وفاقی حکومت نے 59کھرب 32ارب50کروڑ سے زائد لاگت کا بجٹ پیش کردیا

گزشتہ حکومت کے پانچ سالہ دور میں ترقیاتی اخراجات میں 230 فیصد اضافہ، مالیاتی خسارہ 5.5 فیصد تک محدود ، ترقی کی شرح نمومیں مسلسل اضافہ دفاعی بجٹ میں 10فیصد اضافہ،رواں سال 920ارب روپے کے مقابلے میں 1100.3ارب روپے مختص کرنے کی تجویز سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور تمام پنشنرز کیلئے 10 فیصد اضافہ کی تجویز ، ہاوس رینٹ الاونس میں 50 فیصد ،پنشن کی کم سے کم حد 6 ہزار سے بڑھا کر10ہزار روپے کردی گئی نان فائلرز کو 40 لاکھ روپے سے زائد مالیت کی جائیداد خریدنے کی اجازت نہیں ہو گی انفراد ی ٹیکس کی شرح کم ،ایک لاکھ سے کم آمدن والے ٹیکس سے مستثنیٰ ہوں گے سگریٹ کی قیمتوں میں پھر اضافے کی تجویز دی گئی،کینسر کی ادویات پر کسٹم ڈیوٹی اوراستعمال شدہ کپڑوں پر ویلیو ایڈیشن ٹیکس ختم کھاد کے کارخانوں پر گیس کی فراہمی پر سیلز ٹیکس 10 سے کم کرکے 5 فیصد کرنے کی تجویز بجٹ اجلاس کے دوران اپوزیشن کی شدید ہنگامہ آرائی ،واک آئوٹ

جمعہ 27 اپریل 2018 23:46

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 27 اپریل2018ء) وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اپوزیشن کے شور شرابے و ہنگامہ آرائی کے دوران مالی سال برائے 2018-19 کیلئے ًً59کھرب 32ارب50کروڑ روپے لاگت سے زائد کا موجودہ حکومت کا تاریخی چھٹا بجٹ پیش کردیا ،گزشتہ حکومت کے پانچ سالہ دور میں ترقیاتی اخراجات میں 230 فیصد اضافہ کیا گیا،حکومت نے مالیاتی خسارہ 5.5 فی صد تک محدود رکھا ہے جبکہ ترقی کی شرح نمومیں مسلسل اضافہ ہوا،پاکستان کے دفاعی بجٹ میں 10فیصد اضافہ کیا گیا ،رواں سال 920ارب روپے کے مقابلے میں 1100.3ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے ،بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور تمام پنشنرز کے لیے 10 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ، ہاوس رینٹ الاونس میں بھی 50 فیصد جبکہ پنشن کی کم سے کم حد 6 ہزار سے بڑھا کر10ہزار روپے کردی گئی ، 75 سال کے ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کے لیے کم از کم پنشن 15 ہزار روپے کرنے کی تجویز دی گئی ہے، نان فائلرز کو 40 لاکھ روپے سے زائد مالیت کی جائیداد خریدنے کی اجازت نہیں ہو گی ،انفراد ی ٹیکس کی شرح کم ،ایک لاکھ سے کم آمدن والے ٹیکس سے مستثنی ہوں گے،سگریٹ کی قیمتوں میں پھر اضافے کی تجویز دی گئی ہے،کینسر کی ادویات پر کسٹم ڈیوٹی اور استعمال شدہ کپڑوں پر ویلیو ایڈیشن ٹیکس ختم،کھاد کے کارخانوں پر گیس کی فراہمی پر سیلز ٹیکس 10 سے کم کرکے 5 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے، لیپ ٹاپ اور کمپیوٹرز کی تیاری اور اسمبلنگ کے 21 پرزہ جات کی درآمد پر سیلز ٹیکس ختم کی تجویز دی گئی ہے ۔

(جاری ہے)

جمعہ کے روز قومی اسمبلی میں مالی سال برائے 2018-19 ء کیلئے بجٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے خزانہ، مالیات اور اقتصادی امور ڈاکٹر مفتاح اسماعیل نے کہا کہ میرے لئے یہ امر باعث اعزاز ہے کہ آج میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا چھٹا بجٹ پیش کر رہا ہوں۔ پاکستانی قوم اور پارلیمنٹ کے لیے یہ ایک تاریخی لمحہ ہے۔ باوجود مشکلات کے ہماری حکومت نے 13 سال کی بلند ترین شرحِ نمو، کم ترین افراطِ زر اور معاشی استحکام حاصل کیا۔

پوری قوم اور پارلیمنٹ مبارک باد کی مستحق ہے۔ نئے مالی سال کا بجٹ پیش کرنا اس حکومت کا مقدس فریضہ ہے۔ پارلیمنٹ پر لازم ہے کہ اپنی مدت کے خاتمے سے پہلے بجٹ پر بحث کرے اور پاس کرے۔بجٹ کی منظوری کے بغیر حکومت ایک دن بھی نہیں چل سکتی۔ وفاقی بجٹ کی منظوری اس لیے بھی لازم ہے کہ وفاقی محصولات کے سالانہ تخمینے کے بغیر صوبائی حکومتیں اپنا بجٹ نہیں بنا سکتیں اور نہ ہی اپنا نظم و نسق چلا سکتی ہیں۔

بجٹ کا پاس ہونا حکومتی مشینری کے تسلسل اور اقتصادی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔ اگلی منتخب حکومت کے پاس اختیار ہو گا کہ وہ بجٹ ترجیحات میں تبدیلی کر سکے۔ یہ بجٹ میاں نواز شریف کے ویژن کا عکاس ہے۔ یہ بجٹ پاکستانی قوم کی اُمنگوں کا بھی عکاس ہے جس کی اکثریت نے 2013 میں میاں نواز شریف کو وزیراعظم منتخب کیا تھا۔ آج ہم اس ایوان میں اُن کی کمی محسوس کر رہے ہیں۔

2013 میں ہمیں ایک تباہ شدہ معیشت ورثے میں ملی۔ ترقی اور سرمایہ کاری کم، جبکہ افراطِ زر اور مالی خسارہ زیادہ تھے۔ ہمارے Forex Reserves تاریخ کی کم ترین سطح پر تھے اور بین الاقوامی سطح پر ہم دیوالیہ ہونے کے قریب تھے۔ وزیر خزانہ نے کہا کیا ہمیں یاد ہے کہ2008 سے 2013 کے دوران مہنگائی کی اوسط شرح 12 فیصد اور GDP میں اضافہ کی شرح صرف 2.8 فیصد تھی۔ ملک توانائی کے شدید بحران کا شکار تھا۔

شہری اور دیہاتی علاقوں میں 12 سے 18 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی۔ ملک میں بڑے پیمانے پر کارخانے بند ہو رہے تھی اور بے روزگاری اور مایوسی پھیلی ہوئی تھی۔ میرے کسان بھائیوں کے پاس ٹیوب ویل چلانے کے لیے بجلی نہ تھی اور شہروں میں میری ماؤں اور بہنوں کو چولہا جلانے اور اپنے بچوں کے لیے کھانا پکانے کے لیے گیس دستیاب نہیں تھی۔ ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا اور شہری اپنے گھر میں بھی محفوظ نہیں تھے۔

بدعنوانی اور خراب حکمرانی عام تھی۔چاروں اطراف اُداسی تھی اور قوم کا مورال پست تھا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) مئی 2013 میں حکومت میں آئی اور جلد ہی معیشت کی بہتری کے لیے ایک پروگرام ترتیب دیا۔ معیشت، توانائی اورGood governance اس ایجنڈے کے بنیادی عوامل تھے۔ ہم نی میاں نواز شریف کی قیادت میں ان چیلنجز کا سامنا کیا۔ پانچ سالوں میں ہم نے سخت محنت کی۔

مشکل اور تکلیف دہ فیصلے کیے اور کبھی اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح نہیں دی۔ ہماری ایک اور صرف ایک ہی ترغیب رہی۔ عوام الناس کی خدمت۔ وہ عوام الناس جو کہ جمہوری نظام کے اصل مالک ہیں۔ جیسا کہ عباس تابش نے کہا ہی:بس اتنا کہنا ہے جمہوریت کے بارے میں،،،،قبول کیجئے جو فیصلہ عوام کریں۔ وزیر خزانہ اپنی تقریر میں کہا کہ اب میں اس ایوان کے سامنے اپنی حکومت کی معاشی کارکردگی کا جائزہ پیش کرتا ہوں۔

