔ سیونتھ این ایف سی ایوارڈ کے بعد وفاقی حکومت کی مالیاتی گنجائش میں دس اور گیارہ فیصد کمی آئی ہے تاہم وفاقی حکومت کی مالیاتی ذمہ داریاں کم نہ ہو سکیں، سیونتھ این ایف سی ایوارڈ کے نتیجے میں آٹھ سالوں میں صوبوں کو اضافی 2500 ارب روپے منتخب ہوئے ہیں، اس دوران وفاقی حکومت کو خصوصی سیکیورٹی اور ٹی ڈی پی ایس کیلئے خطیر رقم مختص کرنا پڑی۔

زراعت کے شعبے کے حوالے سے وزیر خزانہ نے بتایا کہ مضبوط زرعی شعبہ معیشت کی بہتری کا ضامن ہوتا ہے، پاکستان کو زرعی پیداوار میں اضافے، زرعی ٹیکنالوجی، تحقیق و ترقی اور کھیتی باڑی میں بدلتے رجحانات میں بہتری کیلئے دوبارہ ایک سیکنڈ گرین ریولیوشن کی ضرورت ہے۔ جب تک سبسڈی کی روایت کو ختم کر کے منڈیوں کی ضرورت پر مبنی پالیسی سازی نہ کی گئی تب تک زرعی شعبے میں مثبت تبدیلی ممکننہیں، لہٰذا آئندہ کیلئے وفاقی حکومت سبسڈی کے حوالے سے تمام فیصلے صوبائی حکومتوں پر چھوٹی ہے جبکہ وفاقی حکومت کی توجہ اب تحقیق و ترقی کیلئے سازگار ماحول مہیا کرنے، پیداوار میں اضافے، منڈیوں تک رسائی ، انتظامات اور ٹیکنالوجی میں بہتری لانے پر ہو گی، اس حوالے سے ہم ابتدائی طور پر جن اقدامات کا اعلان کر رہے ہیں وہ کچھ یوں ہیں ۔

وفاقی وزیر خزانہ نے سال 2017-18 میں دی جانے والی مراعات کو جاری رکھنے بارے بتایا کہ گزشتہ بجٹ میں جن مراعات کا اعلان کیا گیا تھا ان میں شرح سود میں کمی، زرعی قرضہ جات کی حد میں اضافہ، ہرویسٹر پر کسٹم ڈیوٹی میں چھوٹ، سورج مکھی اور کنولا کے بیج کی درآمد پر جنرل سیلز ٹیکس کے خاتمے جیسے اقدامات شامل تھے، مالی سال 2018-19 کے دوران بھی یہ سب مراعات جاری رکھی جائیں گی۔

تمام کھادوں پر جنرل سیلز ٹیکس کی یکساں شرح کا نفاذ بارے انہوں نے بتایا کہ کاشتکاری کے حوالے سے کھاد کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہماری حکومت نے کھاد پر سیلز ٹیکس میں کمی کی جو کہ ڈی اے پی پر 17 فیصد کی بلند شرح سے کم کر کے چار فیصد کی گئی جبکہ یوریا پر پانچ فیصد اور دیگر کھادوں پر 9 سے 11فیصد تک کمی کی گئی، مھجے اس بات کا اعلان کرتے ہوئے خوش یمحسوس ہو رہی ہے کہ یکم جولائی 2018 سے تمام کھادوں پر جنرل سیلز ٹیکس کی شرح کو یکساں کرتے ہوئے تین فیصد تک کم کر دیا جائے گا۔

زرعی مشینری پر جی ایس ٹی کی شرح کو موجودہ 7 فیصد سے کم کر کے پانچ فیصد تک کرنذے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ ڈیری اور لائیو سٹاک کیلئے بھی ٹیکس اور ڈیوٹی میں چھوٹ کی تجویز ہے، اس حوالے سے مزید تفصیلات کا اعلان بجٹ تقریر کے حصہ دوئم میں کیا جائے گا۔ کپاس کی پیداوار اور معیار میں بہتری کے حوالے سے بتایا گیا کہ ملکی معاشی ترقی اور برآمدات میں اضافے کیلئے کپاس کی معیاری اور وسیع پیداوار بنیادی اہمیت رکھتی ہے، پاکستان کپاس کی پیداوار کے حوالے سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے، لیکن کپاس کی مصنوعات کی برآمدات کے لحاظ سے پاکستان بہت پیچھے ہے، ہمیں ایکسپورٹ ویلیو میں بہتری کیلئے معیار اور مقدار دونوں میں بے حد اضافے کی ضرورت ہے،اس امر کے پیش نظر کاٹن کے سبجیکٹ کو وزارت ٹیکسٹائل سے لے کر منسٹری آف نیشنل فوڈ اینڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کے حوالے کیا گیا ہے۔

وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر کپاس کی پیداوار اور معیار کی بہتری کیلئے کوششیں کر رہی ہے، پلانٹ بریڈرز رائٹس ایکٹ کو حال ہی میں ہماری حکومت نے نافذ کیا ہے جو کہ گزشتہ پندرہ برس سے التواء کا شکار تھا، اس قانون کے تحت قائم ہونے والی پلانٹ بریڈرز رجسٹری سے بہتر معیار کا بیج دستیاب ہو سکے گا جس سے ملک میں کپاس اور دیگر فصلوں کی زیادہ پیداوار والی اقسام کی کاشت ممکن ہو گی۔

زرعی ٹیوب ویلوں کے حوالے سے وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ فصلوں کیلئے پانی کی فراہمی نہایت ضروری ہے، اس لئے حکومت زرعی ٹیوب ویلوں کو کم قیمت پر بجلی فراہم کر رہی ہے، مالی سال 2018-19 کے دوران بھی یہ اسکیم ان علاقوں میں جاری رکھے جائے گی، جہاں صوبائی حکومتیں اس سبسڈی کا نصف بوجھ برداشت کرنے پر متفق ہوں گی۔ زرعی تحقیق کیلئے امدادی فنڈ کے قیام کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ حکومت پانچ ارب روپے سے ایگریکلچر سپورٹ فنڈقائم کر رہی ہے، یہ فنڈ زرعی پیداوار میں اضافے کیلئے پودوں اور بیج کی جدید اقسام پر کی جانے والی تحقیق و ترقی کیلئے مالی معاونت فراہم کرے گا، اس فنڈ کا انتظام وزارت خزانہ اور منسٹری آف نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ مشترکہ طور پر چلائیں گے۔

حکومت نے ملک میں زرعی ٹیکنالوجی کی ترویج کے لئے 5 ارب روپے سے ایک علیحدہ فنڈ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ یہ فنڈ بھی مشترکہ طور پر وزارت خزانہ اور منسٹری آف نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کے زیر انتظام ہو گا۔ یہ فنڈ اداروں کے تعاون سے جدید زرعی ٹیکنالوجی کی مقامی سطح پر تیاری کو فروغ دے گا ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ منسٹری آف نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ اداروں کو فعال کرنے اور ان کو عالمی معیار کے برابر لانے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے ۔

اس حوالے سے ضروری مالی امداد کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا جائے گا ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ 5 سالوں کے دوران ہم نے ٹیکسٹائل اور دیگر شعبوں کی برآمدات میں بہتری کے لئے کئی اقدامات کیے ۔ ان اقدامات میں ایل ٹی ایف ایف اور ای آر ایف پر مارک اپ کی شرح میں بالترتیب 5 فیصد اور 3 فیصد تک کی تاریخی کمی ، ٹیکسٹائل مشینری کی ڈیوٹی فری درآمد ، صنعتوں کے لئے بجی اور گیس کی بلا تعطل فراہمی ، 5 بڑے برآمدی شعبہ جات کے لئے زیرو ریٹنگ کی سہولت اور 180 ارب روپے کا ایکسپورٹ پیکج شامل ہے ۔

یہ اقدامات برآمدات میں کمی کی فوری روک تھام کے لئے کیے گئے تھے ۔ ہمیں اب وقتی اور عارضی حل ڈھونڈنے کی بجائے منڈیوں کے رجحانات کو مد نظر رکھتے ہوئے نئے سرے سے پالیسی سازی کرنی ہو گی ۔ آئندہ لائحہ عمل کے طور پر معقول سبسڈیز کے ساتھ ساتھ پیداواری لاگت میں بھی کمی کی منصوبہ بندی کی گئی ہے ۔اس کا آغاز ہم اسی بجٹ سے کررہے ہیں جیسا کہ زیرو ریٹنگ ریگم ٹیکسٹائل ، چمڑے اور کھیلوں کی مصنوعات ، آلات جراحی اور قالین بافی جیسے پانچ بڑے برآمدی شعبہ جات کو زیرو ریٹڈ سیلز ٹیکس ریگم میں جاری رکھا جائے گا ۔

