پانی کی دنیا میں بڑھتی ہوئی قلت تیسری عالمی جنگ کا باعث بن سکتی ہے ،رضا ہارون

اگر 2018 تک مہمند اور دیا میر بھاشا ڈیم کی تعمیر شروع نہ کی گئی تو ملک میں شدید آبی بحران پیدا ہو سکتا ہے

اتوار 29 اپریل 2018 20:00

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 اپریل2018ء) پاک سر زمین پارٹی کے سیکریٹری جنرل رضاہارون نے کہا ہے کہ حالیہ مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 21کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے۔ آبادی میں تیزی سے اضافہ اور آبی ذخائر میں مٹی بھرنے کے قدرتی عمل کی وجہ سے پاکستان کے آبی ذخائر میں سالانہ فی کس دستیابی میں کمی ہو رہی ہے۔ جبکہ مون سون میں ہونے والی بارشوں کا90 فیصد پانی سمندر میں چلا جاتا ہے اور موجودہ ڈیمز میں صرف10 فیصد پانی جمع کرنے کی گنجائش ہے حالانکہ پاکستان کی آبی ضرورت کے لحاظ سے یہ گنجائش 40 فیصد ہونی چاہئے ایک اندازے کے مطابق پاکستان 2010 سے اب تک 90 بلین ڈالر تک کی مالیت کا پانی بڑے ڈیمز نہ ہونے کے باعث سیلابی ریلوں کی صورت میں سمندر کی نظر کر چکا ہے ۔

انہوں نے کہا یہ صورت حال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ پاکستان میں آبی ذخائر کو بڑھانے کیلئے نئے ڈیمز کی تعمیر جنگی بنیادوں پر شروع کی جائے ملک میں بڑے ڈیمز کی تعمیر کے ساتھ جہاں تک ممکن ہو چھوٹے اور درمیانے درجے کے ڈیمز بھی تعمیر کئے جائیں ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پچھلی دو دیہائیوں میں آنے والی کسی بھی حکومت کی جانب سے انڈس واٹر ٹریٹی پر مکمل عملدرآمد کرانے کیلئے کوئی اقدامات نظر نہیں آتے ایک طرف بھارت پاکستان میں داخل ہونے والے دریاؤں پر ڈیمز تعمیر کر کے پانی پر مکمل کنٹرول چاہتا ہے اور ضرورت کے وقت پانی روک کر خشک سالی کا شکار اور جب ضرورت نہ ہو تو پانی چھوڑ کر ہمارے زراعت کے شعبے کو تباہ و برباد کرنا چاہتا ہے جبکہ دوسری جانب ہماری حکومت اورنج لائن جیسے منصوبوں پر تو 300ارب کے فنڈز لگاسکتی ہے لیکن ڈیموں کی تعمیر کیلئے فنڈز کو دستیاب کرنے سے قاصر ہے ۔

انہوں نے کہا کہ پانی کی دنیا میں بڑھتی ہوئی قلت تیسری عالمی جنگ کا باعث بن سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ واپڈا حکام کی جانب سے سینیٹ میں پالیسی رپورٹ پیش کی جاچکی ہے جو کہ بہت ہی پریشان کن ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان آبی وسائل کی قلت کے شکار15 ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے،جبکہ پانی کے استعمال کے حوالے سے پاکستان چوتھے نمبر پر ہے،جبکہ پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بھی انتہائی کم ہے۔

انہوں نے کہا کہ چیئرمین واپڈا نے پہلے ہی تربیلا ڈیم سے زیادہ گنجائش کے ڈیمز کی تعمیرکونا گزیر قرار د یتے ہوئے متنبہ کیا تھا کہ پاکستان کوپانی کی بدترین قلت کا سامنا ہے۔اگر 2018 تک مہمند اور دیا میر بھاشا ڈیم کی تعمیر شروع نہ کی گئی تو ملک میں شدید آبی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ دیا میر بھاشا ڈیم کی تعمیر میں9 برس جبکہ مہمند ڈیم کی تعمیر6برس میں مکمل ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ پانی کی قلت سے نمٹنے کے لئے ڈیموں کی تعمیر انتہائی اہمیت کی حامل ہے ،جبکہ اس وقت پاکستان میں آبی ذخائر سے متعلق کوئی جامع پالیسی موجود نہ ہونا ریاست کیلئے لمحہ فکریہ اور تشویشناک ہے۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے آبی وسائل کی الگ وزارت تو قائم کر دی ہے لیکن آج تک اس وزارت کی جانب سے آبی ذخائر کے اضافے کی جانب نہ کوئی پیش رفت نہ ہی کوئی ٹھوس پالیسی دکھائی دیتی ہے ۔انہوں نے کہا واپڈا کی ویب سائٹ پر تو پاکستان میں چار نئے ڈیمز داسو ڈیم،کرم تنگی ڈیم،نیلم جہلم ڈیم اور کیل خود ڈیم کی تعمیر دکھائی دیتی ہے لیکن عملی طور پر ان کی تعمیر اب تک نظروں سے اوجھل ہے۔