گزشتہ سال شرح نمو میں اضافے کی شرح 5.4 فیصد رہی جو کہ پچھلے دس برسوں کی بلند ترین شرح ہے۔ اس کے مقابلے میں پچھلی حکومت کے دوران 2008-13 میں یہ شرح سالانہ 2.8 فیصد تھی۔ موجودہ مالی سال میںیہ شرح 5.8 فیصد ہے جو کہ ْ پچھلے 13 سال میں سب سے زیادہ ہے۔ اس شرح نمو کے ساتھ پاکستان تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک میں شامل ہو گیا ہے۔ پچھلے پانچ سالوں میں معاشی ترقی کی بلند شرح کی بدولت معیشت کے حجم میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔

معیشت کا حجم FY2013 کے 22,385 ارب روپے کے مقابلے میں FY2018 میں 34,396 ارب روپے تک بڑھ گیا ہے۔ جبکہ اِسی عرصہ میں فی کس آمدنی 129,005 روپے سے بڑھ کر 180,204 روپے ہو چکی ہے۔ الحمد للہ آج ہم دُنیا کی 24ویں بڑی معیشت ہیں۔ زرعی شعبہ: زرعی شعبہ ہماری معیشت کی اہم بنیاد ہے۔ حالیہ سال زرعی شعبہ میں ترقی کی شرح 3.8 فیصد رہی جو کہ گزشتہ 18 سالوں کی بلند ترین شرح ہے۔

تمام بڑی فصلوں بشمول کپاس، چاول اور گنا کی پیداوار میں واضح اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ یہ بہتری حکومت کے گزشتہ پانچ بجٹ میں درست اور مناسب فیصلوں کی بدولت آئی۔ اس کے علاوہ سال 2015-16 میں میاں نواز شریف نے خصوصی کسان پیکیج کا اعلان کیا تھا۔ اس پیکیج کے تحت کھادوں اور زرعی ادویات کی قیمتیں کم کی گئی تھی اور زرعی قرضوں کی لاگت میں کمی اور چاول اور کپاس کے کاشتکاروں کی مالی مدد کی گئی تھی۔

صنعتی شعبہ: صنعتی پیداوار میں اس سال 5.8 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ترقی میں اضافے کی یہ شرح پچھلے دس سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔ صنعتی شعبہ میں یہ ترقی تاریخ کی کم ترین شرح سود اور کئی سالوں کی لوڈ شیڈنگ اور اندھیروں کے خاتمے اور بجلی اور گیس کی متواتر فراہمی سے ممکن ہوئی ہے۔ آج صحت مند صنعتی شعبہ روزگار کے لاکھوں اضافی مواقع فراہم کر رہا ہے۔

خدمات: سروسز یعنی خدمات میں بینک سے لین دین اور ریٹیل وغیرہ کے شعبے شامل ہیں۔ اس سال اس شعبے میں ترقی کی شرح 6.4 فیصد رہی ہے۔ اب آپ کو یہ جان کر حیرت نہیں ہو گی کہ یہ بھی اس دہائی کی بہترین کارکردگی ہے۔ : افراطِ زر پاکستان کے غریب لوگوں پر سب سے بڑا ٹیکس ہے۔ الحمدللہ ہم نے گذشتہ پانچ برس میں اوسط افراطِ زر 5 فیصد سے کم رکھی ہے جو کہ 2008-13 میں 12 فیصد تھی۔

موجودہ مالی سال میں مارچ2018 تک افراطِ زر کی شرح 3.8 فیصد رہی اور اشیائے خورد و نوش کیلئے یہ شرح صرف 2 فیصد تھی۔ ہمارے ان پانچ سال میں قیمتوں میں جو استحکام رہا اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ لیاتی خسارہ: سال 2013 میں مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 8.2 فیصد تھا۔ ہماری حکومت نے معیشت کے استحکام کے لیی مالیاتی ڈسپلن پر سختی سے عمل کیا جس کی بدولت انشاء اللہ اس سال مالیاتی خسارہ 5.5 فیصد تک محدود رکھا جائے گا۔

ہم نے حکومتی وسائل عوام کی امانت سمجھ کر صرف عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیے۔ ایف بی آر کے محاصل: مالی سال 2012-13 میں ایف بی آ نے 1,946 ارب روپے ٹیکس اکٹھا کیا تھا جبکہ اس سال ایف بی آر کی وصولیوں کا ہدف 3,935 ارب روپے ہے جوکہ پانچ سال پہلے کے مقابلے میں دگنا اضافہ ہے۔ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب مالی سال 2012-13 میں 10.1 فیصد تھا۔ رواں مالی سال میں یہ تناسب بڑھ کر 13.2 فیصد ہو جائے گا۔

گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ٹیکس وصولیوں میں یہ غیر معمولی اضافہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس کامیابی پر میں پاکستان کے ٹیکس دہندگان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ اسٹیٹ بنک کا پالیسی ریٹ جون 2013 میں 9.5 فیصد تھا جو کم ہو کر 2017 میں 5.75 فیصد ہو گیا جو پچھلی کئی دہائیوں کی کم ترین شرح ہے۔ ایکسپورٹ ری فنانس کا ریٹ جون 2013 میں 9.5 فیصد تھا جو کہ جون 2016 میں کم ہو کر 3 فیصد ہو گیا۔

طویل المدت مالیاتی سہولت پر شرحِ سود 11.4 فیصد سے کم کر کے 5 سے 6 فیصد کی گئی ہے۔ تاریخ کی کم ترین شرحِ سود کی بدولت کاروبار اور صنعت میں ترقی آئی ہے اور روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔زرعی قرضہ جات، پانچ سال پہلے زرعی شعبے کو قرضوں کی فراہمی 336 ارب روپے تھی جو کہ فروری 2018 میں 570 ارب ہو چکی ہے جبکہ جون 2018 کے آخر تک قرضوں کی فراہمی 800 ارب تک متوقع ہے۔

زرعی قرضوں پر شرحِ سود میں بھی کافی حد تک کمی کی گئی ہے۔نجی شعبے کے لئے قرضہ جات نجی شعبے کے قرضوں میں 383 فیصد اضافہ ہوا جو 2013 میں 93 ارب روپے سے بڑھ کر 2018 تک 441 ارب روپے تک جا پہنچے ہیں۔ برآمدات: اندرونی اور بیرونی وجوہات کی بنا پر برآمدات کا شعبہ دباؤ کا شکار رہا۔ حکومت کی مسلسل کوششوں،180 ارب روپے کے ایکسپورٹ پیکج اور Exchange Rate Adjustment کی بدولت حالیہ سال کے پہلے 9 ماہ میں برآمدات میں 13فیصد اضافہ ہوا ہے اور صرف مارچ کے مہینے میںسمندری راستے کے ذریعے برآمدات میں 24 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

ہم توقع کرتے ہیں کہ یہ بہتری جاری رہے گی۔ درآمدات: اس سال جولائی سے مارچ کے دوران درآمدت میں گزشتہ سال کی اس مدت کے مقابلے میں 17فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ درآمدات میں یہ غیر معمولی اضافہ مشینری کی درآمد، صنعتی خام مال اور پیٹرولیم مصنوعات میں اضافے کے باعث ہوا ہے۔ مستقبل میں ان درآمدات کی بدولت ملک کی پیداواری صلاحیت میں بہتری متوقع ہے جس سے برآمدات میں اضافہ ہو گا۔

اس سال CPEC (سی پیک )کے کئی منصوبوں کی تکمیل کی بدولت جون 2018 کے بعد درآمدات میں واضح کمی متوقع ہے۔ اس کے علاوہ روپے کی قدر میں ردوبدل کی بدولت بھی درآمدات کی رفتار میں کمی متوقع ہے ۔کرنٹ اکاؤنٹ: حالیہ مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں Productive درآمدات میں اضافے کی بدولت جاری کھاتوں کا خسارہ 12 ارب ڈالر تک بڑھ گیا ہے۔ حکومت نے اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کر لیے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ 30 جون 2018 کوغیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر موجودہ سطح سے بلند ہوں گے۔

