ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں میں گزشتہ پانچ سال کے دوران سالانہ 20 فیصد کا اضافہ،

محاصل دگنا ہو چکے ہیں، 2013ء میں صوبوں کو 13 سو ارب روپے دیئے جاتے تھے اب 23 سو ارب روپے فراہم کئے جا رہے ہیں، کمپنیوں کا ٹیکس آڈٹ تین سال میں صرف ایک مرتبہ ہی آڈٹ کیا جا سکے گا، تنخواہ دار طبقے کو ٹیکس سے مکمل استثنیٰ دیا ہے، کمشنر کے اختیارات بھی ہیڈ کوارٹرز کو منتقل کر دیئے گئے ہیں،کارپوریٹ ٹیکس کی شرح کو پانچ سال کے دوران پانچ فیصد تک کم کیا گیا، اس کو مزید کم کر کے 25 فیصد تک لایا جائے گا، ڈیوڈنڈز کے حوالے سے کمپنیوں کو مراعات دی ہیں تاکہ عام شیئر ہولڈرز کو منافع میں شامل کیا جا سکے، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے 3 سال میں برآمدات میں اضافہ کا ہدف دیا ہے، برآمدی پیکج پر عملدرآمد کے لئے کمیٹی قائم کی جائے گی،قومی صنعت کے تحفظ کے لئے جامع اقدامات کئے گئے ہیں اور, خام مال، مشینری اور فاضل پرزہ جات کی درآمد پر ٹیکسز کی شرح کو کم یا ختم کیا گیا ہے، تیار ہوٹلوں، کمروں کی درآمد، ڈیری، زراعت، فلم انڈسٹری، ایل ای ڈی اور کوئلے کی درآمد پر عائد ٹیکسز کم کئے ہیں، ایمبولینسز کو ٹیکس سے مکمل طور پر استثنیٰ دیا گیا ہے، انکم ٹیکس وصولیوں کو بڑھانے کے لئے بھی خاطر خواہ اقدامات کئے ہیں، گاڑیوں اور غیر منقولہ جائیداد کی خریداری کے لئے گوشوارے جمع کرانا لازم، گوشوارے جمع نہ کرانے والے گاڑی اور غیر منقولہ جائیداد کی خرید پر زائد ٹیکس ادا کریں گے، نئے ٹیکس دہندگان کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لانے کیلئے مالیاتی اداروں، نادرا اور بینکوں سے مل کر بھی کئی اقدامات کئے ہیں ، ایک کروڑ روپے سے زائد ترسیلات زر پر آمدنی کا ذریعہ بتانا ہو گا اور ٹیکس بھی ادا کرنا ہو گا وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل اور ریونیو کے لئے وزیر اعظم کے معاون خصوصی ہارون اختر خان کی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس

ہفتہ 28 اپریل 2018 14:42

ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں میں گزشتہ پانچ سال کے دوران سالانہ 20 فیصد ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 28 اپریل2018ء) وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل اور ریونیو کے لئے وزیر اعظم کے معاون خصوصی ہارون اختر خان نے کہا ہے کہ ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں میں گزشتہ پانچ سال کے دوران سالانہ 20 فیصد کا اضافہ، محاصل دگنا ہو چکے ہیں، 2013ء میں صوبوں کو 13 سو ارب روپے دیئے جاتے تھے اب 23 سو ارب روپے فراہم کئے جا رہے ہیں، کمپنیوں کا ٹیکس آڈٹ تین سال میں صرف ایک مرتبہ ہی آڈٹ کیا جا سکے گا، تنخواہ دار طبقے کو ٹیکس سے مکمل استثنیٰ دیا ہے، کمشنر کے اختیارات بھی ہیڈ کوارٹرز کو منتقل کر دیئے گئے ہیں،کارپوریٹ ٹیکس کی شرح کو پانچ سال کے دوران پانچ فیصد تک کم کیا گیا، اس کو مزید کم کر کے 25 فیصد تک لایا جائے گا، ڈیوڈنڈز کے حوالے سے کمپنیوں کو مراعات دی ہیں تاکہ عام شیئر ہولڈرز کو منافع میں شامل کیا جا سکے، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے 3 سال میں برآمدات میں اضافہ کا ہدف دیا ہے، برآمدی پیکج پر عملدرآمد کے لئے کمیٹی قائم کی جائے گی،قومی صنعت کے تحفظ کے لئے جامع اقدامات کئے گئے ہیں اور, خام مال، مشینری اور فاضل پرزہ جات کی درآمد پر ٹیکسز کی شرح کو کم یا ختم کیا گیا ہے، تیار ہوٹلوں، کمروں کی درآمد، ڈیری، زراعت، فلم انڈسٹری، ایل ای ڈی اور کوئلے کی درآمد پر عائد ٹیکسز کم کئے ہیں، ایمبولینسز کو ٹیکس سے مکمل طور پر استثنیٰ دیا گیا ہے، انکم ٹیکس وصولیوں کو بڑھانے کے لئے بھی خاطر خواہ اقدامات کئے ہیں، گاڑیوں اور غیر منقولہ جائیداد کی خریداری کے لئے گوشوارے جمع کرانا لازم، گوشوارے جمع نہ کرانے والے گاڑی اور غیر منقولہ جائیداد کی خرید پر زائد ٹیکس ادا کریں گے، نئے ٹیکس دہندگان کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لانے کیلئے مالیاتی اداروں، نادرا اور بینکوں سے مل کر بھی کئی اقدامات کئے ہیں ، ایک کروڑ روپے سے زائد ترسیلات زر پر آمدنی کا ذریعہ بتانا ہو گا اور ٹیکس بھی ادا کرنا ہو گا۔

(جاری ہے)

