زرعی سائنسدانوںکو دالوںکی کاشت کے فروغ کیلئے کاشتکاروں کی رہنمائی اور فارمرز ڈیز میں بھرپور شرکت کی ہدایت

اتوار 29 اپریل 2018 15:00

فیصل آباد۔29 اپریل(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 29 اپریل2018ء) زرعی سائنسدانوںکو دالوںکی کاشت کے فروغ اور فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کیلئے کاشتکاروں کی رہنمائی اور فارمرز ڈیز میں بھرپور شرکت کی ہدایت کی گئی ہے جبکہ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے ذریعے بھی تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے ان کی زیادہ سے زیادہ رہنمائی کیلئے اقدامات کاحکم دیاگیاہے تاکہ دالوںکی پیداوار میں تمام ممکن حد تک اضافہ یقینی بنایاجاسکے۔

محکمہ زراعت کے ذرائع نے بتایاکہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف کی ہدایت پر صوبہ میں چنے، مونگ ،ماش اور مسورکی دالوں کے زیر کاشتہ رقبہ اور پیداوار میں اضافہ کے لیے تحصیل کی سطح پررعائتی قیمتوں پرکاشتکاروں کو نئی ڈرلوں کی فراہمی کے ساتھ فی ایکڑ زیادہ پیداوار ی صلاحیت کی حامل دالوں کی نئی اقسام کا بیج پچاس فیصد رعائتی نرخوں پر فراہم کیا جارہا ہے۔

(جاری ہے)

انہوںنے بتایاکہ ادارہ کے شعبہ دالوں کے زرعی سائنسدانوں نے دالوں کی ایسی نئی اقسام متعارف کرائی ہیںجو 30من فی ایکڑ سے زائد پیداواری صلاحیت کی حامل ہونے کے ساتھ بیماریوں اور خشک سالی کا بہتر مقابلہ کرسکتی ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ دالوں میں 20سے 24فیصد پروٹین موجود ہوتی ہے جس کے باعث ان کو گوشت کا نعم البدل کہا جاتا ہے۔انہوںنے زرعی سائنسدانوں پر زور دیا کہ وہ دالوں کی کاشت کے فروغ اور فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کے لیے کاشتکاروں کی رہنمائی کے لیے محکمہ زراعت توسیع کے فارمرڈیز میں شرکت کو یقینی بنائیں ۔

انہوں نے بتایا کہ دالیں عام آدمی کی خوراک ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سالوں میں کم ذرخیز رقبوں اور موسمی تغیرات کے باعث دالوں کے زیر کاشتہ رقبہ اور پیداوار میں کمی ہوئی ہے ۔انہوںنے بتایاکہ جدید تحقیق سے زیادہ پیداواری صلاحیت کی حامل اقسام کی تیاری سے دالوں کے زیر کاشت رقبہ اور فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ سے نہ صرف ملکی سطح پر خود کفالت کا حصول ہوگا بلکہ دالوں کی درآمدات میں کمی کے ذریعے قیمتی زرمبادلہ کی بچت ہوگی۔

انہوں نے بتایا کہ شعبہ دالوں کے زرعی سائنسدانوں کی جانب سے ستمبر کاشتہ کماد میں مسور اور فروری کاشتہ کماد میں مونگ کی مخلوط کاشت کے فروغ کے لیے کاشتکاروں کو جدید ٹیکنالوجی فراہم کی جارہی ہے جس سے دالوں کے زیر کاشتہ رقبہ اور کاشتکاروں کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے ۔