بیرونی سرمایہ کاری 2013 کے 1.3ارب ڈالر سے بڑھ کر 2017 میں 2.7ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ حالیہ سال کے پہلے 9ماہ میں بیرونی سرمایہ کاری پچھلے سال کے اسی عرصے کے 1.9 ارب ڈالر کے مقابلے میں 2.1 ارب ڈالر رہی۔ بڑھتی ہوئی بیرونی سرمایہ کاری، سرمایہ کار کے اعتماد کا مظہر ہے۔ ترسیلات: 2013 میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی گئی ترسیلات 13.9 ارب ڈالر تھیں جو کہ مالی سال 2016-17 میں 19.3 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔

ہم توقع کر رہے ہیں کہ سال کے اختتام تک ترسیلات 20 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گی جو کہ پاکستان کی تاریخ میں ریکارڈ ہو گا۔غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر جب ہم نے حکومت سنبھالی تو ریزروز 6.3 ارب ڈالر کی حد تک گر چکے تھے۔ اکتوبر 2016 تک یہ Reserves بڑھ کر 19.4 ارب ڈالر تک آ گئے۔ تاہم تجارتی خسارے کا Reserves پر منفی اثر پڑا۔ اس وقت سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذخائر 11 ارب ڈالرکے قریب ہیں۔

حکومت ذخائر کو مناسب سطح پر رکھنے کے لیے ضروری اقدامات کر رہی ہے۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج مئی 2013 میں 19000 کی سطح پر تھی جبکہ موجودہ حکومت کی بہتر معاشی اصلاحات کی بدولت انڈکس مئی 2017 میں تاریخ کی بلند ترین سطح 53,124 پر پہنچ گیا۔مارکیٹ کیپٹلائزیشن تقریباً 100ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ مگر پھر سیاسی ہلچل کی وجہ سے دسمبر 2017 تک انڈکس 37,919 تک گر گیا۔

تاہم اس کے بعد انڈکس بہتر ہو کر اب تقریباً 46,000 پوائنٹس تک آ گیا ہے۔ نئی کمپنیوں کی رجسٹریشن: اس سال مارچ 2018 تک 8,349 نئی کمپنیاں رجسٹر کی گئیں جبکہ پچھلے سال یہ تعداد 5,883 تھی۔ پچھلے پانچ سالوں میں 33,285 نئی کمپنیاں رجسٹر کی گئیں۔ اس کے مقابلے میں 2008-13 تک صرف 17,079 کمپنیاں رجسٹرہوئی۔ نئی کمپنیوں کی رجسٹریشن میں اس قدر اضافہ بہتر کاروباری ترقی کی نشان دہی کرتا ہے۔

سرمایہ کاری میں اضافہ: بہتر طرزِ حکومت، کاروبار دوست پالیسیوں اور سیکیورٹی حالات میں بہتری کی وجہ سے سرمایہ کار پاکستان کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ CPEC کے تحت اہم شعبوں بشمول توانائی، انفراسٹرکچر، مواصلات، ٹیلی مواصلات، ٹیکسٹائل اور تعمیراتی شعبوں میں وسیع سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ اس سرمایہ کاری کی بدولت توانائی اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں بہتری کی وجہ سے معیشت کی برق رفتار ترقی ممکن ہوئی ہے۔

اندرونی اور بیرونی ذرائع سے پچھلے پانچ سال کے عرصہ میں معیشت میں 223 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی ہے جبکہ 2008 سے 2013 کے دوران صرف 140 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی۔ توانائی کے شعبے میں پیش رفت: پانچ سال پہلے ہمارے شہروں اور دیہات میں بجلی 16 سے 18 گھنٹے غائب رہتی تھی۔ ہم نے الیکشن 2013 میں سب سے بڑا وعدہ یہی کیا تھا کہ ہم بجلی کا بحران ختم کر دیں گے۔

آج یہ وعدہ پورا ہو چکا ہے۔ پاکستان کی تاریخ کے پہلے 66 (چھیاسٹھ) برسوں میں 20,000 میگا واٹ کی پیداواری صلاحیت حاصل کی گئی جبکہ پچھلے 5سال کے مختصر دور میں 12,230میگا واٹ کا اضافہ ہوا ہے۔ اس کامیابی میں میاں نواز شریف کے علاوہ میرے بڑے بھائی خواجہ محمد آصف اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی شبانہ روز محنت بھی شامل ہے۔ معاشی اصلاحات پیکج کا ذکر کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا معاشی ترقی کی رفتار مزید تیز کرنے کے لیے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے حال ہی میں 5 نکاتی معاشی اصلاحات پیکیج کا اعلان کیا ہے جس کے ذریعے پاکستان کی تاریخ میں ٹیکس کی سب سے بڑی کمی کی گئی ہے۔

اس پیکیج میں کی گئی چیدہ چیدہ اصلاحات یہ ہیں: انفرادی ٹیکس کی شرح کو کم کیا گیا ہے۔ بارہ لاکھ روپے سالانہ آمدن یا ایک لاکھ ماہانہ آمدن والے افراد کے لیے ٹیکس سے مکمل استثنیٰ کا اعلان کیا گیاہے جو کہ پچھلی حد سے تین گنا ہے۔ ایک لاکھ سے دو لاکھ ماہانہ آمدن والے افراد پر صرف 5 فیصد ٹیکس لاگو ہو گا۔ دو لاکھ سے چار لاکھ ماہانہ آمدن والے افراد پر ٹیکس کی شرح 10 فیصد ہو گی۔

چار لاکھ ماہانہ سے زیادہ آمدن والے افراد پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد ہو گی۔ پاکستان میں ٹیکس کا سب سے زیادہ بوجھ متوسّط اور تنخواہ دار طبقہ پر تھا جن میں اساتذہ، ڈاکٹرز، وکلاء، نرسیں اور اکاؤنٹنٹس وغیرہ شامل ہیں۔ ٹیکس ریٹ میں کمی سے سب سے زیادہ فائدہ اسی طبقے کو ہو گا۔ وہ لوگ جن کی آمدنی قابلِ ٹیکس ہے اور وہ اپنے حصے کا ٹیکس ادا نہیں کر رہے، حکومت ان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے Data miningکے ذریعے نئے اقدامات کر رہی ہے۔

حکومت اب ٹیکس ادا کرنے کی صلاحیت رکھنے والوں کے مالی ریکارڈ کی نگرانی کرے گی اور ٹیکس چوری کی شہادت ملنے کی صورت میں اُن کو نوٹس جاری کرے گی۔ اب جبکہ ٹیکس ریٹ اتنے کم کر دئیے گئے ہیں اور ڈیٹا مائننگ کے ذریعے اثاثہ جات کی تلاش شروع کر دی گئی ہے، ہم لوگوں کو اندرون ملک غیر اعلانیہ اثاثے ڈکلیئرکرنے کا آخری موقع دے رہے ہیں۔ 30جون 2017 سے پہلے کمائی گئی غیر اعلانیہ آمدنی اور اندرون ملک اثاثے (سونا، بانڈ، جائیداد وغیرہ) 5 فیصد ادائیگی کے بعد ریگولرائز کیے جا سکتے ہیں۔

غیر اعلانیہ رقم سے ڈالر خریدنے والے ڈالر اکائونٹ ہولڈرز 2فیصد ادائیگی سے انہیں ریگولرائز کر سکتے ہیں۔ آزاد معیشت اور بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے 1992 میںمعاشی اصلاحات کے تحفظ کا ایکٹ بنایا گیا۔ اس سہولت کے تحت زرِ مبادلہ کی اندرون اور بیرون مُلک نقل و حرکت پر کوئی پوچھ گچھ نہیں تھی۔ تاہم کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے اس سہولت سے کچھ عناصر نے ناجائز فائدہ اٹھایا۔

ہم نے قانون میں اس گنجائش کو تبدیل کیا ہے اور اب صرف فائلزز ہی غیرملکی کرنسی اکائونٹس میں رقوم جمع کروا سکیں گے۔ تاہم ایک شخص کیلئے ایک لاکھ ڈالر سالانہ تک زرِ مبادلہ ملک میں لانے پر آمدنی کے ذرائع پر کوئی سوال نہیں کیا جائے گا اور ٹیکس سے استثنیٰ ہو گی۔ تاہم ایک لاکھ سے بڑی رقوم پر لوگ ایف بی آر کو جواب دہ ہوں گے۔ ہم لوگوں کو یہ سہولت دے رہے ہیں کہ وہ اپنے غیر ظاہر شدہ غیر ملکی اثاثہ جات 3 فیصد کی ادائیگی پر ڈکلیئر کر دیں اور اپنے Liquid assets کو 5 فیصد پر ڈکلیئر کر دیں۔

