وفاقی بجٹ میں چھوٹے صوبوں کی معاشی ترقی کیلئے کوئی اقدامات تجویز نہیں کئے گئے،زاہد اللہ شنواری

افغانستان کے ساتھ ایکسپورٹ بڑھانے کے لئے سرحد چیمبر کی تجاویز کو بجٹ کا حصہ نہیں بنایاگیا ۔ریگولیٹری ڈیوٹی کا خاتمہ سرحد چیمبر کا دیرینہ مطالبہ تھا جسے ختم کرنے کی بجائے فنانس بل کا حصہ بنادیاگیا ہے،، صدرسرحد چیمبر

ہفتہ 28 اپریل 2018 20:05

وفاقی بجٹ میں چھوٹے صوبوں کی معاشی ترقی کیلئے کوئی اقدامات تجویز نہیں ..
پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 اپریل2018ء) سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر زاہداللہ شنواری نے وفاقی بجٹ برائے سال 2018-19ء کوملک کے موجودہ معاشی حالات کی نسبت سیاسی فوائد اور الیکشن بجٹ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وفاقی بجٹ میں چھوٹے صوبوں کی معاشی ترقی بالخصوص خیبر پختونخوا میں صنعت و تجارت کے شعبے کے لئے کوئی اقدامات تجویز نہیں کئے گئے جبکہ افغانستان کے ساتھ ایکسپورٹ بڑھانے کے لئے سرحد چیمبر کی تجاویز کو بجٹ کا حصہ نہیں بنایاگیا ۔

ریگولیٹری ڈیوٹی کا خاتمہ سرحد چیمبر کا دیرینہ مطالبہ تھا جسے ختم کرنے کی بجائے فنانس بل کا حصہ بنادیاگیا ہے ۔وفاقی بجٹ پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے سرحد چیمبر کے صدر زاہداللہ شنواری نے کہا کہ وفاقی بجٹ میں کارپوریٹ سیکٹر ،ْ 3 سال میں صرف ایک بار آڈٹ کرنے ،ْ کیپٹل مارکیٹ انوسٹمنٹ میں بہتری لانے اور مختلف ٹیکسوں میں کمی جیسے بہتر اقدامات اٹھائے گئے ہیںتاہم قرضوں کی معیشت سے نجات کے لئے بجٹ میں کوئی اقدامات تجویز نہیں کئے گئے ۔

(جاری ہے)

زاہداللہ شنواری نے کہا کہ 4ہزار ارب روپے سے زائد کے ٹیکس اکٹھے کئے گئے جس میں سے صرف 400 ارب روپے کے ری فنڈز ہیں لیکن ایکسپورٹرز کو ری فنڈز نہیں مل رہے اور نہ ہی بجٹ میں ری فنڈز کی ادائیگیوں کا ذکر کیاگیا ہے تو اس سے بنیادی طور پر ایکسپورٹ کا شعبہ متاثر ہوگا۔انہوں نے کہاکہ ایکسپورٹ کے فروغ کے لئے بجٹ میں کوئی ترجیحات متعین نہیں کی گئیں۔

زاہداللہ شنواری نے کہا کہ نان فائلرز پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح0.6 سے 0.4 فیصد کم کرنے سے بہتری نہیں آئے گی بلکہ جو لوگ ٹیکس نیٹ میں ہیں ان کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ زاہداللہ شنواری نے کہا کہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں ایک ہزار ارب روپے سے زائد رکھے گئے ہیں جس میں خیبر پختونخوا کا کوئی شیئر نہیں ہے جس سے صوبے میں ترقیاتی عمل متاثر ہوگا۔

انہوں نے کہاکہ بنیادی طور پر موجودہ وفاقی بجٹ گروتھ اور ینٹیڈ نہیں ہے بلکہ وفاقی وزیر خزانہ نے سابق وزیرخزانہ اسحق ڈار کی جانب سے متعارف کرائی جانیوالی اصلاحات اور اقدامات کی خود نفی کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ تجارتی خسارہ 35 ارب ڈالر اور موجودہ خسارہ 15ارب ڈالر ہے جس کو پورا کرنے کے لئے بجٹ میں ایسی کوئی چیز نظر نہیں آئی۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں دو ماہ سے زائد فارن ایکسچینج ریزرو موجود نہیںہیں اور یہ پہلا بجٹ ہے جس میں موجودہ اخراجات کو اہمیت دی گئی ہیںجبکہ اخراجات کم کرنے اور ریونیو ذرائع بڑھانے کے لئے کوئی میکنزم تجویز نہیں کیاگیا ۔

زاہداللہ شنواری نے کہا کہ وفاقی بجٹ میں پسماندہ صوبوں کی معاشی و اقتصادی ترقی نظر انداز کیا گیا ہے خاص طور پر چھوٹے تاجروں اور ایس ایم ای سیکٹر کی ترقی کے لئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے ۔ انہوں نے کہاکہ پٹرولیم مصنوعات پر 30 روپے فی لیٹر ٹیکس عائد کرنے سے ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا ہوگا جس کے اثرات نہ صرف ملکی معیشت پر پڑیں گے بلکہ عوام کی قوت خرید جواب دے جائے گی۔

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ آئندہ حکومت اس بجٹ کو مسترد کردے گی اور اس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ وفاقی بجٹ کے بعد منی بجٹ آنا شروع ہوجائیں گے اور ہمیشہ کی طرح عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھتا جائے گا۔ زاہداللہ شنواری نے کہاکہ اگر وفاقی حکومت سرحد چیمبر سمیت دیگر چیمبرز کی سفارشات کو بجٹ کا حصہ بناتی تو اس بجٹ سے پورے ملک کو فائدہ ہوتا۔ انہوں نے فاٹا کیلئے 100 ارب روپے کے پیکیج پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ لگتا یوں ہے جیسے فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کا فیصلہ روک دیا گیا ہے کیونکہ فاٹا کے لئے ایک مخصوص پیکیج سے نہ تو قبائلی علاقوں کی معاشی و اقتصادی ترقی کا عمل یقینی بنایا جاسکتا اور نہ ہی فاٹا میں روزگار کے مواقع پیدا ہوسکیں گے۔