ترکی، ایران اور روس شام کی وحدت برقرار رکھنے پرمتفق

امریکا مشرقِ وسطی میں نئے سرے سے سرحدیں تشکیل دینے اور شام کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کر رہا ہے،تینوں ممالک کے وزراء خارجہ کا الزام

اتوار 29 اپریل 2018 20:10

ترکی، ایران اور روس شام کی وحدت برقرار رکھنے پرمتفق
ماسکو (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 29 اپریل2018ء) ترکی، ایران اور روس شام کی وحدت برقرار رکھنے پرمتفق ہوگئے ۔غیر ملکی میڈیاکے مطابق پریس کانفرنس کے دوران تینوں وزرائے خارجہ نے الزام لگایا کہ امریکا مشرقِ وسطی میں نئے سرے سے سرحدیں تشکیل دینے اور شام کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تینوں ممالک نے شام کی وحدت برقرار رکھنے کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

روس، ایران اور ترکی نے طور پر شام میں 14 اپریل کو کیے جانے والے ان فضائی حملوں پر کڑی تنقید کی ہے جن میں امریکا، برطانیہ اور فرانس نے مبینہ طور پر صدر بشار الاسد کی حامی فوج کی تنصیبات کو نشانہ بنایا تھا۔ ماسکو میں ایران اور ترکی کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے روس کے وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف نے 14 اپریل کو کیے جانے والے میزائل حملوں کو بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے الزام لگایا کہ مغربی طاقتیں شام میں امن عمل کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اور اس طرح کے حملوں کا مقصد صورتِ حال کو مزید غیر مستحکم کرنا ہے جس کے نتیجے میں شام میں سرگرم شدت پسندوں کو اپنی مسلح جدوجہد جاری رکھنے کا جواز ملے گا۔پریس کانفرنس کے دوران تینوں وزرائے خارجہ کا کہنا تھا کہ وہ متفق ہیں کہ شام کی سرحدی خودمختاری کا تحفظ کیا جاناچاہیے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ امریکا مشرقِ وسطی میں نئے سرے سے سرحدیں تشکیل دینے اور شام کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایران کے وزیرِ خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا کہ شام کے بحران کا کوئی فوجی حل موجود نہیں۔انہوں نے کہا کہ ایران کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی شدید مذمت کرتا ہے اور اسے امید ہے کہ شام کی حکومت پر اپنے ہی عوام کے خلاف کیمیائی حملہ کرنے کے الزام کی تحقیقات کے بعد اصل بات ضرور سامنے آئے گی۔

انہوں نے کہا کہ ان لوگوں کو آج شام پر تنقید کا کوئی حق حاصل نہیں جنہوں نے 1980 کی دہائی میں عراق کی جانب سے ایران کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی حمایت کی تھی۔پریس کانفرنس میں ترکی کے وزیرِ خارجہ میولت کاووسوگلو کا کہنا تھا کہ ان کا ملک بھی اپنے اتحادیوں ایران اور روس کی طرح شام کی داخلی سلامتی اور اس کی سرحدوں کے تحفظ پر یقین رکھتا ہے اور انہیں امید ہے کہ شام کے بحران کا کوئی سیاسی حل تلاش کرلیا جائے گا۔

امریکا، برطانیہ اور فرانس نے 14 اپریل کو شام پر کئی میزائل داغے تھے جن کا نشانہ مغربی حکام کے بقول شامی حکومت کی کیمیائی ہتھیاروں کی ایک لیبارٹری تھی۔امریکا اور اس کے اتحادیوں نے یہ میزائل سات اپریل کو شامی حکومت کی جانب سے باغیوں کے زیرِ قبضہ ایک علاقے پر مبینہ کیمیائی حملے کے جواب میں کیے تھے۔شامی حکومت اور اس کا اتحادی روس کیمیائی حملے کے الزام کی تردید کرتے رہے ہیں اور انہوں نے کیمیائی ہتھیاروں پر نظر رکھنے والے بین الاقوامی ادارے کے ماہرین کو مبینہ متاثرہ علاقے تک رسائی بھی دے دی ہے تاکہ حقائق کا تعین کیا جاسکے۔

روس اور ایران شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کے دو اہم ترین غیر ملکی اتحادی ہیں جن کی عسکری مدد شام میں سات سال سے جاری خانہ جنگی کے باوجود اسد حکومت کے برسرِ اقتدار رہنے کا بنیادی سبب ہے۔اس کے برعکس ترکی صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف لڑنے والی باغیوں کی حمایت اور مدد کرتا آیا ہے جن کے خلاف کارروائیوں میں شامی فوج کو ایرانی ملیشیاں اور روس کی فضائی مدد حاصل ہے۔لیکن حالیہ چند ماہ کے دوران ان تینوں ملکوں کے مابین شام کے معاملے پر تعاون میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور تینوں ملک بارہا شام کی صورتِ حال بہتر بنانے کے لیے مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کرچکے ہیں۔