زمین اور جائیداد کی Under Declaration کو روکنے کیلئے ریاست کو اختیار ہوگا کہ وہ رجسٹری کے 6 ماہ کے اندر کوئی بھی زمین/جائیداد کی اعلان کردہ قیمت سے دگنی قیمت پر خرید سکے۔ اس کے علاوہ نان فائلر 40 لاکھ سے زائد قیمت کی جائیداد نہیں خرید سکیں گے۔ یکم جولائی 2018 سے ایف بی آر کے پراپرٹی ریٹ ختم کیے جا رہے ہیں۔ صوبوں کو DC ریٹس ختم کرنے کی بھی تجویز کر دی گئی ہے۔

فائلر کے لیے جائیداد کی خرید پر ٹیکس صرف ایک فیصد ہو گا۔ یہ ایک تاریخی اقدام ہے جس سے معیشت کی ڈاکیومنٹیشن میں مدد ملے گی۔بجٹ حکمت عملی کے حوالے سے وزیر خزانہ نے اپنی تقریر میں کہا اس سال کے بجٹ سٹرٹیجی کے کچھ اہم اہداف یہ ہیں: (a)جی ڈی پی کی شرح میں 6.2فیصد اضافہ، (b) 6فیصد سے کم افراطِ زر، (c) ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 13.8 فیصد ۔(d) بجٹ خسارہ کی شرح 4.9فیصد۔

(e) Net Public Debt to GDP کو 63.2 فیصد تک رکھنا۔(f) زرِمبادلہ کے ذخائر 15ارب ڈالر اور (g) سوشل سیفٹی کے اقدامات کو جاری رکھنا۔مفتاح اسماعیل نے کہا درمیانی مدت کیلئے میکرو اکنامک پالیسی مقصد بہتر اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ External اکائونٹ کے عدم توازن کو درست کرنا ہے۔ اگلے تین سالوں میں مالیاتی خسارہ کم کیا جائے گا، مالیاتی پالیسی پر محتاط نگاہ رکھی جائے گی اور سرمایہ کاری کے ماحول کو بہتر بنانے، برآمدات کے فروغ، مالی استحکام، PSEs اور توانائی کے شعبوں میں اگلے درجے کی اصلاحات کا آغاز ہو گا۔

PSEsکا خسارہ کم کرنا اور ٹیکس بیس کو وسعت دینا ہماری ترجیحات ہونی چاہئیں۔ ان مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے مندرجہ ذیل بجٹ حکمتِ عملی پیش کی جارہی ہے۔ایف بی آر ٹیکس آمدنی کا ہدف 4,435 ارب روپے مقرر کیاگیا ہے۔ یہ ہدف بہتر ٹیکس اقدامات اور بہتر ٹیکس ایڈمنسٹریشن کے ذریعے حاصل کیا جائے گا۔ ٹیکس Base میں اضافہ اور ٹیکس کی شرح میں کمی کی جارہی ہے۔

حکومت سماجی تحفظ خاص طور پر BISP میں سرمایہ کاری جاری رکھے گی اورٹارگٹڈ سبسڈی سکیم کے تحت سماج کے پسماندہ طبقے کیلئے اقدامات جاری رکھے گی۔ بی آئی ایس پی کیلئے 125 ارب روپے کی تجویز ہے جبکہ سبسڈی کی مد میں 179 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔ وزیر اعظم کی یوتھ سکیم جاری ہے اس مقصد کیلئے 10 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ۔پی ایس ڈی پی کیلئے بجٹ میں 800 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے جبکہ 230 ارب روپے کی اضافی رقم خود مختار اداروں،پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ور دیگر ذرائع سے مہیا کی جائے گی۔

پانی، سڑکوں، بنیادی ڈھانچے، بجلی کے شعبے اور سی پیک میں سرمایہ کاری کو یقینی بنایا جائے گا۔ساتویں این ایف سی ایوارڈز کے بعد وفاقی حکومت کی مالیاتی گنجائش میں 10-11 فیصد کمی آئی ہے تاہم وفاقی حکومت کی مالیاتی ذمہ داریاں کم نہ ہو سکیں۔ ساتویں این ایف سی ایوارڈز کے نتیجے میں آٹھ سالوں میں صوبوں کو اضافی 2500 ارب روپے منتقل ہوئے ہیں۔

اس دوران وفاقی حکومت کو خصوصی سیکیورٹی اور ٹی ڈی پیز کے لئے خطیر رقم مختص کرنا پڑی۔خصوصی اقدامات 2018-19کا ذکر کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ اب میں ایوان کے سامنے ان خصوصی اقدامات کا اعلان کروں گا جو ہم نے آئندہ مالی سال کے لیے تجویز کیے ہیں۔ زراعت کا شعبہ۔مضبوط زرعی شعبہ معیشت کی بہتری کا ضامن ہوتا ہے۔ پاکستان کو زرعی پیداوار میں اضافے، زرعی ٹیکنالوجی، تحقیق و ترقی اور کھیتی باڑی میں بدلتے رجحانات میں بہتری کیلئے دوبارہ ایک Second green revolution کی ضرورت ہے۔

جب تک سبسڈی کی روایت کو ختم کرکے منڈیوں کی ضروریات پر مبنی پالیسی سازی نہ کی گئی تب تک زرعی شعبے میں مثبت تبدیلی ممکن نہیں۔ لہٰذا آئندہ کیلئے وفاقی حکومت سبسڈی کے حوالے سے تمام فیصلے صوبائی حکومتوں پر چھوڑتی ہے جبکہ وفاقی حکومت کی توجہ اب تحقیق و ترقی کیلئے سازگار ماحول مہیا کرنے ، پیداوار میں اضافے، منڈیوں تک رسائی، انتظامات اور ٹیکنالوجی میں بہتری لانے پر ہوگی۔

اس حوالے سے ہم ابتدائی طور پر جن اقدامات کا اعلان کر رہے ہیں وہ کچھ یوں ہیں: سال 2017-18 میں دی جانے والی مراعات کو جاری رکھنا: گزشتہ بجٹ میں جن مراعات کا اعلان کیاگیا تھا ان میں شرحِ سود میں کمی، زرعی قرضہ جات کی حد میں اضافہ، Harvester پر کسٹم ڈیوٹی میں چھوٹ، سورج مکھی اور کنولا کے بیج کی درآمد پر جنرل سیلز ٹیکس (GST) کے خاتمے جیسے اقدامات شامل تھے۔

مالی سال 2018-19 کے دوران بھی یہ سب مراعات جاری رکھی جائیں گی۔ تمام کھادوں پر جنرل سیلز ٹیکس کی یکساں شرح کا نفاذ: کاشتکاری کے حوالے سے کھاد کی اہمیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہماری حکومت نے کھاد پر سیلز ٹیکس میں کمی کی جو کہ DAP پر 17 فیصد کی بلند شرح سے کم کرکے 4 فیصد کی گئی جبکہ یوریا پر 5 فیصد اور دیگر کھادوں پر 9 سے 11 فیصد تک کمی کی گئی۔ مجھے اس بات کا اعلان کرتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ یکم جولائی 2018ء سے تمام کھادوں پر جنرل سیلز ٹیکس کی شرح کو یکساں کرتے ہوئے 2 فیصد تک کم کر دیا جائے گا۔

زرعی مشینری پر جی ایس ٹی کی شرح کو موجودہ 7 فیصد سے کم کرکے 5فیصد تک کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ ڈیری اور لائیو سٹاک کیلئے بھی ٹیکس اور ڈیوٹی میں چھوٹ کی تجویز ہے۔ اس حوالے سے مزید تفصیلات کا اعلان بجٹ تقریر کے حصہ دوئم میں کیا جائے گا۔ کپاس کی پیداوار اور معیار میں بہتری: ملکی معاشی ترقی اور برآمدات میں اضافے کیلئے کپاس کی معیاری اور وسیع پیداوار بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔

پاکستان کپاس کی پیداوار کے حوالے سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ لیکن کپاس کی مصنوعات کی برآمد کے لحاظ سے پاکستان بہت پیچھے ہے۔ ہمیںایکسپورٹ ویلیو میں بہتری کیلئے معیار اور مقدار دونوں میں بے حد اضافے کی ضرورت ہے۔ اس امر کے پیشِ نظر کپاس کے معاملے کو وزارت ٹیکسٹائل سے لے کروزارت برائے نیشنل فوڈ سیکورٹی و ریسرچ کے حوالے کیا گیا ہے۔

وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر کپاس کی پیداوار اور معیار کی بہتری کے لیے کوششیں کر رہی ہے۔پلانٹس بریڈرز رائٹس ایکٹ کو حال ہی میں ہماری حکومت نے نافذ کیا ہے جو کہ گذشتہ 15 برس سے التوا کا شکار تھا۔ اس قانون کے تحت قائم ہونے والی Plant Breeders Registry سے بہتر معیار کا بیج دستیاب ہو سکے گا جس سے ملک میں کپاس اور دیگر فصلوں کی زیادہ پیداوار والی اقسام کی کاشت ممکن ہو گی۔

زرعی ٹیوب ویلوں کیلئے سستی بجلی: فصلوں کیلئے پانی کی فراہمی نہایت ضروری ہے۔ اس لیے حکومت زرعی ٹیوب ویلوں کو کم قیمت پر بجلی فراہم کر رہی ہے۔ مالی سال 2018-19 کے دوران بھی یہ اسکیم ان علاقوں میں جاری رکھی جائے گی جہاں صوبائی حکومتیں اس سبسڈی کا نصف بوجھ برداشت کرنے پر متفق ہوں گی۔ زرعی تحقیق کیلئے امدادی فنڈ کا قیام:حکومت 5 ارب روپے سے زرعی سپورٹ فنڈ قائم کر رہی ہے۔

یہ فنڈ زرعی پیداوار میں اضافے کیلئے پودوں اور بیج کی جدید اقسام پر کی جانے والی تحقیق و ترقی کیلئے مالی معاونت فراہم کرے گا۔اس فنڈ کا انتظام وزارتِ خزانہ اوروزارت برائے نیشنل فوڈ سیکورٹی و ریسرچ مشترکہ طور پر چلائیں گے۔زرعی ٹیکنالوجی فنڈ: حکومت نے ملک میں زرعی ٹیکنالوجی کی ترویج کیلئے 5 ارب روپے سے ایک علیحدہ فنڈ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ فنڈ بھی مشترکہ طور پر وزارت خزانہ اوروزارت برائے نیشنل فوڈ سیکورٹی و ریسرچ کے زیر انتظام ہوگا۔ یہ فنڈ مختلف اداروں کے تعاون سے جدید زرعی ٹیکنالوجی کی مقامی سطح پر تیاری کو فروغ دے گا۔ زرعی تحقیقی اداروں کی بحالی: وزارت برائے نیشنل فوڈ سیکورٹی و ریسرچ زرعی تحقیقی اداروں کو فعال کرنے اور ان کو عالمی معیار کے برابر لانے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔

اس حوالے سے ضروری مالی امداد کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔برآمدات میں اضافہ: گذشتہ 5سالوں کے دوران ہم نے ٹیکسٹائل اوردیگر شعبوں کی برآمدات میں بہتری کیلئے کئی اقدامات کیے۔ ان اقدامات میں LTFF اور ERF پر مارک اًپ کی شرح میں بالترتیب 5 فیصد اور 3فیصد تک کی تاریخی کمی، ٹیکسٹائل مشینری کی ڈیوٹی فری درآمد، صنعتوں کیلئے بجلی اور گیس کی بلا تعطل فراہمی، 5بڑے برآمدی شعبہ جات کیلئے زیر رو ریٹنگ کی سہولت اور 180 ارب روپے کا ایکسپورٹ پیکج شامل ہے۔

یہ اقدامات برآمدات میں کمی کی فوری روک تھام کیلئے کیے گئے تھے۔ ہمیں اب وقتی اور عارضی حل ڈھونڈنے کی بجائے منڈیوں کے رجحانات کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے سرے سے پالیسی سازی کرنی ہوگی۔ آئندہ لائحہ عمل کے طور پر معقول سبسڈیز کے ساتھ ساتھ پیداواری لاگت میں بھی کمی کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ اس کا آغاز ہم اسی بجٹ سے کر رہے ہیں جیسا کہ :زیرو شرح رجیم : ٹیکسٹائل، چمڑے اور کھیلوں کی مصنوعات، آلاتِ جراحی اور قالین بافی جیسے پانچ بڑے برآمدی شعبہ جات کوزیرو ریٹڈ سیلز ٹیکس زجیم میں جاری رکھا جائے گا۔

حکومت نے آلو کی برآمد پر Freight Support دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کی تفصیل طے کی جا رہی ہے۔ایل ٹی ایف ایف اور ای آر ایف ریٹس : اسٹیٹ بنک کی پالیسی کے تحت طویل المدت مالیاتی سہولت اور ایکسپورٹ ریفائننس سہولت پر مارک اًپ کی کم شرح جاری رہے گی۔ٹیکسٹائل پالیسی اور سٹریٹجک ٹریڈ پالیسی فریم ورک کے تحت برآمدات کے فروغ کی اسکیمیں: ٹیکسٹائل پالیسی 2014-19 کے تحت دی جانے والی مراعات مالی سال 2018-19 میں بھی جاری رہیں گی۔

وزارتِ تجارت سٹریٹیجک ٹریڈ پالیسی فریم ورک 2018-23 پر کام کر رہی ہے۔ ان پالیسیوں کے تحت شروع کی جانے والی اسکیموں کے لیے 10 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ ٹیرف ری سٹریکچرنگ برآمدی صنعتوں میں بطور خام مال استعمال ہونے والی متعدد اشیاء پر ٹیکس کی شرح میں کمی تجویز کی گئی ہے۔ ان کی تفصیلات فنانس بل کے حصہ دوئم میں بیان کی جائیں گی۔ ٹیکسوں کی شرح پر اس نظرثانی سے برآمدات کی Competitiveness بڑھنے کے ساتھ ساتھ کیورنٹ اکائنٹ خسارہ کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

برآمدی شعبہ جات کے ری فنڈز:ایکسپورٹرز کے ری فنڈز کے حوالے سے درپیش مسائل کے حل کیلئے مندرجہ ذیل اقدامات تجویز کئے جاتے ہیں: ہم برآمدی شعبے کے لیے کی جانے والی درآمدات پرزیر و ریٹنگ کی طرف جا رہے ہیں تاکہ نئے ری فنڈ کلیمز میں واضح کمی آ سکے۔ یکم جولائی 2018 سے زیر التوا ء ری فنڈ کلیمز کو اگلے 12 ماہ کے دوران مختلف مراحل میں ادا کیا جائے گا۔

یکم جولائی 2018 کے بعد تمام نئے ری فنڈ کلیمز ری فنڈ کلیمز پر قانون کے مطابق ماہانہ ادائیگی کی جائے گی اور کوئی تاخیر نہیں ہو گی۔ حکومت پاکستان برآمدات کے فروغ کیلئے ایک نئے ایکسپورٹ پیکیج پر کام کر رہی ہے۔ مجوزہ ایکسپورٹ پیکیج معروضی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ویلیو ایڈڈ سیکٹر اور غیر روایتی اشیاء کی برآمدات بڑھانے پر توجہ دے گا۔

وزیر خزانے مالیاتی شعبہ ، ترسیلاتِ زر کے حوالے سے کہا یرونِ ملک پاکستانیوں کی طرف سے آنے والی ترسیلاتِ زر ملکی زرِ مبادلہ کا بڑا ذریعہ ہیں۔ قانونی ذرائع سے ترسیلات زر کی حوصلہ افزائی کے لیے حکومت نے آئندہ مالی سال میں جن مراعات کا فیصلہ کیا ہے وہ یہ ہیں: سمندر پار پاکستانیوں کیلئے انعامی اسکیم: ملک میں آنے والی وہ تمام ترسیلاتِ زر جو کہ کمرشل بنکوں، ایکسچینج کمپنیوں اور دیگر مالیاتی اداروں کے ذریعے آئیں گی انہیں قرعہ اندازیوں میں شامل کیا جائے گا۔