حکومت نے آلو کی برآمد پر Freight Support دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کی تفصیل طے کی جا رہی ہے۔ اسٹیٹ بنک کی پالیسی کے تحت لانگ ٹرم فنانسنگ فیسیلٹی اور ایکسپورٹ ریفاننس فیسیلٹی پر مارک اپ کی کم شرح جاری رہے گی ۔ سٹرٹیجک ٹریڈ پالیسی فریم ورک اور ٹیکسٹائل پالیسی کے تحت ایکسپورٹ پروموشن کی اسکیمیں ٹیکسٹال پالیسی 2014-19 کے تحت دی جانے والی مراعات مالی سال 2018-19 میں بھی جاری رہیں گی ۔

وزارت تجارت اسٹرٹیجک ٹریڈ پالیسی فریم ورک 2018-23 پر کام کر رہی ہے ۔ ان پالیسیوں کے تحت شروع کی جانے والی اسکیموں کے لئے 10 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ برآمدی صنعتوں میں بطور خام مال استعمال ہونے والی متعدد اشیاء پر ٹیکس کی شرح میں کمی تجویز کی گئی ہے ۔ ان کی تفصیلات فنانس بل کے حصہ دوئم میں بیان کی جائیں گی ۔ ٹیکسوں کی شرح پر اس نظرثانی سے برآمدات کی کمیٹیٹونیس بڑھنے کے ساتھ ساتھ کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم کرنے میں بھی مدد ملے گی ۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ایکسپورٹرز کے ریفنڈز کے حوالے سے درپیش مسائل کے حل کے لئے مندرجہ ذیل اقدامات تجویز کیے جاتے ہیں ۔ ہم برآمدی شعبے کے لئے کی جانے والے درآمدات پر زیرو ریٹنگ کی طرف جا رہے ہیں تاکہ نئے ریفنڈ کلیم میں واضح کمی آ سکے ۔ یکم جولائی 2018 سے زیر التواء ریفنڈ کلیم کو اگلے 12 ماہ کے دوران مختلف مراحل میں ادا کیا جائے گا۔

یکم جولائی 2018 کے بعد تمام نئے ریفنڈ کلیمز پر قانون کے مطابق ماہانہ ادائیگی کی جائے گی اور کوئی تاخیر نہیں ہو گی ۔ حکومت پاکستان برآمدات کے فروغ کے لئے ایک نئے ایکسپورٹ پیکج پرکام کر رہی ہے ۔ مجوزہ ایکسپورٹ پیکج معروضی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ایڈڈ سیکٹر ویلیو اور نان ٹریڈیشنل پروڈکٹ کی برآمدات بڑھانے پر توجہ دے گی ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ بیرون ملک پاکستانیوں کی طرف سے آنے والی ترسیلات زرمکلی زر مبادلہ کا بڑا ذریعہ ہیں ۔

قانونی ذرائع سے ترسیلات زر کی حوصلہ افزائی کے لئے حکومت نے آئندہ مالی سال میں جن مراعات کا فیصلہ کیا ہے وہ یہ ہیں ۔ ملک میں آنے والی وہ تمام ترسیلات زر جو کہ کمرشل بنکوں ، ایکسچینج کمپنیوں اور دیگر مالیاتی اداروں کے ذریعے آئیں گی انہیں لکی ڈراز میں شامل کیا جائے گا ۔ اسٹیٹ بینک بہت جلد اس انعامی سکیم کی تفصیلات کا اعلان کرے گا ۔

چھوٹے کسانوں کے لئے قرضوں کی دستیابی اور رسائی بہت اہم ہے ۔ ہماری حکومت نے زرعی قرضہ جات کا ہدف 2013 کے 315 ارب روپے سے بڑھا کر 2018 میں 1001 ارب روپے کر دیا ہے۔ آئندہ مالی سال کے لئے اس ہدف کو 1100 ارب روپے تک بڑھایا جا رہا ہے ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اسی طرح زرعی پیداوار پر ہونے والے اخراجات میں اضافے اور قرضہ جات کی بڑھتی ہوئی طلب کے پیش نظر پی آئی یو کی قدر کو 6 ہزار روپے تک بڑھایا جائے گا ۔

