بلوچستان اسمبلی نے صوبے میں غربت ،دہشت گردی کے واقعات اور ارکان اسمبلی کی سیکورٹی واپس لینے سے متعلق الگ الگ قرار دادیں منظور کرلیں

ہفتہ 28 اپریل 2018 00:10

کوئٹہ ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 28 اپریل2018ء) بلوچستان اسمبلی کا اجلاس جمعہ کو اسپیکر بلوچستان اسمبلی راحیلہ حمیدخا ن درانی کی صدارت میں تلاوت کلام پاک سے شروع ہوا۔ وقفہ سوالات میں اپوزیشن اراکین کے پوچھے گئے تمام سوالات نمٹادیئے گئے جبکہ اجلاس میں اپوزیشن لیڈر عبدالرحیم زیارتوال نے توجہ دلائو نوٹس دیتے ہوئے وزیر پبلک ہیلتھ انجینئرنگ سے استفسار کیا کہ کیا یہ درست ہے کہ کوئٹہ گریٹر واٹر سپلائی سکیم کے تحت مانگی ڈیم سے کوئٹہ پانی لانے کا منصوبہ ہے مانگی ڈیم کی تعمیر کے سلسلے میں فردی اور زیر کاشت زمینیں حکومت کے حوالے کی گئی ہیں اور جو گھر پانی کے نیچے آرہے تھے انہیں خالی کردیاگیا ہے۔

علاقہ مکینوں کے ساتھ آب نوشی اور آبپاشی کے ساتھ ساتھ غیر ہموار زمینوں کو ہموار کرنے اورکاشت کے قابل بنانے کا وعدہ کیا تھا اسی طرح ہسپتال اور سکولز قائم کرنے کا بھی وعدہ ہوا تھا نیز کیا یہ بھی درست ہیں کہ مانگی ڈیم کمانڈ ایریا میں ایئر ویڑن کم کرنے کے لئے ایکو فارسٹری چیک ڈیم اور دیگر تمام ضروری اقدامات کا وعدہ ہوا تھا اگر ان باتوں کا جواب اثبات میں ہے تو مذکورہ بالا علاقے کے لوگوں کے ساتھ کئے گئے وعدوں پر اب تک کتنا عملدرآمد ہوا ہے اس کی تفصیل دی جائے۔

(جاری ہے)

وزیر پی ایچ ای نے میر امان اللہ نوتیزئی توجہ دلائو نوٹس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مانگی ڈیم سے کوئٹہ80ملین گیلن پانی فراہم کرنا ہے ڈیم کی تعمیر کے لئے نوے ایکڑ اراضی حاصل کرکے مالکان کو مطلوبہ رقم ادا کردی گئی ہے ضرورت کے بعد سپل وے میں آنے والا پانی علاقے کے عوام کو زمینداری کے لئے استعمال کرنے کی اجازت دی جائے گی۔بعدازاں سپیکر نے اپنی رولنگ میں کہا کہ چونکہ محرک کی تسلی نہیں ہوئی ہے ان کے تحفظات اب بھی باقی ہیں اس لئی30تاریخ کے اجلاس میں دوبارہ تفصیلی جوابات لے کر آئیں انہوںنے اپوزیشن لیڈر کو ہدایت کی کہ وہ متعلقہ وزیر کے ساتھ چیمبر میں بیٹھ کر اس مسئلے پر بات کریں۔

مشترکہ مذمتی و تعزیتی قرار داد پیش کرتے ہوئے حسن بانو رخشانی نے کہا کہ یہ ایوان مورخہ24اپریل کومیاں غنڈی اور ایئر پورٹ روڈ کوئٹہ میں سیکورٹی فورسز پر یکے بعد دیگر ے کئے جانے والے تین دھماکے جس کے نتیجے میں فورسز کے کئی اہلکار شہید اور زخمی ہوئے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے اور ساتھ ہی شہداء کی مغفرت ولواحقین سے اظہار تعزیت کرتا ہے نیز یہ ایوان صوبائی حکومت کی جانب سے متاثرہ خاندانوں کی مالی معاونت اور ان کے بچوں کی تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کا مطالبہ بھی کرتا ہے۔

قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے حسن بانو رخشانی نے کہا کہ دہشت گردی کے مختلف واقعات میں شہید و زخمی ہونے والے اہلکاروں کے ورثاء کو مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ضروری ہے کہ ان متاثرہ خاندانو ں کو بروقت معاوضوں کی ادائیگی اور ان کے بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ اپوزیشن لیڈر عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ ٹھیک ہے کہ ہم جنگ زدہ زون میں رہتے ہیں واقعات ہوں گے مگر جو واقعات ہوتے ہیں ان کے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ امداد کا طریقہ کار تیز کیا جائے لواحقین کی امدادمیں تاخیر کا ازالہ کیا جائے اور ان کی بروقت امداد کو یقینی بنایا جائے۔