اسٹیٹ بنک بہت جلد اس انعامی سکیم کی تفصیلات کا اعلان کرے گا۔ زرعی قرضوں کے ہدف میں اضافہ: چھوٹے کسانوں کے لیے قرضوں کی دستیابی اور رسائی بہت اہم ہے۔ ہماری حکومت نے زرعی قرضہ جات کا ہدف 2013 کے 315 ارب روپے سے بڑھا کر 2018 میں 1001 ارب روپے کر دیا۔ آئندہ مالی سال کے لیے اس ہدف کو 1100 ارب روپے تک بڑھایا جا رہا ہے۔پیداواری انڈیکس یونٹس اسی طرح زرعی پیداوار پر ہونے والے اخراجات میں اضافے اور قرضہ جات کی بڑھتی ہوئی طلب کے پیش نظر PIU کی قدر کو 6 ہزار روپے تک بڑھایا جائے گا۔

PIU کی قدر 2013 میں 2000 روپے تھی جسے ہم نے رواں مالی سال میں 5000 روپے تک بڑھایا تھا۔فلم اورڈرامہ انڈسٹری کے حوالے سے انہوں نے کہا جناب اسپیکر! پاکستان کی فلم انڈسٹری جوکہ60 کی دہائی میں دنیا کی تیسری بڑی انڈسٹری تھی۔ حکومت اس کے لیے ایک مالی پیکیج کا اعلان کرنے جا رہی ہے۔ اس پیکیج کا مقصد فلم انڈسٹری کی ترقی کے لیے سازگار ماحول اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنا اورپاکستانی کلچر کو فروغ دینا ہے۔

اس پیکیج کی بنیادی خصوصیات یہ ہیں۔ ڈرامہ، فلم سازی اور سینما کی ساز و سامان کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی کی شرح کم کرکے 3 فیصد اور سیلز ٹیکس کم کرکے 5 فیصد کیا جا رہا ہے۔ فلم اور ڈرامہ کے فروغ کیلئے ریوالونگ فنڈقائم کیا جا رہا ہے جس سے فلم انڈسٹری اور مستحق فنکاروں کو مالی امداد دی جائے گی۔ اس کے علاوہ فلم کے پر اجیکٹس پر سرمایہ کاری کرنے والے افراد اور کمپنیوں کیلئے 5 سال تک انکم ٹیکس پر 50 فیصد چھوٹ دی جا رہی ہے۔

کستان میں بننے والی غیر ملکی فلموں پر عائد انکم ٹیکس پر 50 فیصد چھوٹ دی جا رہی ہے۔ فلم پالیسی کی مزید تفصیلات میری چھوٹی بہن مریم اورنگزیب کچھ دنوں میں پیش کریں گی۔ کراچی کی ترقی کے حوالے سے وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں کہا کراچی پاکستان کی کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں کا گڑھ ہے اور ملکی آمدن میں اس کا بڑا حصہ ہے۔ 2013 میں اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان مسلم لیگ(ن) حکومت نے بڑی کامیابی سے کراچی میں امن و امان کو بحال کرتے ہوئے کاروباری طبقے کے اعتماد میں اضافہ کیا اور معاشی سرگرمی کو فروغ دیا۔

جہاں لاہور اور ملتان کی میٹرو بس منصوبوں کو صوبائی حکومتوں نے فنڈ کیا وہیں کراچی میں Green Line Rapid Transit System کو وفاقی بجٹ سے تعمیر کیا جا رہا ہے۔ موجودہ مالی سال تک اس منصوبے پر 16 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ اس حوالے سے سڑکوں اور پلوں کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے جبکہ صوبائی حکومت ابھی تک بسوں کی خریداری کے لیے کنٹریکٹ جاری نہیں کر سکی۔ آج میں یہ پیشکش کرتا ہوں کہ اگر سندھ حکومت کراچی کیلئے بسیں نہیں خرید سکتی تو وفاقی حکومت ایسا کرنے کو تیار ہے۔

پچھلی حکومت کے دوران یہ طے پایا تھا کہ وفاقی حکومت کے فور پانی کا منصوبہ کی لاگت کا ایک تہائی حصہ ادا کرے گی۔ تاہم اس حوالے سے کوئی ادائیگی نہیں کی گئی اور یہ منصوبہ شروع نہیں ہو سکا تھا۔ یہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کی حکومت تھی جس نے K4 منصوبے کیلئے فنڈز کا اجراء کیا اور میاں نواز شریف نے کل لاگت کا 45 فیصد ادا کرنے کی بھی رضا مندی ظاہر کی۔

یہ منصوبی تاخیر کا شکار ہے جس کی وجہ سے منصوبے کی لاگت میں 400 فیصد سے بھی زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ کراچی کو پانی کے شدید بحران کاسامنا ہے عرصہ دراز سے پیش اس مسئلے کے حل کے لیے آج وفاقی حکومت سمندری پانی کو قابل استعمال بنانے کے پلانٹ کی نئی اسکیم کا اعلان کر رہی ہے۔ یہ پلانٹ نجی شعبے کے ذریعے تعمیر کیا جائے گا اور یومیہ 50 ملین گیلن پانی فراہم کرے گا جس سے کراچی میں پینے کے پانی کے مسائل کافی حد تک کم ہو جائیں گے۔

انشاء اللہ اپنے شہر میں پانی کے مسئلے کو حل کرنے میں کردار ادا کرنا میرے لیے فخر کی بات ہو گی۔ اس مقصد کے لیے وفاقی حکومت نجی شعبے کے ساتھ شراکت داری سے ضروری فنڈزاور گارنٹی کا بند و بست کرے گی۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم نے کراچی کے لیے 25 ارب روپے کے خصوصی Package کا بھی اعلان کیا ہے۔ اس پیکیج میں بنیادی ڈھانچے اور سماجی شعبے کی سہولتوں کے علاوہ سڑکوں، پلوں اور آگ بجھانے کے منصوبوں کی منظوری دی جا چکی ہے اور اس مقصد کے لیے موجودہ سال کے بجٹ میں 3 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

آئندہ مالی سال کے لیے اس مد میں 5 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ میری ذاتی درخواست پہ وزیرِ منصوبہ بندی جناب احسن اقبال نے کراچی میں Expo Centre کی توسیع کیلئے رقم فراہم کر دی ہے ۔چائلڈ ہوڈ ڈیویلپمنٹ کے حوالے سے انہوں نے کہا تعلیم کے حوا لے سے ہم ایک نئے پروگرام کا آغاز کر رہے ہیں جس کا نام 100,100,100 ہے۔ یہ وفاقی حکومت کا عہد ہے کہ 100 فیصد بچوں کے سکول میں داخلے، 100 فیصد بچوں کی سکول میں حاضری اور بفضلِ تعالیٰ 100 فیصد بچوں کے کامیابی سے فارغ التحصیل ہونے کو یقینی بنائے گی۔

یہ محض وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا ہی نہیں بلکہ پوری پارلیمنٹ کا پاکستان کے بچوں سے عہد ہے۔ 70 سال کی طویل مدت کے بعد بھی ہم پاکستانی رہنماؤں نے اس ملک کے بچوں کو مایوس کیا ہے۔ ہم ان کو تعلیم کی ر وشنی فراہم نہیں کر سکے۔ اب ایسا نہیں ہو گا۔ اگرچہ تعلیم کا شعبہ اب صوبوں کو منتقل ہو چکا ہے۔ پھر بھی وفاقی حکومت مالی اور انتظامی لحاظ سے ہر صوبے کو اس مقصد کے حصول میں معاونت فراہم کرے گی۔

یہ کوئی سیاسی معاملہ نہیں ہے یہ ایک قومی عہد ہے جو میں آج پاکستان کے بچوں سے کر رہا ہوں۔ ہم آپ کو تعلیم دیں گے اور ہم 100,100,100پر مُصِر رہیں گے۔ تین بچو ںکے باپ کی حیثیت سے مجھے یہ بتاتے ہوئے شرم محسوس ہو رہی ہے کہ ہمارے ملک کے 39 فیصد بچے خوراک اور غذائیت کی کمی کی وجہ سے Stunted growth کا شکار ہیں۔ جناب اسپیکر! یہ ہم سب کے لیے چونکا دینے والی بات ہے۔

