پاکستان کو مذہبی آزادی کے حوالے سے خاص تشویش والے ممالک میں شامل کیا جائے‘ یو ایس سی آئی آر ایف کی امریکی حکومت کو تجویز

ہفتہ 28 اپریل 2018 23:39

واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 28 اپریل2018ء) بین الاقوامی مذہبی آزادی کے امریکی ادارے یو ایس سی آئی آر ایف نے امریکی حکومت کو تجویز پیش کی ہے کہ پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا جائے جہاں مبینہ طور پر مذہبی آزادیوں کی یا تو سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب کیا جاتا ہے یا ان پر قدغنیں لگائی جاتی ہیں۔برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق یو ایس سی آئی آر ایف کی تازہ رپورٹ میں جن 16 ممالک کے حوالے سے یہ تجویز پیش کی گئی ہے ان میں برما، سنٹرل افریقی ریپبلک، چین، اریٹریا، ایران، نائیجیریا، شمالی کوریا، روس ، سعودی عرب، سوڈان، شام، تاجکستان، ترکمانستان، ویتنام اور ازبکستان بھی شامل ہیں۔

یاد رہے کہ ان میں سے دس ممالک برما، چین، اریٹریا، ایران، شمالی کوریا، سعودی عرب، سوڈان، تاجکستان، ترکمانستان، اور ازبکستان پہلے ہی امریکی وزارتِ خارجہ کی واچ لسٹ پر ہیں اور تازہ ترین رپورٹ میں ان کو اس فہرست پر رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان کے حوالے سے امریکی وزارتِ خارجہ نے گذشتہ سال سنگین ترین لسٹ میں ڈالنے کے بجائے ایک مخصوص درجہ بندی قائم کی تھی جسے سپیشل واچ لسٹ قرار دیا گیا تھا اور اس پر صرف پاکستان تھا۔

سنہ 1998 کے بین الاقوامی مذہبی آزادیوں کے قانون کے تحت بنایا گیا ادارہ امریکی وزارتِ خارجہ کو دنیا کے مختلف ممالک میں مذہبی آزادی کے حوالے سے تجاویز پیش کرتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں لشکرِ طیبہ، لشکرِ جھنگوی، دولتِ اسلامیہ خراسان، اور تحریک طالبان پاکستان جیسی تنظیموں نے مذہبی اقلیتوں کو نشانے پر رکھا ہوا ہے۔

رپورٹ کا کہنا ہے کہ اگرچہ حکومت کی کوششوں کی وجہ سے ان دہشتگرد تنظیموں کو ٹھیس پہنچی ہے تاہم مذہبی اقلیتوں کو ابھی بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ رپورٹ میں پاکستان کی احمدی، شیعہ اور دیگر مذہبی اقلیوں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ان کے ساتھ اب بھی امتیازی سلوک معاشرتی طور پر جاری ہے۔ رپورٹ میں میڈیا پر بھی تنقید کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ میڈیا اپنے الفاظ کے چناؤ کے حوالے سے اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور ان کی عزتِ نفس کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔

اس حوالے سے ٹی وی اینکر عامر لیاقت کی مثال بھی دی گئی ہے۔ رپورٹ میں پاکستان کے تعلیمی نظام پر بھی تنقید کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ پاکستان کا نصاب عدم برداشت کے بیچ عوام میں ہوتا ہے۔ توہینِ مذہب کے قوانین کے حوالے سے رپورٹ کا کہنا ہے کہ ان کے ذریعے مذہبی اقلیتوں خصوصاً احمدیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سنہ 2011 سے اب تک تقریباً 100 توہینِ مذہب کے کیسز کیے جا چکے ہیں اور تقریباً ایک سو افراد ایسے ہی مقدمات میں قید میں ہیں جن میں سے 40 کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔

ادھر یو ایس سی آئی آر ایف نے سالانہ رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ انڈیا میں مذہبی آزادی میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ادارے کی سنہ 2018 کی رپورٹ میں انڈیا میں مذہبی آزادی کے تعلق سے نریندر مودی حکومت کے رویے پر کہا گیا ہے کہ ’انڈیا کا کثیر مذہبی، کثیر الثقافتی کردار خطرے میں ہے کیونکہ وہاں ایک مذہب کی بنیاد پر جارحانہ طریقے سے قومی شناخت بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اس رپورٹ میں انڈیا کی دس ریاستوں اتر پردیش، آندھرا پردیش، اڑیسہ، بہار، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، راجستھان، مہاراشٹر، گجرات اور کرناٹک کا ذکر کیا گیا ہے جہاں مذہبی آزادی کو زیادہ خطرہ لاحق ہے۔ جبکہ انڈیا کی باقی ریاستوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہاں مذہبی اقلیتیں زد پر نہیں ہیں۔ یو ایس سی آئی آر ایف نے رواں سال 12 ممالک کو دوسرے درجے میں رکھا ہے جنھیں ' سی پی سی کہا گیا ہے۔

یہ ایسے ممالک ہیں جہاں مذہبی آزادی کے تعلق سے حالات تشویش ناک ہیں۔ ان ممالک میں افغانستان، آذربائیجان، بحرین، کیوبا، مصر، انڈیا، انڈونیشیا، عراق، قزاقستان، لاؤس، ملائیشیا اور ترکی شامل ہیں۔ انڈیا کے حوالے سے مخصوص پانچ صفحات کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انڈیا کے 'وزیراعظم تشدد کی مذمت تو کرتے ہیں لیکن ان کی اپنی جماعت کے لوگ انتہا پسند ہندو تنظیموں سے منسلک ہیں اور ان میں سے بہت سے افراد مذہبی اقلیتوں کے تعلق سے ناروا زبان کا استعمال کرتے ہیں۔

‘ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ انڈین حکومت کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ فرقہ وارانہ تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن مودی حکوت نے اسے روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا ہے۔ اس رپورٹ میں فرقہ وارانہ تشدد اور فسادات کے متاثرین کو انصاف نہ ملنے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’مودی انتظامیہ نے ماضی میں بڑے پیمانے پر ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کے متاثرین کو انصاف دلانے کے لیے زیادہ کچھ نہیں کیا ہے۔

ان میں سے کئی پر تشدد فسادات ان (مودی) کی پارٹی کے لوگوں کی اشتعال انگیز تقاریر کے سبب ہوئے۔‘ اس رپورٹ میں گائے کو ذبح کرنے کے شبہے پر تشدد، مسیحی مبلغین پر دباؤ اور ان کے خلاف تشدد، غیر ملکی فنڈنگ سے چلنے والے این جی او کے کام کو روکنا اور تبدیلی مذہب مخالف قانون پر بھی تشویش ظاہر کی گئی ہے۔رپورٹ میں انڈیا کی عدلیہ کی تعریف بھی کی گئی ہے۔

یو ایس سی آئی آر ایف نے کہا ہے کہ انڈیا میں ایک آزاد عدلیہ ہے جس نے بہت سے معاملات میں بامعنی مداخلت کی ہے۔ اس ضمن میں مثال کے طور پر ہادیہ کے قبول اسلام کا ذکر ہے جس میں سپریم کورٹ نے کہا تھا 'ہر بالغ شہری کو اپنی شادی کا فیصلہ کرنے کا حق ہے۔' اس رپورٹ میں امریکی حکومت کو دس تجاویز دی گئی ہیں جن میں انڈیا کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں ان معاملات کو اٹھانا اور انڈیا میں انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کی حالت میں بہتری لانے کے لیے دباؤ ڈالنا وغیرہ شامل ہے۔

اس سے قبل انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا تھا کہ ’انڈین حکومت مذہبی اقلیتوں کے خلاف سنہ 2017 میں ہونے والے حملوں کی قابل اعتماد تفتیش کرانے یا انھیں روکنے میں ناکام رہی ہے۔‘