پی آئی یو کی قدر 2013 میں 2000 روپے تھی جسے ہم نے رواں مالی سال میں 5000 روپے تک بڑھایا تھا ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کی فلم انڈسٹری جو کہ 60 کی دہائی میں دنیا کی تیسری بڑی انڈسٹری تھی ۔ حکومت اس کے لئے ایک مالی پیکج کا اعلان کرنے جا رہی ہے ۔ اس پیکج کا مقصد فلم انڈسٹری کی ترقی کے لئے سازگار ماحول اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنا اور پاکستانی کلچر کو فروغ دینا ہے ۔

ڈرامہ، فلم سازی اور سیمنا کے سامان کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی کی شرح کم کرکے 3 فیصد اور سیلز ٹیکس کم کرکے 5 فیصد کیا جا رہا ہے ۔ فلم اور ڈرامہ کے فروغ کے لئے ریولونگ فنڈ قائم کیا جا رہا ہے جس سے فلم انڈسٹری اور مستحق فنکاروں کو مالی امداد دی جائے گی ۔ اس کے علاوہ فلم کے پروجیکٹس پر سرمایہ کاری کرنے والے افراد اور کمپنیوں کے لئے 5 سال تک انکم ٹیکس پر 50 فیصد چھوٹ دی جا رہی ہے ۔

پاکستان میں بننے والی غیر ملکی فلموں پر عائد انکم ٹیسک پر 50 فیصد چھوٹ دی جا رہی ہے ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ کراچی میں پاکستان کی کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں کا گڑھ ہے اور ملکی آمدن میں اس کا بڑا حصہ ہے ۔ 2013 میں اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) حکومت نے بڑی کامیابی سے کراچی میں امن و امان کو بحال کرتے ہوئے کاروباری طبقے کے اعتماد میں اضافہ کیا اور معاشی سر گرمی کو فروغ دیا ۔

جہاں لاہور اور ملتان کی میٹروبس منصوبوں کو صوبائی حکومتوں نے فنڈ کیا وہیں کراچی میں گرین لائن ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم کو وفاقی بجٹ سے تعمیر کا جا رہا ہے ۔ موجودہ مالی سال تک اس منصوبے پر 16 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں ۔ اس حوالے سے سڑکوں اور پلوں کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے جب کہ صوبائی حکومت ابھی تک بسوں کی خریداری کے لئے کنٹریکٹ جاری نہیں کر سکی، آج میں یہ پیش کرتا ہوں کہ اگر سندھ کراچی کے لئے بسیں نہیں خرید سکتی تو وفاقی حکومت ایسا کرنے کو تیار ہے ۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ پچھلی حکومت کے دوران یہ طے پایا تھا کہ وفاقی حکومت کے 4 واٹر پروجیکٹ کی لاگت کا ایک تہائی حصہ ادا کرے گی تاہم اس حوالے سے کوئی ادائیگی نہیں کی گئی اور یہمنصوبہ شروع نہیں ہو سکا تھا ۔یہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی جس نے کے فور منصوبے کے لئے فنڈز کا اجراء کیا اور میاں نواز شریف نے کل لاگت کا 45 فیصد ادا کرنے کی بھی رضا مندی ظاہر کی ۔

یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہے جس کی وجہ سے منصوبے کی لاگت میں 400 فیصد سے بھی زیادہ اضافہ ہو گیا ہے ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ کراچی کو پانی کے شدید بحران کا سامنا ہے عرصہ دراز سے پیش اس مسئلے کے حل کے لئے آج وفاقی حکومت سمندری پانی کو قابل استعمال بنانے کے لئے پلانٹ کی نئی اسکیم کا اعلان کر رہی ہے ۔ یہ پلانٹ نجی شعبے کے ذریعے تعمیر کیا جائے گا اور یومیہ 50 ملین گیلن پانی فراہم کرے گا جس سے کراچی میں پینے کے پانی کے مسائل کافی حد تک کم ہو جائیں گے ۔

انشاء اللہ اپنے شہر میں پانی کے مسئلے کو حل کرنے میں کردار ادا کرنا میرے لئے فخر کی بات ہو گی ۔ اس مقصد کے لئے وفاقی حکومت نجی شعبے کے ساتھ شراکت داری سے ضروری فنڈز اور گارنٹی کا بندوبست کرے گی ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اس کے علاوہ وزیر اعظم نے کراچی کے لئے 25 ارب روپے کے خصوصی پیکج کا بھی اعلان کیا ہے اس پیکج میں بنیادی ڈھانچے اور سماجی شعبے کی سہولتوں کے علاوہ سڑکوں ، پلوں اور آگ بجھانے کے منصوبوں کی منظوری دی جا چکی ہے اور اس مقصد کے لئے موجودہ سال کے بجٹ میں 3 ارب روپے رکھے گئے ہیں ۔

