حوثیوں کے سربراہ کے داماد کا پہلا فیصلہ،پرانی شوریٰ کونسل معطل،نئی تشکیل

موجودہ شوری کونسل کی تحلیل کے بعد اس کا نیا نام مجلسِ دانش مندان ہو گا،قانون ساز کرسکے گی،بیان

پیر 30 اپریل 2018 15:04

صنعائ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 30 اپریل2018ء) یمن میں باغیوں کی نام نہادسیاسی کونسل (بین الاقوامی سطح پر غیر تسلیم شدہ) کے مقتول سربراہ صالح الصماد کی جگہ لینے والے مہدی المشاط نے منصب سنبھالنے کے بعد پہلا فیصلہ جاری کرتے ہوئے اپنے پیروکاروں میں سے 32 شخصیات کو شوری کونسل کا رکن مقرر کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ مہدی المشاط حوثیوں کے سربراہ عبدالملک الحوثی کا داماد ہے۔

عرب ٹی وی کے مطابق حوثیوں کے زیر کنٹرول یمنی خبر رساں ایجنسی نے مقرر کردہ شخصیات کے نام جاری کیے اور یہ تمام افراد الصماد دھڑے کے مخالفین میں سے ہیں۔ حوثی قیادت کے قریبی ذرائع نے اس تقرر کو حوثی ملیشیا کے کمزور ترین الصماد دھڑے کی باقیات سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی جانب پہلا قدم شمار کیا ہے۔

(جاری ہے)

ذرائع نے واضح کیا کہ حوثیوں کے سربراہ عبدالملک الحوثی کی جانب سے اپنے داماد کو سیاسی کونسل کا سربراہ مقرر کیا جانا ابھی تک بہت سے دھڑوں بالخصوص حوثی سربراہ کے چچا زاد بھائی محمد علی الحوثی کی نظروں میں کھٹک رہا ہے۔

اس لیے کہ محمد علی خود کو اس منصب کا زیادہ حق دار خیال کرتا ہے۔ اسی طرح عبدالملک کا چچا عبدالکریم امیر الدین الحوثی جو حوثی ملیشیا کے اندر دست و گریباں دھڑوں میں سے ایک اہم دھڑ کا سرغنہ ہے اور اسے بھرپور اختیارات حاصل ہیں۔یمنی باغیوں کے اندرونی ذرائع کے مطابق عبدالملک الحوثی کے چچا اور حوثی ملیشیا کے ایک اہم ترین متخاصم دھڑ کے عناصر کا تقرر اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ حوثی ملیشیا موجودہ پارلیمنٹ کے متبادل کے طور پر شوری کونسل (دوسرا اہم ترین قانون ساز ایوان) پر انحصار کے لیے کوشاں ہے۔

اس لیے کہ پارلیمنٹ میں اکثریت سابق صدر علی عبداللہ صالح کی پارٹی پیپلز کانگریس سے تعلق رکھتی ہے۔ علی صالح کی جانب سے حوثیوں کے ساتھ شراکت داری ختم کرنے کے اعلان کے بعد حوثیوں نے سابق صدر کو قتل کر دیا تھا۔ذرائع کا یہ بھی کہناتھا کہ موجودہ شوری کونسل کی تحلیل کے بعد اس کا نیا نام "مجلسِ دانش مندان" ہو گا اور یہ قانون ساز اختیارات کے استعمال کے لیے پارلیمنٹ کے متبادل کی جگہ لے گی۔ابھی تک اس فیصلے پر حوثیوں کے سربراہ عبدالملک الحوثی کے چچا کا رد عمل معلوم نہیں ہو سکا ہے۔ آیا کہ وہ اسے قبول کر کے صنعاء پر اپنی حکمرانی سے دست بردار ہو گا یا نہیں۔ البتہ ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ حوثیوں کے متخاصم دھڑوں کے درمیان بھڑکے ہوئے اختلافات کو مزید ہوا دے گا۔

متعلقہ عنوان :