بھارت اور چین کا سرحدی کشیدگی کے خاتمے کیلئے سکیورٹی اور فوجی رابطے بڑھانے پر اتفاق

نریندر مودی اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان ملاقات میں دوطرفہ تعلقات اور خطے کی صورتحال پر تبادلہ خیال امن اور ترقی کا رجحان تبدیل نہیں ہو سکتا ، چین،بھارت تعلقات کو فروغ دیا جائے ، عالمی صورتحال میں تبدیلی آرہی ہے، مختلف ممالک کے درمیان روابط اور تعلقات مزید مضبوط ہو رہے ہیں، دونوں کو عالمی قوت کی تبدیلی کے دوران ایک دوسرے کو مثبت فریق سمجھنا چاہیئے ، چینی صدر شی جن پنگ بھارت اور چین ہاتھ میں ہاتھ ملا کر ایشیا اوردنیا کے امن ، استحکام اور خوشحالی کے تحفظ کے لئے کوشش کریں گے،نریندر مودی

ہفتہ 28 اپریل 2018 23:01

بھارت اور چین کا سرحدی کشیدگی کے خاتمے کیلئے سکیورٹی اور فوجی رابطے ..
ووہان (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 28 اپریل2018ء) چین اور بھارت نے اپنی مشترکہ سرحد پر کشیدگی کے خاتمے کے لیے نئے اقدامات کا اعلان کردیا دونوں ممالک نے سکیورٹی اور فوجی رابطے بڑھانے پر اتفاق کیا ہے ۔ہفتہ کوبرطانوی میڈیا کے مطابق چین کے شہر ووہان میں انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی اور چین کے صدر شی جن پنگ کے درمیان ملاقات میں سرحدی کشیدگی کے خاتمے پر اتفاق ہوا۔

غیر رسمی ملاقات میں دونوں رہنماں نے ان اقدامات کے تحت عسکری اور سکیورٹی رابطوں کو فروغ دینے پر اتفاق کیا۔چین کے صدر شی جن پنگ اور بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کے درمیان ووہان میں پر سکون دوستانہ ماحول میں بات چیت ہوئی۔دونوں رہنماوں نے ووہان کی مشرقی جھیل کے اطراف میں چہل قدمی کے دوران دو طرفہ تعلقات اور مشترکہ دلچسپی کے اہم عالمی و علاقائی امور پر تبادلہ خیال کیا۔

(جاری ہے)

اس موقع پر شی جن پنگ نے مودی کے دورہ چین کا خیر مقدم کیا ۔ انہوں نے کہا کہ چین بھارت تعلقات ایک اعلی سطح پر آگے بڑھتے رہے ہیں ۔ اِس وقت عالمی صورتحال میں تبدیلی آرہی ہے ۔ مختلف ممالک کے درمیان روابط اور تعلقات مزید مضبوط ہو رہے ہیں ۔ امن اور ترقی کا رجحان تبدیل نہیں ہو سکتا ہے۔ شی نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے استحکام اور فروغ کی بنیاد باہمی اعتماد ہے ۔

دونوں ممالک کے مختلف حلقوں اور عوام کے درمیان باہمی مفاہمت اور دوستی کو فروغ دینے کے لیے بھر پور کوشش کی جانی چاہیئے ۔ انہوں نے کہا کہ اس مقصد کی تکمیل کی خاطر تین اہم نکات پر عمل پیرا رہنا چاہئے ۔ پہلا ، خوشگوار ہمسائیگی اور بہترین دوست کی حیثیت سے چین اور بھارت کو عالمی قوت کی تبدیلی کے دوران ایک دوسرے کو مثبت فریق سمجھنا چاہیئے ۔

اور اپنی اپنی ترقی کے خواب کی تکمیل کے لئے تعاون کا شراکت دار سمجھ لینا چاہئے ۔ دوسرا ، چین اور بھارت کی ترقی سے ایک دوسرے کے لئے اہم مواقع میسر آئے ہیں ۔ تیسرا ، دونوں ممالک کو مثبت ، کھلے پن اور شراکت داری کے تناظر میں ایک دوسرے کے مفادات کا درست ادراک کرنا چاہئے ۔ انہوں نے کہا مستقبل میں چین اور بھارت تعاون کی جامع منصوبہ سازی کے لیے اقدامات کریں گے ۔