آئندہ مالی سال کے لئے اس مد میں 5 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ میری ذاتی درخواست پہ وزیر منصوبہ بندی جناب احسن اقبال نے کراچی میں ایکسپو سنٹر کی توسیع کے لئے رقم فراہم کر دی ہے ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے ایک نئے پروگرام کا آغاز کر رہے ہیں جس کا نام 100,100,100, ہے ۔ یہ وفاقی حکومت کاعہد ہے کہ 100 فیصد بچوں کے سکول میں داخلے ، 100 فیصد بچوں کی سکول میں حاضری اور بفضل تعالیٰ 100 فیصد بچوں کے کامیابی سے فارغ التحصیل ہونے کو یقینی بنائے گی ۔

یہ محض وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا ہی نہیں بلکہ پوری پارلیمنٹ کا پاکستان کے بچوں سے عہد ہے ۔ 70 سال کی طویل مدت کے بعد بھی ہم پاکستانی رہنمائوں نے اس ملک کے بچوں کو مایوس کیا ہے ہم ان کو تعلیم کی روشنی فراہم نہیں کر سکے ۔ اب ایسا نہیں ہو گا ۔ اگرچہ تعلیم کاشعبہ اب صوبوں کو منتقل ہو چکا ہے پھربھی وفاقی حکومت مالی اور انتظامی لحاظ سے ہر صوبے کو اس مقصد کے حصول میں معاونت فراہم کرے گی ۔

یہ کوئی سیاسی معاملہ نہیں ہے یہ ایک قومی عہد ہے جو میں آج پاکستان کے بچوں سے کررہا ہوں ۔ ہم آپ کوتعلیم دیں گے اور ہم 100,100,100, پر مصر رہیں گے ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ تین بچوں کے باپ کی حیثیت سے مجھے یہ بتاتے ہوئے شرم محسوس ہو رہی ہے کہ ہمارے ملک کے 39 فیصد بچے خوراک اور غذائیت کی کمی کی وجہ سے سٹینڈڈ گروتھ کا شکار ہیں ۔ یہ ہم سب کے لئے چونکا دینے والی بات ہے ۔

ایسا اب مزید برداشت نہیں کیا جائے گا ۔ آج میں وزیر اعظم کی ہدایت پر اس مقصد کے لئے 10 ارب روپے کی رقم سے ایسے پروگرام کااعلان کرتاہوں جس سے بچوں میں نشوونما کے مسائل ختم ہو جائیں گے ۔ اگر یہ پروگرام بہت جلد فعال ہو گیا تو میں ساری پارلیمنٹ کی جانب سے اس عزم کا اعلان کرتا ہوں کہ اس مقصد کے لئے جو بھی رقم درکار ہوئی وہ سپلیمنٹری گرانٹ کے ذریعے مہیا کی جائے گی ۔

آج بابائے قوم کی تصویر کے سامنے پاکستانی جمہوریت کے اس مرکز میں پارلیمنٹ اور وزیر اعظم کی طرف سے اس امر کا اعادہ کرتا ہوں کہ 2020 تک ملک سے بچوں میں سٹنڈنگ کے مسئلے کاخاتمہ کردیا جائے گا ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پچھلے پانچ برسوں میں ہماری حکومت نے ترقیاتی اخراجات میں کئی گنا اضافہ کیا ہے ۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 2008 سے 2013 کے دوران پی ایس ڈی پی کی مد میں خرچ کیے جانے والے 1300 ارب روپے کے مقابلے 3000 ارب روپے خرچ کیے جو کہ 230 فیصد کا ضافہ ہے ۔

میں اعتماد کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ عوام کا یہ پیسہ میرے بھائی احسن اقبال کی نگرانی میں عوام کی فلاح و بہبود پر انتہائی ایمانداری اور شفافیت کے ساتھ خرچ کیا گیا ۔ اب جب کہ معیشت کے مختلف شعبوں میں ترقیاتی پروگرام کے ذریعے سرمایہ کاری جاری ہے میں چاہوں گا کہ سی پیک کے منصوبوں پر روشنی ڈالوں ۔ سی پیک کے تحت زیادہ تر سرمایہ کاری توانائی ، سڑکوں ، مواصلات کے بنیادی ڈھانے اور گوادر پر ہے ۔