جے یوآئی کے سردار عبدالرحمان کھیتران نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز پیش آنے والے واقعات اندوہناک ہیں جس کی ہم شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں مختلف واقعات میں شہید و زخمی ہونے والوں کو معاوضہ بہت مشکل سے ملتا ہے سابقہ حکومتو ں میں اس جانب توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے آج متاثرہ خاندانوں کو مشکلات کا سامنا ہے اس لئے اس جانب توجہ دینی ہوگی۔

وزیر داخلہ و قبائلی امور میر سرفراز بگٹی نے حکومت کی جانب سے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے ایوان کو بتایا کہ صوبائی حکومت کی جتنی بھی فورسز ہیں ان کے اہلکاروں کو معاوضے کے حوالے سے ایک پالیسی موجود ہے وفاقی فورسز کا اپنا طریقہ کار ہے اس اسمبلی نے اس حوالے سے ایکٹ پاس کیا ہے ہماری بھرپور کوشش ہے کہ شہداء کے ورثاء کا ہر ممکن خیال رکھتے ہوئے نہ صرف انہیں بروقت معاوضوںکی ادائیگی یقینی بنائیں بلکہ متاثرہ خاندانوں کی مدد بھی کی جائے معاوضوں کی ادائیگی کی پالیسی موجود ہے ایک کمیٹی جس میں ڈپٹی کمشنر ، ڈی پی او ، ڈی ایچ او اور دیگر اراکین ہوتے ہیں وہ تمام کیسز کا جائزہ لے کر بھیج دیتے ہیں مگر بعض کیسز میں جانشینی سرٹیفکیٹ کے معاملے پر مختلف مسائل سامنے آتے ہیں جس کی وجہ سے کیسز میں تاخیر ہوجاتی ہے۔

اب اس حوالے سے ایک نیا میکانزم بھی بنارہے ہیں۔ سپیکر راحیلہ حمید خان درانی نے اپنی رولنگ میں وزیر داخلہ و قبائلی امور کے جواب کو اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے کہا کہ شہداء کے حوالے سے پالیسی موجود ہے محکمہ کام کررہا ہے مگر محکمے کو چاہئے کہ مزید اقدامات اٹھائے جائیں انہوں نے تجویز دی کہ محکمے کے اندر ایک خصوصی سیل اس مقصد کے لئے ہو جو صرف اس معاملے کو دیکھے انہوں نے کہا کہ سسٹم میں کوئی کمی ہے تو دور کرنے کی ضرورت ہے لواحقین کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور اگر اس سلسلے میں کوئی پیچیدگی ہے تو وہ بھی دور کرنی چاہئے تاکہ شہداء کے لواحقین کی بروقت امداد ممکن ہوسکے اس حوالے سے ایک ٹائم فریم رکھنے کی ضرورت ہے۔

بعدازاں انہوں نے قرار داد کو منظوری کے لئے ایوان کے سامنے رکھا جس کی ایوان نے متفقہ طو رپر منظوری دے دی۔اجلاس میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رکن نصراللہ زیرئے نے مشترکہ قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ صوبے کے مختلف سرکاری محکمہ جات میں تعینات انجینئرز جو باقاعدہ پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے سول سروس کا حصہ بن جاتے ہیں اس کے لئے اگلے گریڈ میں ترقی کے لئے تاحال کوئی سروس سٹرکچر مرتب نہیں کیا گیا ہے خاص کر بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں تعینات ایس ڈی اوز پاکستان انجینئر نگ کونسل اور سول سروس رولز کے مطابق باقاعدہ گریڈ 18اور19میں ترقی نہیں پاسکتے اس طرح ایک جانب تمام محکموں میں جمود ہے جبکہ دوسری جانب فریش فارغ التحصیل بیچلرز کے لئے ملازمت کا حصول تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے اور نہ ہی مختلف محکموں میں خدمات سرانجام دینے والے انجینئرز باقاعدہ ترقی پاسکتے ہیں اب جبکہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد جو محکمہ جات صوبے کو ڈیوالو(Devolve)ہوئے ہیں کے لئے پاکستان انجینئرنگ کونسل اور صوبائی انجینئرنگ کونسل کے طرز پر صوبائی انجینئرنگ کونسل ایکٹ بنانا ضروری ہوگیا ہے اس لئے صوبائی حکومت پاکستان انجینئرنگ کونسل کی طرز پر فوری طور پرصوبائی انجینئرنگ کونسل ایکٹ وضع کرنے کو یقینی بنائے تاکہ صوبہ کے انجینئرز کے لئے ترقی کی راہ ہموار ہوسکے اور ان میں پائی جانے والی بے چینی اور احساس محرومی کاخاتمہ ممکن ہوسکے۔

قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ مختلف صوبائی محکمے جن میں انجینئرنگ کا شعبہ ہے وہاں انجینئرز کی ترقی کے حوالے سے باقاعدہ کوئی سروس سٹرکچر ہی نہیں انہوں نے کہا کہ پاکستان انجینئرنگ کونسل کے ایکٹ میں ان انجینئرز کی پروموشن کے حوالے سے باقاعدہ ڈھانچہ موجود ہے مگر اس پر عملدآمد نہیں ہوتا اس لئے سب انجینئرز کا علیحدہ سے سروس سٹرکچر بنایا جائے حکومت اس اہم مسئلے پر توجہ دے صوبائی حکومت یا تو اپنا صوبائی ایکٹ بنائے یا پھر پاکستان انجینئرنگ کونسل کے ایکٹ میں جو پالیسی موجود ہے اس پر عملدآمد کو یقینی بنائے تاکہ اس اہم مسئلے کو حل کیا جاسکے۔

وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اگر باقاعدہ یقین دہانی کی بات ہے توہم اس بناء پر اس وقت یہ نہیں دے سکتے کیونکہ یہ ایک ٹیکنیکل معاملہ ہے ہمیں باقی صوبوں کا جائزہ لینا ہوگا کہ انہوںنے اس حوالے سے کس قدر قانون سازی کی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے انجینئرزمرک خان اچکزئی نے کہا کہ یہ ایک اہم قرار داد ہے جس کی ہم حمایت کرتے ہیں کیونکہ ایسے بھی انجینئرز ہیں جن کی پچیس سال میں بھی پروموشن نہیں ہوئی اس لئے قرار داد کی تو ہم حمایت کرتے ہیں مگر جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ صوبائی سطح پر ہم اپنا کونسل بنائیں تو یہ ممکن نہیں ہے وفاقی سطح پر پاکستان انجینئرنگ کونسل قائم ہے جو تمام صوبوں میں فعال ہے انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جتنے بھی محکمے ہیں وہاں انجینئرز کی پروموشن کا معاملہ یکساں نہیں بعض محکموں میں جلدی انجینئر کو ترقی مل جاتی ہے بعض محکموں میں مسائل ایک نوعیت کے ہیں بعض محکموں میں دوسری نوعیت کے اس لئے اس حوالے سے ایک کمیٹی بنائی جائے جو انجینئرز کے سروس سٹرکچر اور دیگر تمام تمام امور کا جائزہ لے۔

جے یوآئی کے سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ انجینئرز ہی نہیں پولیس اور جیل خانہ جات میں بھی سروس سٹرکچر کے ایشوز چل رہے ہیں اس لئے میری تجویز ہے کہ وہ بھی اس میں شامل کیا جائے۔ڈاکٹر حامدخان اچکزئی نے کہا کہ انجینئرز کا سروس سٹرکچر نہیں اس کا جائزہ لے کر اقدامات اٹھانے چاہئیں صوبائی کونسل کیسے بناسکتے ہیں اگر انجینئرنگ کونسل بنائیں تو پھر ہم اپنا پی ایم ڈی سی بھی بنالیتے ہیں۔

قرار داد کے محرک عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ کسی بھی سرکاری ملازم کے لئے پروموشن اہمیت کا حامل معاملہ ہوتا ہے انجینئرز کے حوالے سے پاکستان انجینئرنگ کونسل کے ایکٹ میں ڈھانچہ موجود ہے اس پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ بعدازاں سپیکر نے اپنی رولنگ میں کہا کہ اس معاملے پر مزیدبات کرنے کی ضرورت ہے قانون نے اجازت دی تو ایکٹ بنالیا جائے گا بصورت دیگر کمیٹی اس حوالے سے تمام امور کا جائزہ لے کر اس معاملے کو دیکھے انہوںنے قرار داد کو ایوان کی متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کرنے کی رولنگ دی۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ و رکن اسمبلی سردار اختر مینگل نے مشترکہ قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ صوبہ بلوچستان میں کثیر الجہتی غربت کی شرح80فیصد سے زائد ہے لیکن گوادر لسبیلہ ، کیچ اور پنجگورمیں غربت کی شرح اس سے کہیں زیادہ ہے جس کی بنائپر ان کا شمار شدید غربت سے متاثرہ اضلاع میں ہوتا ہے جبکہ گزشتہ دس سالوں سے گوادر میں اربوں مالیت کے جائیداد کی خریدو فروخت ، گوادر ڈیپ سی پورٹ اور دیگر تعمیراتی و ترقیاتی سرگرمیاں جاری ہیں لیکن اس سے ملحقہ اضلاع کو براہ راست کوئی مالی فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے۔