اس موقع پر مودی نے کہا کہ بھارت اور چین ہاتھ میں ہاتھ ملا کر ایشیا اوردنیا کے امن ، استحکام اور خوشحالی کے تحفظ کے لئے کوشش کریں گے ۔خیال رہے کہ دونوں ممالک کے رہنمائوں کے درمیان تعلقات میں بہتری پر دو روزہ غیر معمولی بات چیت گذشتہ برس متنازع ہمالیہ خطے میں صورتحال کشیدہ ہونے کے بعد پہلی مرتبہ ہو ئی ہے ۔یہ تنازع گذشتہ برس سکم کی سرحد کے نزدیک بھوٹان کے ڈوکلالم خطے سے شروع ہوا تھا جہاں چینی فوج ایک سڑک تعمیر کرنا چاہتی تھی۔

بھوٹان کا کہنا تھا کہ یہ زمین اس کی ہے۔ انڈین فوجیوں نے بھوٹان کی درخواست پر چینی فوجیوں کو وہاں کام کرنے سے روک دیا۔ چین نے انتہائی سخت لہجے میں انڈیا سے کہا کہ وہ اپنے فوجی، بقول اس کے، چین کے خطے سے واپس بلائے۔بعد میں دونوں ملکوں میں معاہدے کے بعد انڈین فوج ڈوکلام میں پیچھے ہٹ گئی۔تجزیہ کار شاشنک جوشی نے وضاحت کی کہ کیا وجہ ہے کہ انڈین وزیراعظم مودی اور چینی صدر شی اپنے اپنے دارالحکومت سے دور بغیر اپنی ٹیم کے تعلقات بہتر بنانے پر بات چیت کر رہے ہیں۔

ان کے مطابق دونوں رہنمائوں کے پاس دراصل کوئی حتمی ایجنڈا نہیں تھا اور بڑھتے ہوئے اختلافات پر بات کرنے کے لیے بھی اچھا خاصا وقت تھا۔پہلی بات یہ ہے کہ انڈیا سمجھتا ہے کہ گذشتہ برس کا بحران دونوں ممالک کے تعلقات کو ایک خطرناک موڑ پر لے آیا تھا اور اس طرح کی کشیدگی کو ایک حد تک ہی رہنا چاہیے خاص کر جب ملک میں 2019 میں عام انتخابات کا انعقاد ہونے جا رہا ہے۔

اس سے زیادہ وسیع تناظر میں یہ بھی ہے کہ چین کی معیشت انڈیا کے مقابلے میں پانچ گنا بڑی ہے اور اس کے دفاعی اخراجات تین گنا زیادہ ہیں۔جب کہ انڈیا کو سرحد پر مقامی سطح پر تو کئی طرح سے عسکری برتری حاصل ہے لیکن اسے اب بھی اپنی طاقت میں اضافے کے لیے وقت درکار ہے۔دوسرا یہ کہ انڈیا چاہتا ہے کہ اسے ان معاملات پر چین کا تعاون حاصل ہو جہاں پر چین کا کردار اہمیت کا حامل ہے جیسا کہ دہشت گرد گروہوں کے حوالے سے پاکستان پر دبائو ڈالنا اور جوہری تجارت کے سپلائرز گروپ یعنی این ایس جی کی رکنیت حاصل کرنا۔

حالیہ برسوں میں انڈیا کی مایوسی میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ وہ اپنے ابھرنے کی راہ میں چین کو ایک رکاوٹ کے طور پر دیکھتا ہے۔تیسرا پہلو یہ ہے کہ انڈیا عالمی سیاست کے ایک غیر یقینی ماحول میں اپنا ردِ عمل دے رہا ہے۔ انڈیا کو تشویش ہے کہ شمالی کوریا کے بحران کی وجہ سے بیجنگ واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر کر لے گا اور اس کے بعد روس کے ساتھ بھی تعلقات میں بہتری لائے گا کیونکہ روس کے مغربی ممالک سے تعلقات تنا کا شکار ہیں۔

اس لیے بہتر ہے کہ انڈیا دونوں جانب دوستی رکھے۔چین اور روس کے مضبوط ہوتے تعلقات اور امریکہ کے روس سے نمٹنے کے لیے چین پر سے نظریں ہٹانے پر انڈیا کے سابق سفارت کار اور انڈیا کی حکومت کو قومی سلامتی پر مشورہ دینے والی ایک کمیٹی کے رکن پی ایس راگوان کا کہنا ہے کہ انڈیا کے لیے دانشمندانہ طرز عمل یہ ہے کہ وہ چین کے ساتھ مربوط بات چیت کو برقرار رکھے چاہے دونوں بڑی طاقتوں کو یہ ناگوار ہی گذرے۔اس میں چین کے لیے بھی فائدے کی بات ہے کیونکہ گذشتہ برس دنیا میں انڈیا وہ واحد ملک تھا جس نے ایشیا کو سڑک اور ریل کے ذریعے یورپ سے جوڑنے کے چین کے دنیا کے ایک سب سے بڑے منصوبے کی مخالفت کی تھی۔