سی پیک کے تحت ہماری حکومت نے شمالی پاکستان کو گوادر سے ملانے کے لئے سڑکوں کے منصوبے شروع کیے ہیں ۔ ٹرنز پاکستان کوریڈور کے تحت موٹرویز اور سپیشل اکنامک زونز بنائے جا رہے ہیں ۔ جن سے روزگار کے مواقع ، پیداواری صلاحیت میں اضافہ ، خوشحالی اور ترقی متوقع ہے ۔ کراچی سے لاہور موٹروے ، تھاکوٹ، حویلیاں موٹروے ، ایسٹ بے ایکسپریس وے گوادر اور بہت ساری دوسری سڑکوں کے ذریعے پاکستان میں گلگت بلتستان ، کے پی کے ، پنجاب بلوچستان اور سندھ کو ایک دوسرے سے منسلک کیا جا رہا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا ۔

سی پیک کے تحت حکومت نے مین لائن ون پر کراچی سے پشاور تک ٹرینوں کی رفتار کو 3 گنا تک بڑھانے کا منصوبہ تشکیل دیا ہے ۔ مین لائن ون پر ٹرینوں کی موجودہ اوسط رفتار 55 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے جسے سال 2021 تک 160 کلو میٹر فی گھنٹہ تک بڑھایا جائے گا ۔ اس منصوبے کے تحت کراچی تا پشاور اور ٹیکسلا تا حویلیاں ریلوے ٹریک کو ڈیولائز کیا جائے گا ۔ اس پر 900 ارب روپے سے زیادہ لاگت آئے گی ۔

اس منصوبے کے نتیجے میں لوگ ملک کے شمالی سے جنوبی علاقوں تک 12 گھنٹے یا اس سے بھی کم وقت میں سفر کر سکیں گے ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ہماری حکومت نے توانائی کے شعبے میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے بجی کی فراہمی کا اپنا وعدہ پورا کردیا ہے ۔ اب تک 12,230 میگا واٹ اضافی بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کی ہے ۔ بجلی کے اہم منصوبوں کی تفصیل کچھ یوں ہے ۔

نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ 969 میگاواٹ کا رن آف ریور منصوبہ ہے جو کہ انجینئرنگ کا شاہکار ہے جس کا 90 فیصد حصہ زیرزمین ہے حال ہی میں وزیر اعظم نے اس کے پہلے ٹربائن کاافتتاح کیا ہے ۔ تربیلا پاور اسٹیشن میں چوتھے یونٹ کا اضافہ کیا گیا ہے جس سے بجلی کی پیداوار میں 1410 میگاواٹ کا اضافہ ہوا ہے ۔ حویلی بہادر شاہ بھکی اور بلوکی میں 3600 میگا واٹ کے آر ایل این جی بیسڈ پلانٹس لگائے گئے ہیں ۔

ساہیوال اور پورٹ قاسم میں واقع پاکستان کے پہلے سپر کریٹیکل کوئل فائرڈ پاور پلانٹس فعال ہو چکے ہیں ۔ 680 میگاواٹ کے چشمہ نیوکلیئر پلانٹس سی III اور سی IV بھی فعال ہو چکے ہیں ۔ 1000 میگاواٹ سے زیادہ رینیوایبل انرجی کے منصوبے جو بغیر کسی ایندھن کے بجلی بنائیں گے ۔ تاہم بجلی کے شعبے میں ہماری سرمایہ کاری صرف یہیں ختم نہیں ہو جاتی مالی سال 2018-19 کے دوران بجلی کے شعبے میں 138 ارب روپے کی سرمایہ کاری تجویز کی گئی ہے ۔

27.5 ارب روپے کی لاگت سے جامشورو سندھ میں 600MW کے دو کوئل فائرڈ پاور پراجیکٹس لگائے جائیں گے ۔ خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان میں داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹس کی تعمیر کے پہلے مرحلے کے لئے 76 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ۔ نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ کے لئے 32.5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں اور تربیلا فورتھ ایکسٹینشن ہائیڈرو پراجیکٹ کے لئے 13.9 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ میں پاکستان کے عوام کو دیامر بھاشا ڈیم کی حالیہ منظوری کی تاریخی موقع پر مبارک باد پیش کرنا چاہوں گا جس پر کل لاگت 474 ارب روپے آئے گی ۔ ڈیم میں 64 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہو گی ۔ اس ڈیم سے ہماری پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 38 دن سے بڑھ کر 45 دن ہو جائے گی ۔ اس منصوبے کے لئے مالی سال 2018-19 کے دوران 23.7 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے ۔

