کیا جنرل (ر) راحیل شریف ملک کے نگران وزیر اعظم ہوں گے ؟

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین پیر 30 اپریل 2018 13:25

کیا جنرل (ر) راحیل شریف ملک کے نگران وزیر اعظم ہوں گے ؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 30 اپریل 2018ء) : موجودہ حکومت کی مدت پوری ہونے میں تقریباً ایک ماہ باقی رہ گیا ہے۔ تاہم وزیرا عظم اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ تاحال نگران وزیر اعظم کے ناموں پر اتفاق نہیں کرسکے۔ قومی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق جنرل (ر) راحیل شریف کی زیر قیادت نگران سیٹ اپ چلانے کے آپشن پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے۔

اس ڈیویلپمنٹ سے آگاہ ذرائع نے بتایا کہ اس آپشن پر ایک برس قبل غور شروع کیا گیا تھا، اس کے لیے جواز یہ تھا کہ پاکستان کو کرپشن سے صاف کرنے کے لیے ضروری ہے کہ 3 برس کے لیے ایک مضبوط نگران حکومت تشکیل دی جائے جو بلا تفریق سب کا کڑا احتساب کرنے کے ساتھ ساتھ اہم ترین اصلاحات نافذ کرنے کے بعد عام انتخابات کروائے تاکہ ایک نئی لیڈر شپ سامنے آ سکے اور ملک درست راہ پر گامزن ہو، اب چونکہ یہ مرحلہ نزدیک آرہا ہے لہٰذا ملک کے پالیسی سازوں نے اس ایک برس پُرانے خاکے میں رنگ بھرنے کے لیے سنجیدگی سے غور شروع کر دیا ہے۔

(جاری ہے)

ذرائع کا کہناہے کہ مجوزہ تین سال سالہ نگران حکومت کے دور میں جن اہم اصلاحات کو نافذ کرنے کا پلان ہے ، اس میں صنعت کاروں کی حکمرانی رہے گی ، جو ہر بار الیکشن جیت کر اقتدار میں آجاتے ہیں۔ لہٰذا موجودہ انتخابی نظام میں نئی لیڈر شپ اُبھر ہی نہیں سکتی۔ اصلاحات کے حوالے سے دوسرا اہم ہدف احستاب ریفارمز ہیں۔ پالیسی سازوں کو اُمید تھی کہ موجودہ حکومت اپنے دور اقتدار میں احتساب سے متعلق اہم اصلاحات کو نافذ کردے گی لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔

پالیسی سازوں کو اُمید تھی کہ موجودہ حکومت اپنے دور اقتدار میں کمیشن بھی نہیں بنا سکی۔ یہ معاملہ 2010ء سے زیر التوا ہے۔ لیکن احستاب بل تک منظور نہیں کروایا جا سکا۔ اسی طرح ایجوکیشن ، بیوروکریسی، عدلیہ اور میڈیا کے حوالے سے بھی اہم اصلاحات پلان کا حصہ ہیں، جبکہ پالیسی سازوں کئے خیال میں ان تمام مشکل اہداف کو حاصل کرنے کے لیے نہ صرف دو سے تین برس کی نگران حکومت درکار ہے بلکہ نگران حکومت کا مضبوط ہونا بھی ضروری ہے۔

اسی لیے نگران حکومت کی قیادت کے لیے سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کے نام پر غور کیا جا رہا ہے۔ جبکہ پالیسی سازوں میں سے اکثریت نے ان کے نام پر اتفاق کیا ہے۔ ان کے خیال میں راحیل شریف نے شہری ، دیہاتی اور معاشی ہر قسم کی دہشتگردی کی قریب سے دیکھ رکھا ہے۔ اور اپنے دور میں اس نمٹتے بھی رہے ہیں۔ راحیل شریف بیرونی مداخلت کو بھی بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔

پھر یہ کہ 41 رکنی اسلامی اتحادی فوج کے سربراہ کے طور پر ان کے مختلف ممالک کے اہم لوگوں سے تعلقات اور ہم آہنگی مزید بہتر ہو چکی ہے۔ اور تو اور خلیجی ممالک میں ان کی خاصی آؤ بھگت ہے۔ پالیسی ساز سمجھتے ہیں کہ جنرل (ر) راحیل شریف دبنگ شخصیت کے مالک ہیں۔، لہٰذا ان کی قیادت میں نگران حکومت اپنے تمام مشکل اور اہم اہداف حاصل کر سکتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر اس آپریشن پر آپریشن کا حتمی فیصلہ کر لیا جاتا ہے تو اسلامی اتحادی فوج کی کمان کوئی دوسرا سابق جرنیل سنبھال سکتا ہے۔ اور عین ممکن ہے کہ آئنڈہ ڈیڑھ برس میں ریٹائر ہونے والی کوئی اہم فوجی شخصیت کو ہی سعودی عرب میں یہ ذمہ داری سونپ دی جائے۔