ایسا اب مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔ آج میں وزیر اعظم کی ہدایت پر اس مقصد کے لیے 10 ارب روپے کی رقم سے ایسے پروگرام کا اعلان کرتا ہوں جس سے بچوں میں نشونما کے مسائل ختم ہو جائیں گے۔ اگر یہ پروگرام بہت جلد فعال ہو گیا تو میں ساری پارلیمنٹ کی جانب سے اس عزم کا اعلان کرتا ہوں کہ اس مقصد کے لیے جو بھی رقم درکار ہوئی وہ سپلمنٹری گرانٹ کے ذریعے مہیا کی جائے گی۔

آج بابائے قوم کی تصویر کے سامنے پاکستانی جمہوریت کے اس مرکز میں پارلیمنٹ اور وزیراعظم کی طرف سے اس امر کا اعادہ کرتا ہوں کہ 2020 تک ملک سے بچوں میں Stunting کے مسئلے کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ ترقیاتی منصوبہ (پی ایس ڈی پی )پچھلے پانچ برسوں میں ہماری حکومت نے ترقیاتی اخراجات میں کئی گنا اضافہ کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 2008 سے 2013 کے دوران پی ایس ڈی پی کی مد میں خرچ کیے جانے والے 1300 ارب روپے کے مقابلے میں 3,000 ارب روپے خرچ کئے جو کہ 230 فیصد کا اضافہ ہے۔

میں اعتماد کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ عوام کا یہ پیسہ میرے بھائی احسن اقبال کی نگرانی میں عوام کی فلاح و بہبود پر انتہائی ایمانداری اور شفافیت کے ساتھ خرچ کیا گیا۔ اب جبکہ معیشت کے مختلف شعبوں میں ترقیاتی پروگرام کے ذریعے سرمایہ کاری جاری ہے، میں چاہوں گا کہ سی پیک کے منصوبوں پر روشنی ڈالوں۔ سی پیک کے تحت زیادہ تر سرمایہ کاری توانائی، سڑکوں، مواصلات کے بنیادی ڈھانچے اور گوادر پر ہے۔

CPEC کے تحت ہماری حکومت نے شمالی پاکستان کو گوادر سے ملانے کے لیے سڑکوں کے منصوبے شروع کیے ہیں۔ Trans-Pakistan Corridor کے تحت موٹرویز اور سپیشل اکنامک زونز بنائے جا رہے ہیں جن سے روزگار کے مواقع، پیداواری صلاحیت میں اضافہ، حوشحالی اور ترقی متوقع ہے۔ کراچی سے لاہور موٹروے، تھاکوٹ، حویلیاں موٹر وے،استبگے ایکسپریس وے گوادر اور بہت ساری دوسری سڑکوں کے ذریعے پاکستان میں گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا ، پنجاب ، بلوچستان اور سندھ کو ایک دوسرے سے منسلک کیا جار ہا ہے، جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔

سی پیک کے تحت حکومت نے Mainline-1 پر کراچی سے پشاور تک ٹرینوں کی رفتار کو 3 گنا تک بڑھانے کا منصوبہ تشکیل دیا ہے۔ Mainline-1 پر ٹرینوں کی موجودہ اوسط رفتار 55 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے جسے سال 2021 تک 160 کلومیٹر فی گھنٹہ تک بڑھایا جائے گا۔ اس منصوبے کے تحت کراچی تا پشاور اور ٹیکسلا تا حویلیاں ریلوے ٹریک کو دورویہ کیا جائے گا۔ اس پر 900ارب روپے سے زیادہ کی لاگت آئے گی۔

اس منصوبے کے نتیجے میں لوگ ملک کے شمال سے جنوبی علاقوں تک 12 گھنٹے یا اس سے بھی کم وقت میں سفر کر سکیں گے۔ توانائی کے حوالے سے وزیر خزانہ کا کہنا تھاکہ ہماری حکومت نے توانائی کے شعبے میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے بجلی کی فراہمی کا اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے۔ اب تک 12,230 میگاواٹ اضافی بجلی قومی گرڈ میں شامل کی ہے۔

بجلی کے اہم منصوبوں کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ 969 میگاواٹ کا Run of River منصوبہ ہے جوکہ انجینئرنگ کا شاہکار ہے جس کا 90 فیصد حصہ زیرِ زمین ہے۔حال ہی میں وزیرِ اعظم نے اس کے پہلے ٹربائن کا افتتاح کیا ہے۔ تربیلا پاور اسٹیشن میں چوتھے یونٹ کا اضافہ کیاگیا ہے جس سے بجلی کی پیداوار میں 1410 میگاواٹ کا اضافہ ہوا۔ حویلی بہادر شاہ، بھکی اور بلوکی میں 3600 میگاواٹ کے RLNG Based پلانٹس لگائے گئے ہیں۔

ساہیوال اور پورٹ قاسم میں واقع پاکستان کے پہلے Super-Critical Coal-fired پاور پلانٹس فعال ہوچکے ہیں۔ 680 میگاواٹ کے چشمہ نیوکلیئر پلانٹس C-III اور C-IV بھی فعال ہو چکے ہیں۔ 1000 میگاواٹ سے زیادہ قابل تجدید توانائی کے منصوبے جو بغیر کسی ایندھن کے بجلی بنائیں گے۔ تاہم بجلی کے شعبے میں ہماری سرمایہ کاری صرف یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ مالی سال 2018-19 کے دوران بجلی کے شعبے میں 138 ارب روپے کی سرمایہ کاری تجویز کی گئی ہے۔

جس کی تفصیل کچھ یوں ہی: 27.5 ارب روپے کی لاگت سے جامشورو سندھ میں 600MW کے دو کوئلے سے چلنے والے بجلی کے منصوبے لگائے جائیں گے۔ خیبر پختونخواہ کے ضلع کوہستان میں داسو پن بجلی منصوبہ کی تعمیر کے پہلے مرحلے کے لیے 76 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لیے 32.5 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں اور تربیلا چوتھے توسیعی ہائیڈروپاور پراجیکٹ کے لیے 13.9 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔

پانی کے حوالے سے وزیر خزانہ نے کہا میں پاکستان کے عوام کو دیامر بھاشا ڈیم کی حالیہ منظوری کے تاریخی موقع پر مبارکباد پیش کرنا چاہوں گا جس پر کُل لاگت 474 ارب روپے آئے گی۔ ڈیم میں 64 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہو گی۔ اس ڈیم سے ہماری پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 38 دن سے بڑھ کر 45 دن ہو جائے گی۔ اس منصوبے کے لیے مالی سال 2018-19 کے دوران 23.7 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔

پانی کے شعبے میں مجموعی سرمایہ کاری 2017-18 کے 36.7 ارب سے بڑھ کر 2018-19 میں 79 ارب روپے ہو جائے گی۔ قومی شاہراہات ،شاہراہوں کا ایک موثر نظام معاشی ترقی کا ضامن ہے۔ مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے شاہراہوں پر سرمایہ کاری کو 2012-13 کے 50 ارب روپے کے مقابلے میں سال 2017-18 میں 320 ارب روپے تک بڑھا دیا۔ گذشتہ 5 سالوں کے دوران اس سلسلے میں PSDP سے 842 ارب روپے خرچ کئے گئے ہیں۔

جبکہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے بجٹ کے علاوہ 500 ارب روپے کی فنانسنگ کا بندوبست بھی کیا گیا۔ اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں 3655 کلومیٹر نئی شاہراہیں تعمیر کی گئیں جس میں 1785کلومیٹر کی موٹر ویز شامل ہیں۔ 1990 کی دہائی میں میاں نواز شریف پشاورسے لاہور کے سفر میں انقلابی تبدیلی لے کر آئے۔ اپنے موجودہ دور میں انہوں نے اس امر کو یقینی بنایا ہے کہ پورے ملک میں آمدورفت کے لیے ایسا ہی نظام موجود ہو۔

پورے ملک میں موٹر وے کا جال بچھانے کا ان کا خواب تکمیل کے نزدیک ہے۔ موجودہ مالی سال کے اختتام تک ملک میں موٹرویز کی لمبائی 2500 کلومیٹر تک پہنچ جائے گی۔ اب تک مکمل ہونے والے منصوبوں کی فہرست یوں ہی: 58 کلومیٹر فیصل آباد۔گوجرہ موٹر وے،136 کلومیٹر حیدر آباد۔کراچی موٹر وے،56 کلومیٹر خانیوال۔ملتان موٹر وی اس سال ہم یہ منصوبے مکمل کریں گے۔