پانی کے شعبے میں مجموعی سرمایہ کاری 2017-18 کے 36.7 ارب سے بڑھ کر 2018-19 میں 79 ارب روپے ہو جائے گی ۔ وزیرخزانہ نے کہا کہ شاہراہوں کا ایک موثر نظام معاشی ترقی کا ضامن ہے ۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے شاہراہوں پر سرمایہ کاری کو 2012.13 کے 50 سالوں کے دوران اس سلسلے میں پی ایس ڈی پی سے 842 ارب روپے خرچ کئے گئے ہیں جب کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے بجٹ کے علاوہ500 ارب روپے کی فنانسنگ کا بندوبست بھی کیا گیا ۔

اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں 3655 کلو میٹر نئی شاہراہیں تعمیرکی گئیں جس سے 1785 کلو میٹر کی موٹرویز شامل ہیں ۔ 1990 کی دہائی میں میاں نواز شریف پشاور سے لاہور کے سفر میں انقلابی تبدیلی لے کر آئے ۔ اپنے موجودہ دور میں انہوں نے اس امر کو یقینی بنایا ہے کہ پورے ملک میں آمدورفت کے لئے ایسا ہی نظام موجود ہے پورے ملک میں موٹروے کا جال بچھانے کاان کا خواب تکمیل کے نزدیک ہے ۔

موجودہ مالی سال کے اختتام تک ملک میں موٹرویز کی لمبائی 2500 کلو میٹر تک پہنچ جائے گی اب تک مکمل ہونے والے منصوبوں کی فہرست یوں ہے ۔ 58 کلو میٹر فیصل آباد ، گوجرہ موٹروے ۔ 136 کلو میٹر حیدر آباد کراچی موٹروے ، 56 کلو میٹر خانیوال ملتان موٹروے ۔ اس سال ہم نے یہ منصوبے مکمل کریں گے خضدار شہداد کوٹ موٹروے ۔ 230 کلو میٹر لاہور ملتان موٹروے 62 کلو میٹر گوجرہ ، شورکوٹ موٹروے ،64 کلو میٹر شور کوٹ خانیوال موٹروے ، 91 کلو میٹر سیالکوٹ لاہور موٹروے ، 57 کلو میٹر ہزارہ موٹروے ۔

ملک کے مغربی حصے میں نارتھ سائوتھ کنکشن کو اسلام آباد پشاور موٹرویز پر برہان سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان اور آگے براستہ ژوب کوئٹہ تک موٹرویز اور ہائی ویز کی تعمیر کے ذریعے بہتر بنایا جا رہا ہے ۔ یہ کام 2020 تک مکمل کر لیا جائے گا ۔ میاں محمد نواز شریف پہلے ہی گوادر تا کوئٹہ لنک کا افتتاح کر چکے ہیں جس کی بدولت گوادر اور کوئٹہ کا درمیان فاصلہ 24 گھنٹے سے کم ہو کر 8 گھنٹے رہ گیا ہے ۔

اس طرح پہلی بار گوادر پورٹ سے وسطی ایشیاء اور افغانستان بھی منسلک ہو گئے ہیں ۔ بجٹ 2018-19 میں ہم نے شاہرات کے لئے 310 ارب روپے تجویز کیے ہیں ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ پانچ سال میں پاکستان ریلوے کی آمدن میں خاطر خواہ اضافہ ہو ا ہے ۔ سال 2018-19 کے بجٹ کے لئے 35 ارب روپے کی ری کرنٹ بجٹ گرانٹ کے علاوہ ترقیاتی سرمایہ کاری کے لئے 39 ارب روپے رکھے گئے ہیں ۔

گوادر کی بندر گاہ کو عالمی تجارت کے لئے مکمل فعال کرنے کا خواب اب بتدریج حقیقت میں تبدیل ہو رہا ہے ۔ سال 2018-19 کے بجٹ میں ہمارا بنیادی مقصد جاری منصوبوں کی تکمیل کے لئے ضروری وسائل مختص کرنا ہے ۔ ان منصوبوں میں گوادر ائیر پورٹ اور اس سے ملحقہ سڑکوں کی تعمیر ، پورٹ کی سہولیات بشمول صاف پانی کا پلانٹ ،50 بیڈز کے ہسپتال کو 300 بیڈز تک اب گریڈ کرنا گوادر ایکسپورٹ پراسیسنگ زون کے لئے انفراسٹرکچر کی تعمیر سی پیک انسٹیٹیوٹ کا قیام اور ڈیموں کی تعمیر شامل ہے ۔