قرار داد میں صوبائی حکومت سے سفارش کی گئی کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ ضلع گوادر میں سمندری وسائل ، پورٹ جائیداد کی خریدوفروخت ، رسل و رسائل تیل و گیس اور دیگر وفاقی و صوبائی نجی کاروباروں پر 15فیصد مکران ڈویلپمنٹ ٹیکس عائد کرنے کے سلسلے میں فوری طور پر قانون سازی کرنے کو یقینی بنائے تاکہ مذکورہ ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدنی مذکورہ اضلاع میں غربت کے خاتمے ، تعلیم ، روزگاراور آمدورفت کے ذرائع بہتر بنانے پر خرچ کئے جانے کو یقینی بنایا جاسکے۔

قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے سردار اختر مینگل نے کہا کہ قدرت کی طرف سے بلوچستان امیر ترین خطہ ہے یہاں وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے جو یہاں آباد قوم کی غربت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں مگر بدقسمتی سے حقوق میں ہم سب سے آخر غربت بدحالی اورتعلیمی پسماندگی میں سب سے آگے ہیں، انہوں نے زور دیا کہ قرار داد منظور کرکے مذکورہ علاقوں کی ترقی کے لئے پندرہ فیصد مختص کیا جائے۔

بی این پی کے میر حمل کلمتی نے کہا کہ کراچی میں پورٹ بننے کے بعد کے پی ٹی کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے توسط سے کراچی میں ترقیاتی کام ہوئے گوادر پورٹ اتھارٹی بنانے کی یقین دہانی تو کرائی گئی مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوا اس وقت پینے کا پانی سب سے اہم مسئلہ ہے حکومت اس مد میں اربوں روپے خرچ کرتی ہے مگر مسئلے کا مستقل حل نہیں نکالا جاتانیشنل پارٹی کی ڈاکٹر شمع اسحاق نے کہا کہ گوادر میں پینے کا پانی ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے ،پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے کہا کہ گڈانی شپ یارڈ سے وفاقی حکومت سالانہ اربوں روپے کماتی ہے جبکہ صوبائی حکومت کو بمشکل بیس پچیس کروڑ روپے کی آمدن ہوتی ہے ہم نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ شپنگ یارڈ میں بلوچستان کا حصہ پچاس روپے فی ٹن سے بڑھا کر 8سو کیا جائے اور مزدوروں کے لئے رہائشی کالونی بنائی جائے مگر ان مطالبات پر عمل نہیں ہوا۔

میر عبدالکریم نوشیروانی نے کہا کہ ماضی کی حکومت نے گوادر کے حوالے سے بڑی باتیں کیں مگر عملی طور پر فوٹو سیشن اور گوادر کی ترقی کو صرف کاغذات تک محدود رکھا دبئی کے طرز پر گوادر میں بھی کھارے پانی کو پینے کے قابل بنانے کے لئے کم از کم دو پلانٹ لگائے جائیں جمعیت علماء اسلام کے پارلیمانی لیڈر مولانا عبدالواسع نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ہم قرار دادوں کے حوالے سے وفاق کے رویے سے دلبرداشتہ ہیں اسمبلی میں قرار دادوں پر عملدآمد کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی بھی بنائی گئی تھی مگر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی یہ قرار داد بھی منظور ہوجائے گی مگر اس پر عملدرآمد کیسے کرائیں گے حکومت اور اپوزیشن جماعتیں اس قرار داد کی منظوری کے بعد اسلام آباد جا کر اس پر عملدرآمد کرائیں۔

یہ موجودہ حکومت کا آخری مہینہ ہے مگر اب تک سی پیک سے ہمیں کچھ نہیں ملا ہمارے وزرائے اعلیٰ سی پیک معاہدوں سے متعلق پروگراموں میں جاتے رہے ہیں مگر بلوچستان کے لئے کچھ حاصل نہیں کرسکے،جمعیت کے سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ ہمارے وزرائے اعلیٰ سی پیک کے حوالے سے چین کے دورے کرتے رہے مگر ہمارے لئے اس میں کچھ نہیں سی پیک کی شاہراہیں ہمارے لئے نہیں بلکہ چینی کمپنیوں کے لئے ہیں۔