ہفتہ کو یہاں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل نے کہا کہ بجٹ کی تیاری میں محنت کی گئی ہے اور وزیراعظم سمیت وزارت خزانہ اور ایف بی آر کے حکام کی کاوشیں قابل قدر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ برآمدی پیکج کے حوالے سے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے 3 سال کے عرصہ میں برآمدات میں اضافہ کا ہدف دیا ہے جس کے لئے کمیٹی قائم کی جائے گی جو برآمدی پیکج پر عملدرآمد کے لئے اقدامات کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ توانائی کی قیمت کے حوالے سے موجود مسائل کو بروقت ختم کیا جائے گا۔ ریونیو کے لئے وزیر اعظم کے معاون خصوصی ہارون اختر خان نے کہا کہ باہر کے لوگوں کو احساس نہیں ہے کہ بجٹ کی تیاری کے لئے کتنی محنت کی گئی ہے، اس ضمن میں ایف بی آر کی ٹیم کی کاوشیں قابل قدر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ کی تیاری کے لئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل سمیت تمام شراکت داروں سے تفصیلی مذاکرات کے بعد قومی ترقی کے لئے اہم فیصلے کئے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں میں سالانہ 20 فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور ایف بی آر کے محاصل دگنا ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2013ء میں صوبوں کو 13 سو ارب روپے دیئے جاتے تھے جبکہ اب صوبوں کو 23 سو ارب روپے فراہم کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کمپنیوں کے ٹیکس آڈٹ کے حوالے سے بھی اہم فیصلے کئے گئے ہیں اور اب تین سال میں صرف ایک مرتبہ ہی آڈٹ کیا جا سکے گا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے تنخواہ دار طبقے کو ٹیکس سے مکمل استثنیٰ دیا ہے جبکہ کمشنر کے اختیارات بھی ہیڈ کوارٹرز کو منتقل کر دیئے گئے ہیں تاکہ ٹیکس دہندگان کی سہولیات میں اضافہ کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ مزید کئی اقدامات بھی کئے گئے ہیں۔ ہارون اختر خان نے کہا کہ ٹیکس دہندگان اور ٹیکس وصول کرنے والے اداروں کے درمیان تنازعات کے خاتمہ کے لئے کمیٹی کا فیصلہ حتمی ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے سپر ٹیکس کی شرح میں سالانہ ایک فیصد کی کمی کی ہے اور اس سے کارپوریشنوں پر عائد سپر ٹیکس تین سال جبکہ بینکوں پر عائد ٹیکس چار سال میں ختم ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے آئندہ بجٹ میں ملک میں کام کرنے والی کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کے لئے بھی اقدامات کئے ہیں، اس حوالے سے کارپوریٹ ٹیکس کی شرح کو پانچ سال کے دوران پانچ فیصد تک کم کیا گیا ہے جس کو مزید کم کر کے 25 فیصد تک لایا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے ڈیوڈنڈز کے حوالے سے کمپنیوں کو مراعات دی ہیں تاکہ عام شیئر ہولڈرز کو منافع میں شامل کیا جا سکے۔ اس پر عائد ٹیکسز کی شرح کو کم کیا گیا ہے لیکن ڈیوڈنڈز کی عدم ادائیگی پر ٹیکس دینا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ قومی صنعت کے تحفظ کے لئے جامع اقدامات کئے گئے ہیں اور اس حوالے سے خام مال، مشینری اور فاضل پرزہ جات کی درآمد پر ٹیکسز کی شرح کو کم یا ختم کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قومی صنعت کے تحفظ اور صنعتی پیداوار میں اضافہ سے درآمد کو کم کرنے میں مدد ملے گی جس سے قومی خزانے پر پڑنے والے بوجھ کو کم کیا جا سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں تیار ہوٹلوں، کمروں کی درآمد، ڈیری، زراعت، فلم انڈسٹری، ایل ای ڈی اور کوئلے کی درآمد پر عائد ٹیکسز کم کئے ہیں اسی طرح ایمبولینسز کو ٹیکس سے مکمل طور پر استثنیٰ دیا گیا ہے، ایل این جی، کمپیوٹرز کے پرزہ جات اور سٹیشنری سمیت دیگر کئی اشیاء پر زیرو ٹیکس کی شرح بحال رکھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم پر تنقید کی جاتی ہے کہ ہم نے سرکاری محاصل میں اضافے کے لئے اقدامات نہیں کئے لیکن واضح رہے کہ حکومت نے انکم ٹیکس کی وصولیوں کو بڑھانے کے لئے بھی خاطر خواہ اقدامات کئے ہیں۔ یہ کہنا کہ یہ ریونیو جنریٹڈ بجٹ نہیں ہے یکسر غلط ہے، یہ بجٹ بہت سوجھ بوجھ اور سوچ بچار کے بعد بنایا گیا ہے جو ملک کے لئے بہتر ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس کے دائرہ کار اور ٹیکس وصولیوں میں اضافے کے لئے حکومت نے گاڑیوں اور غیر منقولہ جائیداد کی خریداری کے لئے گوشوارے جمع کرانا شرط لازم قرار دی ہے جبکہ گوشوارے جمع نہ کرانے والے گاڑی اور غیر منقولہ جائیداد کی خرید پر زائد ٹیکس ادا کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے غیر ملکی اثاثوں کے حوالے سے بھی ٹیکس کی شرح متعارف کرائی ہے جبکہ اس کے علاوہ مالیاتی اداروں، نادرا اور بینکوں سے مل کر بھی کئی اقدامات کئے ہیں تاکہ نئے ٹیکس دہندگان کو ٹیکس کے دائرہ کار میں شامل کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ایک کروڑ روپے سے زائد ترسیلات زر پر آمدنی کا ذریعہ بتانا ہو گا اور ٹیکس بھی ادا کرنا ہو گا۔