2018 کے پی ایس ڈی پی میں گوادر کی ترقی کے 31 منصوبوں پہ 137 ارب روپے کی لاگت آئے گی ۔ وفاقی حکومت اعلیٰ تعلیم ، بنیادی صحت کی سہولت اور نوجوانوں کے لئے پروگرامز کے حوالے سے مالی مدد جاری رکھے گی اس مقصد کے لئے ہم پی ایس ڈی پی میں ایس ای سی کے لئے 57 ارب روپے ، بنیادی صحت کے لئے 37 ارب روپے جب کہ یوتھ پروگرام کے لئے 10 ارب روپے مختص کر رہے ہیں اس کے علاوہ وفاقی حکومت 50 لاکھ سے زائد خاندانوں کو مالی امداد فراہم کر رہی ہے جب کہ پاکستان بیت المال اور پاورٹی ایلیویشن فنڈ کے لئے بھی رقوم مختص کی گئی ہے ۔

اس کے علاوہ حکومت صوبائی حکومتوں کے اشتراک سے ملک بھر میں کھیلوں کے 100 اسٹیڈیم بنائے جا رہے ہیں ۔ موجودہ حکومت نے صحت کے شعبہ میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ہیں۔عوام کو صحت کی معیاری سہولیات کی فراہمی کی اولین ترجیح ہے۔ 18ویں آئینی ترمیم کے تحت صحت کے شعبہ کو صوبوں کے حوالے کئے جانے کے باوجود وفاقی حکومت اس شعبہ میں اپنی ذمہ داریوں سے روگردانی نہیں کرسکتی تھی، پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ غریب عوام کو صحت کی معیاری سہولیات فراہم کرنے کیلئے پرائم منسٹر نیشنل ہیلتھ پروگرام کا اجراء کیا گیا جس کے تحت 30لاکھ خاندان کو 41اضلاع میں سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں سے صحت کی معیاری سہولیات بلکل مفت فراہم کی جارہی ہیں۔

اس پروگرام کا دائرہ ملک کے تمام اضلاع تک پھیلایا جارہا ہے۔ اس پروگرام سے Sustainable Development GoalsاورUnviersal Health Coverageکے اہداف کے حصول میں مدد مل رہی ہے۔ پاکستان میں ہیپاٹائٹس کے بڑھتے ہوئے کیسز کے پیش نظر صوبوں کے ساتھ ملک کر National Hepatitis Strategic Frame Workتیار کیا گیا۔ ہیپاٹائٹس کی دوا کو کم ترین سطح پر لایا گیا اور ملک میں اس کی ادویات کی تیاری کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔

بچوں اور خواتین کے حفاظتی ٹیکہ جات کے پروگرام کے تحت ویکسین کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنایا گیا اور اس کی Storageاور ترسیل کے نظام کو عالمی معیار کے مطابق ISOسے تصدیق شدہ بنایا گیا۔ قومی ادارہ صحت میں ویکسین کی تیاری کو عالمی معیار سے ہم آہنگ کیا گیا اور عرصہ سے غیر فعال ویکسین کی تیاری کو بحال کیا گیا۔ صحت کے شعبہ میں مستندdataکی پالیشی سازی میں اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے وفاقی سطح پر عالمی معیار کا Dasboardقائم کیا ۔

درست اعداد شمار کے حصول کیلئے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر 2سے 3سال کے وقفہ سے صحت کا مروجہ سروے کرایا جائے گا جو کہ عالمی معیار کے مطابق ہوگا۔ بچوں میں بیماریوں کی تشخیص اور روک تھام کے حوالے سے وزیر خزانہ نے کہا کہ آج ٹیکنالوجی کی بدولت کئی اہم مسائل کا سادہ ، آسان اور سستا حل موجود ہے۔ اگر ساتذہ کو مناسب موبائل Applicationsمہیاکی جائیں تو وہ طالبعلموں کی آنکھوں میں دیکھ کر امراض کی تشخیص کرسکتے ہیں۔ اس کے تحت امراض کی تشخیص ابتدائی مرحلے پر ہوسکتی ہے اور آسان اور سستا علاج ممکن ہے۔ جلد ہی یہ پروگرام ابتدائی طور پر پاکستان کے پسماندہ اضلاع میں شروع کئے جائیں گے اور پھر تمام سرکار