جہاں سال کے بارہ مہینے لگاتار بجٹ آتے ہوں وہاں سالانہ بجٹ کیا حیثیت رکھتا ہے،رہنما سکھر موٹر ورکس ایسوسی ایشن

ہفتہ 28 اپریل 2018 21:06

سکھر (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 28 اپریل2018ء) سکھر موٹر ورکس ایسوسی ایشن کے صدر استاد تاج محمد شیخو دیگر رہنمائوں نے حکومت کی جانب سے پیش کردہ بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جہاں سال کے بارہ مہینے لگاتار بجٹ آتے ہوں وہاں سالانہ بجٹ کیا حیثیت رکھتا ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے عوام کے ساتھ مرکز اور صوبوں میں سرکاری بجٹ کی آمد کی صورت میں سنگین مذاق کیا جارہا ہے، حقیقت یہ ہے کہ ان بجٹوں سے غریب و متوسط طبقے کو کوئی فائدہ نہیں ملتا بلکہ ان کی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے، وفاق و صوبوں میں بجٹ سال میں ایک مرتبہ آتا ہے مگر بجلی، گیس، پٹرول اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کے منی بجٹ سارا سال ہی آتے رہتے ہیں۔

وہ اپنے دفتر میں یونین کے عہدیداران و ممبران کے اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔

(جاری ہے)

تاج محمد شیخ، شفیق آرائیں و دیگر نے کہا کہ بجٹ کسی بھی حکومت کی سوچ کو آشکار کرتا ہے کہ وہ کیا کرنی چاہتی ہے، بجٹ میں وسائل کا رخ اگر اشرافیہ سے ہٹاکر متوسط طبقے اور غریب عوام کی طرف موڑا جاتا تو لازمی بہتری آسکتی تھی، مگر افسوس کہ قیام پاکستان سے لیکر آج تک کسی بھی حکومت نے عوام اور غریب طبقے کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے۔

پاکستان کا اصل مسئلہ طاقتور افسر شاہی ہے جو نہ صرف نااہل بلکہ غیر موثر ہے، اسکا طریقہ کار گھسا پٹا اور متروک ہے۔ یہ زمانے کے ساتھ چلنے سے قاصر ہے، دنیا کے کسی ملک کا دفتری نظام ہمارے جیسا نہیں، ستم یہ ہے کہ ان افسران کی سفارشات پر عوامی نمائندے بجٹ پیش کرتے ہیں۔ یہ بجٹ عام طور پر انہی دونوں طبقوں کی مراعات اور منافع کیلئے ہوتے ہیں۔

بجٹ پر خساروں اور قرضوں کا وائرس تو حکمرانوں کی کرپشن و نااہلی سے حملہ آور ہے، لیکن عالمی مالیاتی اداروں کا دبائو، بین الاقوامی مسابقت کا دبائو، بجٹ کے وراثتی اثاثوں اور مصارف و قرضہ جات کا دبائو، ثقافتی پس ماندگی اور سائنس و ٹیکنالوجی سے دوری کا دبائو، جب تک ان وائرسوں کا تدارک نہیں ہوگا تب تک پاکستان غربت کی دلدل میں پھنستا رہے گا اور حکمران دولت باہر جمع کرتے رہینگے۔