خضدار شہداد کوٹ موٹروے،230 کلومیٹر لاہور۔ملتان موٹروے، 62 کلومیٹر گوجرہ۔شورکوٹ موٹروے،64 کلومیٹر شورکوٹ۔خانیوال موٹروے،91 کلومیٹر سیالکوٹ۔لاہور موٹروے،57 کلومیٹر ہزارہ موٹروے۔ ملک کے مغربی حصے میںشمالی جنوب رابطہ کو اسلام آباد-پشاور موٹر وے پر برہان سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان اور آگے براستہ ژوب کوئٹہ تک موٹرویز اور ہائی ویز کی تعمیر کے ذریعے بہتر بنایا جا رہا ہے۔

یہ کام 2020ء تک مکمل کر لیا جائے گا۔ میاں محمد نواز شریف پہلے ہی گوادر تا کوئٹہ لنک کا افتتاح کر چکے ہیں جس کی بدولت گوادر اور کوئٹہ کا درمیانی فاصلہ 24 گھنٹے سے کم ہو کر 8 گھنٹے رہ گیا ہے۔ اس طرح پہلی بار گوادر پورٹ سے وسطی ایشیاء اور افغانستان بھی منسلک ہو گئے ہیں۔ بجٹ 2018-19 میں ہم نے شاہرات کے لیے 310ارب روپے تجویز کیے ہیں۔ ریلویز :گذشتہ پانچ سال میں پاکستان ریلوے کی آمدن میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔

سال 2018-19 کے بجٹ کیلئے 35 ارب روپے کی Recurrent بجٹ گرانٹ کے علاوہ ترقیاتی سرمایہ کاری کیلئے 39 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ گوادر کی ترقی:گوادر کی بندرگاہ کو عالمی تجارت کیلئے مکمل فعال کرنے کا خواب اب بتدریج حقیقت میں تبدیل ہو رہا ہے۔ سال2018-19 کے بجٹ میں ہمارا بنیادی مقصد جاری منصوبوں کی تکمیل کیلئے ضروری وسائل مختص کرنا ہے۔ ان منصوبوں میں گوادر ایئر پورٹ اور اس سے ملحقہ سڑکوں کی تعمیر، پورٹ کی سہولیات بشمول، صاف پانی کا پلانٹ، 50 بیڈز کے ہسپتال کو 300 بیڈز تک اًپ گریڈ کرنا، گوادر ایکسپورٹ پراسیسنگ زون کیلئے انفراسٹرکچر کی تعمیر، سی پیک انسٹیٹیوٹ کا قیام اور ڈیموں کی تعمیر شامل ہے۔

2018 کے پی ایس ڈی پی میں گوادر کی ترقی کے 31 منصوبوں پہ 137 ارب روپے کی لاگت آئے گی۔انسانی ترقی ؔ: وفاقی حکومت اعلیٰ تعلیم، بنیادی صحت کی سہولیات اور نوجوانوں کیلئے پروگرامز کے حوالے سے مالی مدد جاری رکھے گی۔ اس مقصد کیلئے ہم پی ایس ڈی پی میں ایچ ای سی کیلئے 57ارب روپے ، بنیادی صحت کیلئے 37 ارب روپے جبکہ یو تھ پروگرام کیلئے 10 ارب روپے مختص کر رہے ہیں۔

اس کے علاوہ وفاقی حکومت 50 لاکھ سے زائد خاندانوں کو مالی امداد فراہم کر رہی ہے جبکہ پاکستان بیت المال اور غربت کے خاتمے کیلئے فنڈ کیلئے بھی رقوم مختص کی گئی ہیں۔اس کے علاوہ حکومت صوبائی حکومتوں کے اشتراک سے ملک بھر میں کھیلوں کے 100 اسٹیڈیم بنائے جا رہے ہیں۔ موجودہ حکومت نے صحت کے شعبہ میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ہیں۔ عوام کو صحت کی معیاری سہولیات کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔

18ویں آئینی ترمیم کے تحت صحت کے شعبہ کو صوبوں کے حوالے کئے جانے کے باوجود وفاقی حکومت اس شعبہ میں اپنی ذمہ داریوں سے روگردانی نہیں کر سکتی تھی۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ غریب عوام کو صحت کی معیاری سہولیات فراہم کرنے کیلئے پرائم منسٹر نیشنل ہیلتھ پروگرام کا اجراء کیا گیا جس کے تحت 30 لاکھ خاندانوں کو 41 اضلاع میں سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں سے صحت کی معیاری سہولیات بالکل مفت فراہم کی جا رہی ہیں۔

اس پروگرام کا دائرہ ملک کے تمام اضلاع تک پھیلایا جا رہا ہے۔ اس پروگرام سے پائیدار ترقی کے مقاصد اور یونیورسل ہیلتھ کوریج کے اہداف کے حصول میں مدد مل رہی ہے۔ پاکستان میں ہیپاٹائٹس کے بڑھتے ہوئے کیسز کے پیش نظر صوبوں کے ساتھ مل کرقومی ہیپاٹائٹس سٹریٹیجک فریم ورک تیار کیا گیا۔ ہیپاٹائٹس کی دوا کو کم ترین سطح پر لایا گیا ار ملک میں اس کی ادویات کی تیاری کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔

بچوں اور خواتین کے حفاظتی ٹیکہ جات کے پروگرام کے تحت ویکسین کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنایا گیا اور اس کی سٹور یج اور ترسیل کے نظام کو عالمی معیار کے مطابق آئی ایس او سے تصدیق شدہ بنایا گیا۔ قومی ادارہ صحت میں ویکسین کی تیاری کو عالمی معیار سے ہم آہنگ کیا گیا اور عرصہ سے غیر فعال ویکسین کی تیاری کو بحال کیا گیا۔ صحت کے شعبہ میں مستند data کی پالیسی سازی میں اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے وفاقی سطح پر عالمی معیار کا Dasboard قائم کیا۔

درست اعداد و شمار کے حصول کیلئے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر 2 سے 3 سال کے وقفہ سے صحت کا مروجہ سروے کرایا جائے گا جو کہ عالمی معیار کے مطابق ہو گا۔ بچوں میں بیماریوں کی تشخیص اور روک تھام: آج ٹیکنالوجی کی بدولت کئی اہم مسائل کا سادہ ، آسان اور سستا حل موجود ہے۔ اگر ساتذہ کو مناسب موبائل اپلیکیشنز مہیا کی جائیں تو وہ طالبعلموں کی آنکھوں میں دیکھ کر امراض کی تشخیص کر سکتے ہیں۔

اس کے تحت امراض کی تشخیص ابتدائی مرحلے پر ہو سکتی ہے اور آسان اور سستا علاج ممکن ہے۔جلد ہی یہ پروگرام ابتدائی طور پر پاکستان کے پسماندہ اضلاع میں شروع کئے جائیں گے اور پھر تمام سرکاری سکولوں تک یہ سہولت دی جائے گی۔ مناسب وقت آنے پر ہم پرائیویٹ سکولوں کو بھی یہ سہولت مہیا کرنے پر زور دیں گے۔ فیڈرل منسٹری آف نیشنل ہیلتھ سروسز بہت جلد اس موضوع پر اپنی رہنمائی شروع کرے گی۔

خصوصی علاقہ جات : آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کیلئے 44.7 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ آزاد جموں و کشمیر کے عوام کی سہولت کیلئے آج ہم لیپہ ٹنل کی تعمیر کے خصوصی منصوبے کا اعلان کرتے ہیں۔ فاٹا کیلئے 24.5 ارب روپے تجویز کئے گئے ہیں۔ فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی لیے 100 ارب روپے کی لاگت سے خصوصی ترقیاتی پروگرام دیا گیا ہے۔

اس منصوبے کے تحت سال 2018-19 میں 10 ارب روپے فراہم کئے جائیں گے۔ امن و عامہ کے حوالے سے انہوں نے کہا اللہ کا شکر ہے کہ آج پاکستان گزشتہ15سالوں کی نسبت زیادہ پرامن ہے۔ ہمارے فوجی اور نیم فوجی اداروں نے ملک کیلئے دلیری سے لڑتے ہوئے جانوں کے نذرانے پیش کئے ہیں۔ آپریشن ضربِ عضب کے ذریعے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے آخری ٹھکانے بھی تباہ کر دیئے گئے ہیں۔ میں ان جوانوں، افسروں اور شہریوں کو سلام پیش کرنا چاہو